بھارتیہ جنتاپارٹی کی بے آب و رنگ سیاست کو دلہن بناکر دہلیز اقتدار تک پہنچانے والی ’ جارحانہ قوم پرستی‘ اور ’جمہور دشمنی‘ کا راہل گاندھی نے پردہ کیا چاک کیا ہے کہ مانو آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ بی جے پی کا ہر لیڈراور کارکن راہل گاندھی کے خلاف میدان میں کود پڑا ہے۔ سوشل میڈیا کے چنچل نگارخانہ کاسہارالے کر افتراپردازی تو کچھ حد تک سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن پارلیمنٹ کے منتخب اور معزز ارکان بھی ان ہی پامال راہوں کے مسافربن گئے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ راہل گاندھی ملک سے معافی مانگیں۔ ہر روز بی جے پی کا کوئی نہ کوئی رکن برطانیہ میں راہل گاندھی کے بیانات پر تنقید کرنے کیلئے کھڑا ہوتا ہے۔ موجودہ وزرا سے لے کر سابق وزرا تک سبھی راہل گاندھی کے خلاف صف بستہ ہوگئے ہیں۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اپنے دورہ برطانیہ کے دوران کیمبرج یونیورسٹی سے لے کر برطانوی پارلیمنٹ تک جو کچھ بھی کہا، وہ سب ریکارڈ پر ہے۔ اس کے باوجود ان کی تقریر کے منتخب حصوں کو پیش کرکے ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ راہل گاندھی نے بیرون ملک جا کر ملک پر تنقید کی اور اندرونی معاملات میں دوسرے ممالک سے مدد مانگی۔ ایوان سے باہر کوئی انہیں ملک سے نکالنے کاداعی ہے تو کوئی انہیں غدار قرار دے کر گرفتاری کا مطالبہ کررہاہے تو کہیں ان کی ’ملک دشمنی ‘کا ڈھول پیٹاجارہاہے۔
اور یہ سب ملک کی عزت، افتخار اور وقار کے نام پر ہورہاہے۔ بی جے پی اوراس کے ہم نوائوں کا دعویٰ ہے کہ راہل گاندھی کا برطانیہ میں دیاجانے والا بیان ہندوستان کی سبکی اور ملک کے قومی افتخار کے خلاف ہے۔ لیکن دعویٰ کرنے والوں کا ہرعمل بجائے خود اس کی تردید کررہا ہے۔ آج ہندوستان میں جو کچھ ہورہاہے وہ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہندو بنیادپرستی کے نظریات کو ریاستی طاقت کی پشت پناہی سے سماج کی ہر پرت پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک کی معیشت کو تباہ و تاراج کرنے والے بددیانت تاجروں کی پشت پناہی میں حکومت اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ اسے ملک کی عزت و افتخار اور عالمی برادری میں ہورہی رسوائی کا بھی پاس نہیں رہا ہے۔ فلاحی منصوبوں کو بندکرکے عوام کے خون پسینہ کی گاڑھی کمائی پسندیدہ صنعت کاروں اور سرمایہ داروں پر واری جارہی ہے۔اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ آئین سے وفاداری کا عہد باندھنے والے سر عام آئین کا تقدس پامال کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کو بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہے، مائک بند کردیے جاتے ہیں تو سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں کو آگ میں زندہ جھونکا جارہا ہے۔ مذہبی آزادی پر زنجیریں ڈال دی گئی ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی تو عرصہ ہواخود اپنا تابوت اٹھائے پھر رہی ہے۔ اختلاف کی ہرآواز کو اس کے مخرج میں ہی گھونٹ ڈالاجارہاہے۔ ایجنسیوں کاظالمانہ استعمال کرتے ہوئے شوریدہ سری کی ہر لہرپرآہنی جال ڈالا جا رہا ہے۔مخالفین کا زن بچہ بھی کولھو پیلوایاجارہاہے۔ لالو پرساد یادو اوران کی بیوی، بچوں کے ساتھ ہونے والے سلوک میں اس کی جھلک پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ٹھوس ثبوت کی عدم موجودگی میں فقط بیانات اور الزامات کے سہارے مخالفین کے ہراول دستہ کو ایجنسیاں نوک قانون پر پہلے سے ہی اچھالتی آرہی ہیں، اب حزب اختلاف کا میمنہ اور میسرہ بھی ان کے مشق ستم کی زد میں ہے۔
دہلی کی عام آدمی کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے، اس کے لیڈروں اور وزیروں کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش بھی دنیا کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے۔منیش سسودیا کو منسوخ شدہ ایکسائز پالیسی میں منی لانڈرنگ کے الزام پر سی بی آئی اور ای ڈی فٹبال بنائے ہوئے ہے۔ ایک ایجنسی کے الزامات پرضمانت ملتی ہے کہ انہیں پکڑنے کیلئے دوسری ایجنسی فرد جرم لیے تیار کھڑی ہوجاتی ہے۔جنوب میں ایم کے اسٹالن کے باغیانہ لہجہ اور اپوزیشن اتحاد کی پکار کے بعد بہاری- تمل فسادات کی سازش بھی سیاست کی ان ہی مکروہات کا ثمر خاردار ہے جوقبائے جمہوریت کے ریشے ادھیڑ رہاہے۔
ان حالات میں اگر راہل گاندھی نے ملکی جمہوریت پر سوال اٹھایا ہے تو کیا غلط کیا ہے ؟اگرا نہوں نے یہ کہا ہے کہ ہندوستان میں میڈیا اور عدلیہ کنٹرول میںہے تو اس میں کوئی ابہام بھی نہیں ہے۔ہمارے ٹیلی ویژن اسکرین کے ذریعہ فرقہ وارانہ زہر کی گلکاری تو ریکارڈ پر ہے۔فریقین کو ناپ تول کر فیصلے دینے والی عدلیہ کے کلاہ افتخار کی خیرہ کن چمک بھی اقتدار کے آگے ماند پڑتی دنیا دیکھ رہی ہے۔ یہ عدم مساوات، ناراضگی اور جمہوری اقدار کی پامالی کو جھوٹ اور ملک کی بدنامی بتانے والی بی جے پی راہل گاندھی کے سوالوںکا جواب دے یا نہ دے لیکن ان کے شکوہ کو ملک دشمنی ٹھہرانے کیلئے جو جھوٹ گڑھ رہی ہے اس کی کوکھ سے پھوٹنے والا تعفن و غلاظت سیاست کے مکروہ چہرے کی بدنمائی میں اضافہ ہی کرتے جارہے ہیں۔
[email protected]
جمہوریت پر سوال کیوں نہیں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS