لوک سبھا اسپیکر کیوں ہوگیا ہے اس قدر اہم

0

ہندوستان کا پارلیمانی نظام برطانیہ کے نظام پر مبنی ہے۔ برطانیہ کے نظام حکومت کو مجموعی طور پر ویسٹ منسٹر فارم آف گورنمنٹWest minister of Govenment کہا جاتا ہے۔ اس طرز کے نظام میں دوایوان ہوتے ہیں ۔ ایوان بالا اور ایوان زریں۔ برطانیہ میں براہ راست چن کر آنے والے ممبر پارلیمنٹ ہائوس آف کامنس کے ممبر ہوتے ہیں۔ ان کو ایم پی کے علاوہ Commoncrs بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح ایوان بالا یعنی ہائو س لارڈس میں بالواسطہ منتخب ممبران ہوتے ہیں جو مختلف شعبۂ ہائے زندگی میں کارنامے انجام دیتے ہیں یا گراں قدر خدمات کے لیے جانے پہچانے جاتے ہیں ان کو اس ایوان میں نمائندگی ملتی ہے۔ برطانیہ ایک ـConstitutional Monarchry Head of State تو ہے مگرآئینی شہنشاہیت ہے جہاں پر شاہی خاندان کا سربراہ بادشاہ یا ملکہ کا ملک کے نظام میں کوئی براہ راست عمل دخل نہیں ہوتا اور ایک منتخب حکومت ہی سارے فیصلے کرتی ہے۔ اس طرح شہنشاہیت بادشاہ یا ملکہ ایک علامتی سربراہ ہوتا ہے جبکہ سارے فیصلے وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کرتی ہے۔ہندوستان اگرچہ برطانیہ طرز حکومت سے متاثرہے اور زیادہ تر روایات اصول وضوابط تقریباً برطانوی طرز حکومت پر مبنی ہے مگر ہندوستان ایک ری پبلک ہے جس کا سربراہ صدر جمہوریہ بھی منتخب ہوتا ہے اگرچہ یہ انتخاب براہ راست نہیں ہوتا ممبران پا رلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے ممبران صدر جمہوریہ کو منتخب کرتے ہیں۔

برطانیہ نے اسپیکر کے عہدے کو لے کر کافی احتیاط برتی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک اور سیاسی وغیر سیاسی قیادت توقع کرتی ہے کہ کوئی بھی اسپیکر اگر غیر جانبدار نہ ہو تو وہ اپنے عہدے اور اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا۔ غیر جانبدار رہے بغیر کوئی بھی اسپیکر منصفانہ فیصلہ نہیں کرتا اسی لیے برطانیہ میں روایت ہے کہ یہ عہدیدار بیک بنچرBack Bencher یعنی پیچھے کی صف میں بیٹھنے والا جو نیئر ایم پی ہوتا ہے۔ یعنی کوئی جونیئر سا ممبر پارلیمنٹ جو اپنی لیاقتوں کے باوجود سینئر سیاست داں نہ ہو اس کو اسپیکر کی ذمہ داری اسی سپرد کی جاتی ہے تاکہ غیر متنازع ہو کر یہ اپنے فرائض کو انجام دے سکے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ اسپیکر کے عہدیدار اپنی مرضی کے بغیر منتخب کیا جاتاہے یعنی وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے اجتناب کرتا ہے اور جب اس کا انتخاب ہوجاتا ہے تو برطانیہ میں یہ روایت ہے کہ اس کو تقریباً زور زبردستی کرکے گھسیٹ کر اس کی کرسی تک پہنچا یا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ذمہ دار مجھ کو دی جائے گی تو اس نبھانا بہت مشکل کام ہے۔

18ویں کے لوک سبھاانتخابات میں جو نوک جھونک ، تلخیاں دیکھی گئیں وہ اس سے پہلے شاید کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ لوک سبھا کے نتائج نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ ہندوستان کا سیاسی درجہ حرارت ایسے رہے گا جیسا کہ دوران انتخاب رہاتھا۔ نئی لوک سبھا کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہی اندازہ ہوگیا کہ ہر قدم ، ہرمر حلے ، ہر ہر فیصلے پر خوب سیاست ہوگی ، اپوزیشن اور حکمراں اتحاد کے درمیان روز اول سے ہی تلواریں کھنچی ہوئی نظرآرہی ہیں۔

سب سے پہلا مرحلہ پروٹیم اسپیکر کا جس میں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ جو کہ 7مرتبہ کے ایم پی تھے۔ پروٹیم اسپیکر مقرر کیے گئے ۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ تقرری انتخاب ماضی کی روایات کو بالائے طاق رکھ کر کی گئی ۔ پروٹیم اسپیکر صرف دو دن تک اپنی فرائض انجام دیتا ہے اس کا بنیادی اور صرف نومنتخب ممبران پارلیمنٹ کو حلف دلانا ہے۔ اب اگلے دو دن میں ملک کی سیاست اس بات پر مرتکز رہے گی کہ اسپیکر کون ہوگا۔ حکمراں جماعت کو لگتا ہے کہ سب سے بڑی پارٹی اور حکمراں جماعت ہونے کی سے اس عہدے پر اس کا ہی امیدوار فائز ہونا چاہیے۔ جبکہ اپوزیشن جو کہ جارحانہ موڈ میں ہے اس بات پر مصر ہے کہ اس عہدے پر اتفاق رائے سے اسپیکر فائز ہو اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر اپوزیشن کا کوئی لیڈر منتخب ہونا چاہیے۔ خیال رہے کہ 17ویں لوک سبھا میں اوم برلا جو کہ کوٹہ کے ممبرپارلیمنٹ ہیں اسپیکر تھے اور کوئی بھی ڈپٹی اسپیکر نہیں تھا۔ جبکہ 16ویں لوک سبھا میں سمترا مہاجن اسپیکر اور تھمبی درئی ڈپٹی اسپیکربنے۔ پارلیمنٹ کا نظام چلانا اسپیکر کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔

ایوان کی کارروائی مختلف وزارتوں کی کمیٹیوں کا قیام بھی اسپیکر کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران ا سپیکر کے عہدے پر فائز شخص مکمل طور پر اپنی صواب دید سے فیصلہ کرتا ہے۔ پارلیمانی اجلاس کے دوران یہ فیصلہ دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں اور روز مرہ کی حکومت کی کارگزاری پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
پچھلے لوک سبھا میں جس انداز سے حکمراں پارٹی نے پارلیمنٹ کو چلایا اس سے اپوزیشن پارٹیاں خوش نہیں تھیں۔ بعض اپوزیشن لیڈر کا الزام ہے کہ اصول وضوابط کو نظرانداز کرکے ایسے ہتھکنڈے اختیار کیے گئے جو کہ اپوزیشن کی آواز کو کچلنے والے اور پارلیمنٹ کے غیر جانبدار نظام کو نظرانداز کر نے والے ممبران پارلیمنٹ کا بڑے پیمانے پر معطل کیا جانا ۔ کچھ سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی پارلیمنٹ کی رکنیت کو ختم کرنے کے فیصلے سے ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ۔ بعض ایسی پارلیمانی کمیٹیاں جن کو محض مشاورتی اختیار حاصل تھے ان کی رپورٹ پر ارکان پارلیمنٹ کو نااہل قرار دیا گیا۔ ان ہی تمام تنازعات کے درمیان جب اٹھارہویں لوک سبھا کے اسپیکر کا انتخاب ہورہا ہے تو اپوزیشن پارٹیوں کا سخت رخ دکھانا غیر فطری نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کے قیام میں دو پارٹیوں کا رول بہت اہم ہے۔ اس میں آندھرا پردیش کی تیلگو دیشم پارٹی اور بہار کی جنتا دل یو ان دونوں ریاستوں میں دونوں پارٹیوں کی حکومت نے بی جے پی شریک ہے اور یہی شراکت داری مرکز میں بھی ہے۔ جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ان دونوں پارٹیوں کے وزرا مرکزی وزارت میں شامل ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کو یہ گمان ہے کہ کیونکہ بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت نہیں بناپائی ہے اور اس نے لوک سبھا میں محض 240سیٹیں جیتی ہیں جو حکومت سازی کے لیے درکار 272کے ہند سے 32کم ہے۔ لہٰذا اپوزیشن پارٹیاں مرکزی حکومت کو بیساکھیوں پر کھڑی ہوئی سرکار کہتی ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں کا زور ہے کہ مختلف عہدوں پر تقرری میں مودی کی قیادت والی حکومت کو الجھا یا جائے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی لوک سبھا میں بی جے پی کس کو اسپیکر بناتی ہے۔ کیا ٹی ڈی پی کا کوئی ممبر پارلیمنٹ اسپیکر ہوگا یا بی جے پی خود اپنے 17ویں لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو اس عہدے پر فائز کرے گی۔ جس طرح بی جے پی کو ایوان میں مکمل اکثریت حاصل نہیں ہے تو اس کو مختلف مرحلوں کا پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایسے عہدیداروں کی ضرورت پڑے گی جو کہ مشکل وقت میں اس کے کام آئے۔ کئی مرتبہ اسپیکر کا فیصلہ حکومتوں کو بنانے اور گرانے میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں کسی بھی پارٹی یا حکومت کو اپنے ممبران پارلیمنٹ کو اجلاس کے دوران الرٹ رکھنا ، حاضر دماغ رہنا اور ایوان میں موجود رکھنا اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بعض اوقات معمولی بلوں پر ووٹنگ کے دوران حکومت کی ممبران پارلیمنٹ کی عدم موجودگی حکومت کے زوال کا سبب بن جاتی ہے۔ ایسے نازک مرحلوں پر اسپیکر کی رولنگ اہم رول ادا کرتی ہے اور حکومت کو بچانے اور گرانے میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اسپیکر کے عہدے کو لے کر زبردست کھینچ تان مچی ہوئی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS