اسلام آباد (یو این آئی) : طالبان کے سلسلے میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کی کشیدگی اور افغان حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر پاکستان نے افغان امن کانفرنس کی میزبانی کا اپنا منصوبہ ترک کر دیا ہے جس میں افغانستان کی سیاسی قیادت کو بھی شریک ہونا تھا۔ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک سینئر عہدیدار نے تصدیق کی کہ یہ منصوبہ خاموشی سے ترک کر دیا گیا ہے ۔کانفرنس میں افغانستان کی سیاسی قیادت کی شرکت متوقع تھی جو17 سے 19 جولائی تک منعقد ہونی تھی تاکہ افغانستان میں امن کی کوششوں کو حوصلہ ملے ۔ اس کانفرنس میں بشمول عبداللہ عبداللہ، کریم خلیلی، محمد یونس قانونی، گلبدین حکمت یار، محمد حنیف اتمر، صلاح الدین ربانی، اسمٰعیل خان، عطا محمد نور، سید حامد گیلانی، سید اسحٰق گیلانی، باتور دوستم اور میرواس یاسینی سمیت 21 نمایاں افغان رہنماؤں کو اسلام آباد میں کانفرنس کیلیے مدعو کیا گیا تھا۔
جبکہ ان میں سے متعدد نے اپنی شرکت کی تصدیق کی تھی۔تاہم ازبکستان میں افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران کانفرنس ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ کہا گیا کہ کانفرنس ملتوی کردی گئی کیونکہ افغان رہنما، طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے دوحہ کے دورے پر ہوں گے ۔پاکستان کی حکومت کانفرنس میں افغان رہنماؤں کی توقعات سننا چاہتی تھی کہ وہ پاکستان سے کیا چاہتے ہیں۔ عہدیدار نے بتایا کہ افغان رہنما انفرادی طور پر پاکستانی حکام کے ساتھ اپنی بات چیت میں مختلف مطالبات کرتے ہیں، اس لیے ہم نے سوچا کہ یہ کانفرنس افغان رہنماؤں کی توقعات اور مطالبات کو مشترکہ طور پر سننے میں مددگار ثابت ہوگی۔حکومت اب وزرائے خارجہ کی سطح پر افغانستان پر علاقائی کانفرنس بلانے کے بارے میں سوچ رہی ہے ۔ دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ایک بیان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے پہلے بیانات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی پسندیدہ فریق نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی پسندیدہ فریق نہیں ہے ، ہم تنازع کے تمام فریقین کو افغان سمجھتے ہیں جنہیں اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسٹر زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ ہم افغان امن عمل میں تعمیری سہولت کار کا کردار ادا کرتے رہیں گے ۔انہوں نے کہا کہ یہ ‘افسوسناک’ ہے کہ میڈیا نے افغان قیادت اور افغان ملکیت میں امن عمل کے ذریعے افغانستان میں امن اور استحکام کی ضرورت کے بارے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ریمارکس کو غلط انداز میں پیش کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ دراصل وزیر خارجہ نے واضح طور پر عالمی برادری، علاقائی فریقین اور افغانوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف اتفاق رائے کے بارے میں بات کی۔انہوں نے واضح کیا کہ ان کے ریمارکس کو کسی بھی طرح سے افغان تنازع میں کسی خاص فریق کی وکالت کے طور پر غلط نہیں سمجھا جاسکتا۔
’افغان امن کانفرنس‘پاکستان کا میزبانی کا ارادہ ترک کرنے کا منصوبہ کیوں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS