علی اشہد اعظمی دوحہ قطر
+974 6698 8675
شادی کرنا سنت ہے اور شادی کے بعد ہی زندگی کی دوسری اننگ کی شروعات ہوتی ہے انسان کے اوپر ذمہ داری آجاتی ہے مرد اور عورت دونوں کو الگ الگ ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں ازدواجی زندگی میں ایک عورت کا مرد کے تئیں اور ایک مرد کا عورت کے تئیں کیا رویہ ہونا چاہیے اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور عموماً وہ ہاتھ اس کی بیوی کا ہی تصور کیا جا تا ہے لیکن اگر یہ بھی کہا جانے لگے کہ ہر کامیابی کی طرف سے ناکامیابی کی طرف جانے والے کے پیچھے بھی ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے جو خصوصاً اس کی بیوی کا ہی ہوتا ہے تو یہ کسی صورت بے جا نہ ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں جہاں کچھ بیویاں شوہروں کی کامیابی کا سبب بنتی ہیں انہیں سپورٹ کرتی ہیں ان کے دکھ سکھ میں ان کا ساتھ دیتی ہیں وہیں کچھ بیویاں ایک ایسی بیماری کا شکار ہوکر اپنے شوہروں کی زندگی عذاب میں مبتلا کر دیتی ہیں جن کے بعد ترقیاں کی سیڑھی چڑھنا تو درکنار بلکہ اپنے مقام کو بر قرار رکھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے اور وہ ہر وقت اپنی بیویوں کی جاسوسی سے بچنے ، ان کے بے جا سوالات، انہیں شکی عادات سے چھٹکارا دلانے کی تدابیر ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ یہ بیماری شک کی بیماری ہے جو ہمارے یہاں بہت سی عورتوں میں پائی جاتی ہے اور کبھی کبھار یہ بیماری ایک لاعلاج مرض کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے۔ شکی بیویاں اپنے شوہروں پر نہ صرف ہر وقت کڑی نظر رکھتی ہیں بلکہ ان کی اچھی عادات کو بھی منفی پیرائے میں دیکھنا اور پرکھنا شروع کر دیتی ہیں۔ اگر ان کے شوہر کسی بیوہ عورت کی مدد کر دیں یا کوئی امدادی کام کریں، کسی خاتون کی تعریف کریں یا کوئی خاتون ان کی تعریف کرے تو انہیں یہ خدشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ ان کے شوہر یہ کام صرف اس لئے کر رہے ہیں کہ انہیں اس عورت میں دلچسپی ہے اور وہ دوسری شادی کے خواہاں ہیں۔ انہیں ہر ایک عورت کے حوالے سے یہی خطرہ لاحق رہتا ہے کہ ان کے شوہر ان کی جانب خصوصی متوجہ ہیں اور انہیں ان کی جگہ دے رہے ہیں۔ انہیں ان کے شوہرکی محبوبائیں اس کی سکریٹری، اس کی باس، اپنی پڑوسن اور دیگر ملنے جلنے والی خواتین میں نظر آنے لگتی ہے اور پھر یہی وجہ ہے کہ انہیں ایسا بھی گمان ہونے لگتا ہے کہ ان کے شوہر اچانک ان کی جانب سے لا پرواہ ہو گئے ہیں، گھر دیر سے آنے لگے ہیں، کھانا کم کھانے لگے ہیں تو یقیناً باہر سے کھا کر آئے ہونگے وغیرہ وغیرہ۔ انہی باتوں کی وجہ سے وہ اپنے اس شکی مزاج میں مزید پختگی پیدا کرتی چلی جاتی ہیں کہ ان کے شوہر دوسری عورتوں میں دلچسپی لینے لگے ہیں چا ہے ایسا کچھ ہو یا نہ ہو۔
یہ تمام باتیں اس رشتے کو جس نازک مقام پر لے جاتی ہیں وہاں شوہر اور بیوی نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرنے کے خواہش مند ہو جاتے ہیں جو ایک ایسا عمل بن جاتا ہے جس کے بعد حالات بد سے بد تر بنتے چلے جاتے ہیں ابتداء میں تو ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ سب کو خوشی اور اطمینان دے گا لیکن در حقیقت یہ فیصلہ سب کا سکھ اور چین ختم کرنے کا سبب بن جاتا ہے جہاں شوہر یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس بیوی سے جان چھڑا کر کسی اور اچھی بیوی کا انتخاب کرے گا وہاں اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے کیونکہ وہ ہر عورت میں اپنی بیوی جیسی ہی خوبیاں تلاش کرتا ہے جو اسے مشکل سے ہی ملتی ہیں جبکہ عورت بعض اوقات ساری زندگی اکیلے ہی گذارنے پر مجبور ہوجاتی ہے اور بچے در بدر ہوجاتے ہیں نہ ہی ان کی پرورش ہو پاتی ہے نہ ہی وہ ذہنی سکون کے مالک ہو تے ہیں بلکہ اس فیصلے سے ہر ایک کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ کسی بھی مشکل کا حل نکالنے کے لئے اس سے مشکل راستہ اختیار کرنا کہیں کی عقل مندی نہیں بلکہ اس مشکل کو کسی آسان اور مذاکراتی طر یقے سے حل کرنا ہی کسی بھی رشتے کی خوبصورتی اور مضبوطی کو واضح کر تا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ اس مسئلے کا حل بھی نکالنے کے لئے طلاق جیسی خطر ناک حد تک نہ جایا جائے جہاں پہنچنے پر ہر ایک ہی اپنی زندگی مشکل میں ڈالتا ہے بلکہ اپنے سے وابستہ لوگوں کو بھی ایک کڑے امتحان میں ڈال دیتا ہے۔ بہرکیف حقیقت تو یہی ہے کہ جو عورت اپنے شوہر اور گھر سے محبت رکھتی ہے وہ ہی اسی باتوں میں اور ایسی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی محبت ہر وقت اس خطرے میں خود کو محسوس کرتی ہے کہ کہیں وہ سب اس سے چھین نہ جائے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی اس کمزوری کو سمجھتے ہوئے انہیں پیار اور محبت سے سمجھائے ان پر غصہ کرنے یا ان کی باتوں پر چیڑنے کے بجائے ان کو یقین دلائیں کہ ان کی زندگی میں اگر کسی کی اہمیت ہے تو وہ صرف وہی ہے جو مجھ سے بہت محبت کرتی ہے میرے گھر کا خیال رکھتی ہے ایسی باتیں نہ صرف بیوی کو اس بیماری سے نکالنے میں بلکہ گھر کے ماحول کو بہتر بنانے اور رشتے کو مضبوط کرنے میں اپنا ایک موثر کردار ادا کر تی ہیں۔ شوہروں کو چاہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ ہر بات شیئر کریں، انہیں اپنے خطوط پڑھائیں ،انہیں اپنی درازیں چیک کرنے کے مواقع فراہم کریں، انہیں کسی بھی معاملے پر آزادانہ بات اور اظہار کرنے کا حق دیں، انہیں ہر مسئلے اور معاملے سے واقف رکھیں، آفس میں بے جا وقت گذاری سے پر ہیز کریں اپنی بیویوں کو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔ انہیں سمجھیں اور انہیں پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں کیونکہ کسی بھی رشتے میں اس چیز کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ جب شوہر اپنی بیویوں کو یہ اہمیت نہیں دیتے ان سے اپنی باتیں اور معاملات چھپاتے ہیں یا ان سے جھوٹ بولتے ہیں تو ان میں یہ شک کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے نقصان دہ فیصلے کی طرف چلی جاتی ہے جس سے ایک خاندان اور گھر تباہ ہو جا تا ہے۔
جہاں ہم نے شوہروں کو ان کی ذمہ داری اور ان کے کئے جانے کام یاد دلائے ہیں وہیں ضروری ہے کہ خواتین کو بھی کچھ باتوں سے آگاہ کیا جائے انہیں ان کی ذمہ داری اور شوہروں پر موجود ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔ بیویوں کو یہ سوچنا چا ہے کہ اگر ان پر کوئی صرف اپنی سوچ کے مطابق الزامات لگانا شروع کر دیتے ان کی ذات کے ساتھ کسی دوسری ذات کو منسلک کرنے لگیں تو ان پر کیا گذرے گی۔ یہی وہ سوچ ہے جو انہیں یہ بتاسکتی ہے کہ اپنے شوہروں کے بارے میں بنا سوچے سمجھے یوں الزامات عائد کر نا کہیں کی عقلمندی نہیں بلکہ معاملات کو سمجھنا اور ان کے ہر پہلووں پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ جب بھی وہ اپنے شوہروں میں کوئی خامی یا تبدیلی پائیں انہیں ایک کاغذ پر تحریر کرلیں اور اس کے سامنے وہ ممکنہ وجوہات بھی لکھیں جو ایسی صورت میں کسی بھی عام آ دمی کے ساتھ پیش آسکتی ہیں اور پھر فیصلہ کریں اور مثبت پہلوؤں کو سامنے رکھیں۔ اگر شوہر دفتر سے گھر دیر سے آرہا ہے تو یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ دفتروں میں اکثر اوقات کام کی زیادتی اور دباؤ کے باعث ایسا ہو سکتا ہے اور اگر وہ اپنا کام محنت اور لگن سے کر رہا ہے تو وہ بھی صرف اس لئے کہ وہ آپ کو اور آپ کے بچوں کو ایک اچھی اور پرسکون زندگی دینا چا ہتاہے۔ اگر وہ کسی خاتون کی مدد کر رہا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں بلکہ آپ کو یہ دیکھنا چاہے کہ آپ کے شوہر انسانی ہمدردی رکھتے ہیں جو ایک اچھا فعل ہے۔ اگر شوہر کوئی پرائیوٹ دراز یا ڈائری رکھتا ہے جسے وہ آپ کے ساتھ شیئر نہیں کرتا تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ سے اپنی عشق کی داستان چھپا رہا ہے بلکہ بہت سے مرد اپنی چیزوں کو لے کر اسی طرح کی احتیاط برتتے ہیں اور اسے محفوظ رکھنے کے لئے ایسی دراز یا ڈائری استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال اگر ان تمام باتوں کے باوجود بھی کچھ بات ایسی ہے جو آپ کو کسی تشویش میں مبتلا کے ہوئے ہے تو اس کا بہترین حل اسے مل کر بیٹھ کر بات کر نے سے نکالیں، غصے یا چیخنے چلانے یا اپنی مرضی سے کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے گریز کریں کیونکہ بہت سی چیزوں کو ہم جس نظریہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ ویسی ہوتی نہیں بلکہ اس بلکل مختلف انداز رکھتی ہیں تو بہتر یہی ہے کہ سامنے والے کا انداز اور نظریہ جاننے کی کوشش کی جائے اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے۔
بعض خواتین اپنی یہ جاسوسی اور شک دوسروں کے ساتھ بھی شیئر کرتی ہے جس کے باعث انہیں ایسے مشورے اور طریقے بھی سننے کو ملتے ہیں جو ان کی زندگی کو برباد کرنے کے لئے کا فی ہوتے ہیں کیونکہ ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا، آپ کے بہت سے دوست اور رشتہ دار واقعی میں آپ کے خیر خواہ نہیں ہوتے اور جب آپ ان سے اپنے مسائل بیان کرتے ہیں تو اپنی دشمنی نکالنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے اور ان کے یہ مشورے آپ کی زندگی آپ کے حسین رشتے میں تباہی کا سبب بن جاتے ہیں اگر آپ کسی سے کچھ شیئر کرنا ہی چا ہتے ہیں تو اپنے کسی عقلمند خیر خواہ کو ڈھونڈیں۔ “اگر ان تحقیقات، خیرخواہ کی یقین دہانی اور سمجھانے کے باوجود کہ آپ غلط ہیں آپ کو ایسا ہی لگتا ہے کہ آپ کے شوہر کسی اور میں دلچسپی لے رہے ہیں تو آپ یہ مان لیں کہ آپ کو کسی اچھے سائیکولوجسٹ کی ضرورت ہے” آپ ایک بیماری کا شکار ہیں جس کا علاج بہت ضروری ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجو د بھی طلاق یا علیحدگی یا لڑائی جھگڑے کسی بات کا حل نہیں اور یہ آپ کی ہی کی غلطی ہے کہ آپ کے شوہر کسی دوسری عورت کی جانب متوجہ ہوئے کیونکہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب آپ ان کو اس کا موقع اپنے کردار اور افکار سے دیں تو خود پر دھیان دیں، اپنے طور طریقوں کو شوہر کی پسند اور سمجھ کے مطابق رکھ کر اس کا ساتھ دیں اور پھر بے جاشک کے بجائے اعتماد کا اظہار کریں اور پھر اس بات کا اطمینان رکھیں کہ آپ کی یہ تمام خوبیاں اسے کہیں جا نے نہیں دیں گی۔