اسرائیل -لبنان سرحد پر کشیدگی کیوں ؟

0

مغربی ایشیا اگرچہ کافی حد تک یکساں تہذیب وثقافت زبان والے ممالک کا مجموعہ ہے ،مگر اس خطے کی سیاست جس تیزی سے بدلتی ہے اس کے بارے میں پیشگی کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ پچھلے دنوں مغربی ایشیا کے کئی ممالک میں افہام وتفہیم کا دور شروع ہوا اور ایسا لگا کہ اب یہ خطہ امن وامان کا گہوارہ بن کر منظر عام پر آئے گا، مگر اب حالات میں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے اور کئی تبدیلیاں نا خوشگوار ہیں۔
ایران اور سعودی عرب نے اپنی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی جس میں کافی کامیابی ملی اس کے بعد وہ تمام ممالک جو 2011کے بعد سے ایک دوسرے کے خلاف متصادم تھے ، اب روابط قائم کرچکے ہیں ،اس طرح مغربی ایشیا اور افریقہ کے اکثر مسلم اور عرب ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ روابط بنا لیے ہیں، مگر پچھلے دنوں اسرائیل ،شام ، مصر سے مربوط ایک ملک لبنان جو کہ ایک عرصہ تک خانہ جنگی اور خارجی مداخلت کا شکار ہے ،کے حالات نے ایسی کروٹ لی ہے جو اس ملک کو ایک پھر بدترین خانہ جنگی سے دوچارکرسکتے ہیں۔ اس وقت لبنان اقتصادی اور سیاسی محاذ پر عدم استحکام کا شکار ہے۔ اسرائیل نے اس کی اچھی خاصی زمین پر قبضہ کررکھا ہے اور دونوں ملک حالت جنگ میں ہیں، اگرچہ فرانس نے مداخلت کرکے بالواسطہ طور پر دونوں ملکوں کے درمیان سمندر سے قدرتی گیس نکالنے کے معاملہ پر ایک سمجھوتہ کرا دیا ہے، مگر اس کے باوجود کیونکہ شام میں فوج، حکومت، عدلیہ کے وغیرہ کے علاوہ کئی ایسے پلیئرس ہیں جو اس ملک اور قرب وجوار کے کئی ممالک پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ لبنان کئی مذاہب ، نسلوں اور مسالک کا مسکن اور محور ہے ،مگریہی اس کی ہمہ جہت تہذیب وثقافت اس ملک کو شدید بحران میں مبتلا کررہی ہے، اگرچہ لبنان کی خود کی اپنی مضبوط فوج ہے ، مگر اقتصادی بحران کی وجہ سے لبنان اپنی فوج کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں اس کو کئی ممالک کی مالی امداد اور تعاون پر منحصر ہونا پڑتا ہے۔ ان ممالک میں امریکہ، قطر، فرانس، سعودی عرب، ایران بطور خاص شامل ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ ممالک لبنان کے کئی پلیئرس کی حمایت کرتے ہیں اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے کبھی درپردہ اور کبھی کھلے عام دبائو ڈالتے ہیں۔ لبنان ایک طویل عرصہ تک خانہ جنگی کا شکار رہا ہے اور طائف سمجھوتہ کے بعد سیاسی استحکام کا جو فارمولہ ہوا تھا اس کے تحت کچھ عہدیداروں اور وزارت کو خاص مکاتب فکر ، مذاہب اورنسلوں کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔ لبنان میں شیعہ ، سنی ، عیسائی اور دیگر کئی نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد حساس اور بااثر عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ کئی فرقوں کے اپنے مسلح گروہ ہیں جو روز مرہ کی زندگی متاثر کرتے ہیں ، اقتصادی نوعیت کے اہم فیصلے کرتے ہیں اور حتیٰ کہ غیر ملکی تعلقات بھی متاثر کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایک اہم تنازع نکل کر سامنے آیا ہے ۔ شیعہ ملیشیا نے جو کہ اسرائیل سے ملی ہوئی سرحد پر اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔اسرائیل جو کہ اپنی سرزمین کے دفاع کے بہانے لبنان میں اکثر فوجی کارروائی کرتا رہتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی فوج تعینات ہے، مگر شیعہ ملیشیا حزب اللہ جو ایک سیاسی طاقت بھی ہے اور اسرائیل مسلسل اپنی روایتی تصادم کی وجہ سے باہم متصادم رہتے ہیں۔ 1975سے 1990کے درمیان تک لبنان میں جو خانہ جنگی رہی اس کے اثرات ابھی تک لبنان میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ عسکری معاملہ میں حزب اللہ کو بالا دستی حاصل ہے۔ 2006میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 33دن کی جنگ ہوئی تھی ، جس میں اسرائیل کو لبنان کی وادی بقا سے اپنی فوجیوں کو واپس بلا نا پڑا تھا۔ اسرائیل جو کہ پڑوس کے تمام ملکوں پر اپنی عسکری بالا دستی بڑی طاقتوں کی سرپرستی کی وجہ سے حاوی رہتا ہے ، اس کو قدر شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کے اثرات اسرائیلی فوج پر ابھی بھی نظرآتے ہیں ۔ اسرائیل 17سال پہلے واپس وادی بقا سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا ، اس انخلا کی سالگرہ کے موقع پر حزب اللہ ہر سال بڑی پریڈ کرتا ہے ، اگر چہ یہ پریڈ غیر مسلح ہوتی ہے ، مگر اس کے نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں جو لبنان کی سیاسی او رسماجی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ اب حالات یہ ہے کہ دونوں فریق یا حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہے اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے خطے کی موجودہ بظاہر پرامن صورت حال متاثر ہوسکتی ہے۔ خیال رہے کہ حزب اللہ کے پس پشت ایران کی مکمل سپورٹ ہے او رپچھلے دنوں دونوں ملکوں ایران اور اسرائیل میں کشیدگی بڑھنے کے آثار ہیں کیونکہ اسرائیل کئی مسلم ملکوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے ایک غاصب طاقت بن گیا ہے جو نہ صرف فلسطینیوں پر مظالم کررہی ہے بلکہ پڑوس کے تمام ملکوں کی سرزمین قبضہ کرنے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عمل میں لانے کی کوشش کررہی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل متحدہ حکمت عملی اپنا کر ایران کو کنارے کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر لبنان کی طرف سے آنے والی مزاحمت اسرائیل کو بھاری پڑسکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS