غزہ کے مکینوں سے ہمدردی کیوں نہیں؟

0

اسرائیل گزشتہ 10ماہ سے جاری بربریت آمیز فوجی کارروائی کو لگاتار شدید بنا رہا ہے اور اس کا دائرہ بھی وسیع کررہا ہے۔ یہ سب کچھ وہ اپنے دفاع کی دہائی دے کر کر رہا ہے۔ اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیو ںکی رہائی کے لیے جو مذاکرات حماس اور اسرائیل کے درمیان ہورہے تھے ان سے حماس کی علیحدگی کے بعد اسرائیل نے نہ صرف یہ کہ غزہ میں اپنی بربریت آمیز کارروائی کو شدید کیا ہے بلکہ وہ اب علاقے کے دوسرے حصوں میں بھی اپنی جنگ کو وسیع کررہا ہے۔ ایران کے اندر حماس کے لیڈر کے قتل کے بعد مغربی ایشیا کا منظرنامہ خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے۔ اسرائیل نے آج صبح غزہ کے دو اسکولوں پر حملہ کرکے کم از کم 30لوگوں کو ہلاک کردیا ہے۔ اس طرح غزہ میں گزشتہ 48گھنٹوں میں مرنے والوں کی تعداد 40ہوگئی ہے۔ اسرائیل نے یہ کارروائی وسطی غزہ کے ایک اسپتال میں لگے ہوئے کیمپ پر حملہ کرکے کی۔ اس کارروائی کے بعد جو فوٹیج سامنے آیا ہے اس میں بڑے بھیانک مناظر نظرآرہے ہیں۔ اسکول کے چاروں طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں ۔ مرنے و الوں میں بچے اور عوتیں بھی شامل ہیں۔
غزہ کی سول ایمرجنسی سروسز نے کہاہے کہ اس کارروائی میں دو اسکولوں حسن سلامہ اور النصر میں حملہ کیا گیا جہاں پر بے گھر لوگ پناہ لیے ہوئے تھے۔ دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے دہشت گرد اس اسکول میں پناہ لیے ہوئے تھے اور عام فلسطینیوں کے ساتھ ملے جلے ہوئے تھے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کو ڈھال بنا کر حماس کارروائی کررہا ہے۔ حماس اس دعویٰ کو غلط قرار دے رہا ہے۔ اس سے قبل غزہ میں الاقصیٰ اسپتال میں اسرائیلی فوجی کارروائی کے بعد آگ لگ گئی جس میں پانچ لوگوں کی موت ہوگئی ہے اور 18 افرادزخمی ہوگئے۔
اسرائیل کے وسطی علاقوں میں قائم دیر البلا اسپتال میں جہاں پر ہزاروں فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں میں بہت سے لوگ مارے گئے ۔ اس علاقے میں اسرائیل نے ایک گھر میں میزائل داغا تھا۔ اسی طرح ایک اور کارروائی میں کار میں سفر کررہے مسافروں پر حملہ کردیا جن میں 8لوگوں کی موت ہوگئی۔ مغربی ممالک جنگ کو پھیلنے سے روکنے کی بات تو کرتے ہیں مگر ان کا سارا زور غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں ہلاکتوں کو روکنے کی طر ف نہیں ہے۔ امریکہ او رجنوبی ممالک نہیں چاہتے کہ جنگ لبنان میں شروع ہوجائے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لبنان میں پہلے ہی بہت افراتفری ہے دو سرا یہ کہ حزب اللہ ایک بڑی فوجی اور منظم طاقت ہے اور 2006میں اسرائیل کو شکست سے دوچار کرچکی ہے۔
خیال رہے کہ تہران میں گزشتہ بدھ کو اسماعیل ہنیہ کے موت کے بعد اسرائیل اور فلسطینی کے درمیان شدید کشیدگی ہے اس سے قبل اسرائیل نے لبنان میں حماس کو مدد پہنچانے والے حزب اللہ کمانڈر فواد شکور کو ہلاک کر دیا تھا۔ اسرائیل کو یہ اندیشہ ہے کہ ان دونوں کارروائیوں کے بعد ایران اسرائیل پر حملہ کرسکتاہے اور اسی لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اعلیٰ افسران اور فوجی ماہرین کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں۔ انہوںنے وزیر دفاع اور فوجی سربراہوں کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ اس دوران ایران کو آگاہ کیاہے کہ اگر اس نے اسرائیل پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع نے بھی کہا ہے کہ ایران کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔
واضح رہے کہ ایران کا خیال ہے کہ حماس کے چوٹی کے لیڈر کے قتل کے پس پشت اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ اسرائیل نے نہ تو اس الزام کی تردید کی ہے او رنہ تائید کی ہے۔ جبکہ ایران ان دونوں اموات کا بدلہ لینے کا اعلان کرچکا ہے۔ اس دوران دنیا کے 7 طاقتور ملکوں کے گروپ جی-7نے خطے میں ممکنہ جنگ کے پھیلائو پر آگاہ کیا ہے ۔ میلان میں گروپ 7کے وزیر خارجہ کی میٹنگ میں اٹلی کے وزیر خارجہ انٹونیوں تجانی نے کہا ہے کہ موجودہ صورت حال خطے میں حالات کو خراب تر کرسکتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ جنگ لبنان سے شروع ہو۔ انہوںنے علاقے کے ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگ کو پھیلنے سے نہ روکے۔ انہوںنے گروپ 7کے ملکوں سے کہا ہے کہ وہ علاقے میں انسانی سانحہ کو روکنے کے لیے کوشش کریں۔ وزرائے خارجہ نے اس موقع پر کہا کہ وہ غزہ میں انسانی بحران کو کم کرنے کے لیے حتی الامکان کوشش کررہے ہیں۔
جنگ کے پھیلنے کے تحت علاقے میں سفارتی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ اردن کے وزیر خارجہ نے صورت حال پر غور کرنے کے لیے ایران کا دورہ کیا۔ وزیرخارجہ اردن نے کہاہے کہ ان کا ملک اپنے دوستوں اور ہم خیال فریقوں سے بات چیت کرکے جنگ کو ہر ممکن طریقے سے روکنے کی کوشش کرے گا۔ اے مان سفادی نے کہا ہے کہ وہ امریکہ ، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور مصر کے ساتھ مسلسل بات چیت کررہا ہے اور اس کی بات چیت کا مقصد جنگ کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ خیال رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے اور یہ دورہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ علاقے کو جنگ سے محفوظ رکھنے کی بھی ایک سعی ہے۔
2011میں نام نہاد جمہوریت نواز تحریکوں کے درمیان مغربی افریقہ اور مشرقی وسطی کے کئی ملکوں میں بدنظمی اور بدامنی پھیل گئی تھی اس کے بعد سعودی عرب اور ایران نواز گروپ کے ملکوں میں تعلقات بہت زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ اس سال اپریل میں چین کی مفاہمت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے تھے اور دونوں گروپوں کے سفیروں نے ایک دوسرے کی راجدھانیوں میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب مغربی ایشیا میں امن اور ترقی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے مگر 7اکتوبر 2023کی واردات کے بعد پورا مغربی ایشیا بارود کے ڈھیر پر آگیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ ایک ہفتہ میں جو ہلاکتیں ہوئی ہیں ان کی وجہ سے حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ ایران نے امریکہ سے کہاہے کہ وہ اسرائیل کی مدد کرنا بند کرے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS