اسکول کے نصا ب سے اسلام، مغل اور فیضؔ غائب کیوں؟

0

عبدالماجد نظامی

اسکول میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے اس کا ادراک آج کے عہد میں ہر ذی شعور انسان کو بخوبی ہے تو بھلا اس نظریہ کے حامل اشخاص اور پالیسی سازوں کو کیسے نہیں ہوگا جن کا بنیادی مقصد ہی اپنی قدیم تاریخ کو زندہ کرنا ہو اور جو اپنی موہوم عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے ہر جائز و ناجائز وسائل کو اختیار کرنے میں ادنیٰ اخلاقی اصول کو بھی پاؤں تلے روند دینے سے گریز نہ کرتے ہوں۔ اپنی تاریخ کو زندہ کرنا تو قطعاً کوئی معیوب بات نہیں ہے بلکہ ہر قوم کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تاریخ کے نمایاں ادوار سے سبق لے اور ماضی میں جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ان سے عبرت لیتے ہوئے اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کا لائحۂ عمل تیار کرے۔ لیکن اگر اپنی عظمت کی بحالی کی خاطر کسی دوسری قوم کو دشمن بناکر پیش کرنا پڑے اور اس کی تاریخ و تہذیب کے تمام پہلوؤں سے سخت عداوت برتی جانے لگے تو یہ کوئی مستحسن عمل نہیں ہے۔ اس سے محض تنگ نظری اور فکری کوتاہی کا پہلو ہی سامنے آتا ہے۔ حالیہ دنوں میں سی بی ایس ای کے نصابوں میں جس طرح سے تبدیلی کی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تبدیلیاں بے وجہ نہیں ہیں۔ ان تبدیلیوں کے پیچھے ایک خاص مقصد ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے کورونا جیسے مہلک مرض کا استعمال ہو رہا ہے۔ اس وقت ہندوستان کی سیاست پر جس نظریہ کے حاملین کو بالادستی حاصل ہے، انہیں مسلمان اور اسلام سے ایسی بیزاری بلکہ شدید نفرت ہے کہ کسی طرح ان کا وجود انہیں برداشت نہیں ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ اس نظریہ کے حاملین کو ہر جگہ صرف ایک ہی دشمن نظر آتا ہے جس کی بقا سے انہیں اپنا وجود خطروں میں گھرا لگتا ہے۔ انہیں مسلمانوں سے اسی درجہ کا خوف محسوس ہوتا ہے جیسا کبھی فرعون کو بنی اسرائیل کی نسل سے پیدا ہونے والے اس بچہ سے لگتا تھا جو اس کی حکومت و سلطنت کی بنیادیں ہلا دینے والا تھا۔ فرعون نے جب خواب دیکھا کہ بنی اسرائیل میں کوئی ایسا بچہ پیدا ہوگا جو اس کا اور اس کی حکومت کا خاتمہ کر دے گا تو اس نے اپنے نجومیوں کو بلاکر خواب کی تعبیر معلوم کی۔ تمام نجومیوں نے اس کے خواب کی وہی تعبیر بتلائی جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ فرعون نے اس کے بعد اپنی پالیسی میں زبردست تبدیلی کی۔ اس نے یہ طے کر لیا کہ اگر بنی اسرائیل میں ایسے کسی لڑکے کی ولادت سے ہی اس کی تباہی کی ڈور بندھی ہے تو پھر وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ایسا کوئی بچہ بنی اسرائیل میں جنم ہی نہ لے۔ اپنی حکومت و عظمت کی حفاظت کے معاملہ میں وہ اس قدر اندھا ہوگیا بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں یہ کہا جائے کہ وہ اس بچہ کی پیدائش سے اس قدر خوف زدہ ہوگیا کہ اس نے ایسی پالیسی بنائی جس کا تصور شاید ہی کبھی کوئی نارمل ذہن و فکر کا آدمی کر سکتا تھا۔ فرعون نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بنی اسرائیل میں کسی بھی لڑکے کی پیدائش کی اجازت ہی نہیں دے گا اور کوئی لڑکا پیدا ہوگیا تو اسے زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔ جو بچہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا اس کے خوف سے فرعون نے یہ فرمان جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل میں کسی بھی لڑکے کو زندہ نہ رہنے دیا جائے۔ قرآن کریم نے فرعون کے اس خبط اور ظلم پر مبنی اس کی اس پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی لڑکیوں کو تو زندہ رہنے دیتا تھا لیکن لڑکوں کو قتل کر دیتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا فرعون کی یہ تدبیریں کچھ کام آئیں؟ تاریخ شاہد ہے کہ فرعون اپنے اس مشن اور مقصد میں بری طرح ناکام ہوگیا۔ اللہ پاک نے اس کے لیے جو تباہی مقدر کر رکھی تھی وہ نہ صرف آئی بلکہ جس ایک بچہ کی پیدائش کو روکنے کے لیے اس نے بنی اسرائیل کے بے شمار بچوں کو تہ تیغ کیا تھا، اس کی پرورش اللہ پاک نے خود فرعون کے محل اور اس کی نگرانی میں کروائی۔ وہ بچہ موسیٰ کلیم اللہ جیسا جلیل القدر نبی بن کر اللہ پاک کی کائنات میں جلوہ گر ہوا اور اس نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و جور سے ہمیشہ کے لیے آزاد کروایا۔ بنی اسرائیل کی آزادی کے ساتھ ہی فرعون کی حکومت و سلطنت کا ستارہ رہتی دنیا تک کے لیے غروب ہوگیا اور خود فرعون کی لاش مصر کے میوزیم میں محفوظ ہے تاکہ قیامت تک آنے والے لوگ اس سے عبرت لیں اور ان غلطیوں کو نہ دہرائیں جن کا ارتکاب فرعون نے کیا تھا۔ پھر کوئی فرعون معصوموں کے قتل کا وبال اپنے سر پر نہ لے۔ اکبر الٰہ آبادی نے فرعون کی حماقت اور نصاب کے ذریعہ فکر ونظر کو بدلنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی کی سرکار نے گرچہ الٰہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر دیا لیکن اس نے اکبر الٰہ آبادی کے اس شعر کے پیچھے مخفی معانی کو سمجھنے میں بالکل غلطی نہیں کی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کو معلوم ہے کہ اگر اس ملک کی تاریخ کو بدلنا ہے تو سب سے پہلے اس ملک کے ان بچوں کی فکر کو بدلنا ہوگا جو مستقبل کے معمار ہونے والے ہیں اور اسی لیے بی جے پی کی سرکاریں پوری مستعدی سے ملک کے نصاب کو بدلنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ اسی مقصد کے حصول کی طرف بڑھتے قدم کا غماز ہے جس میں مسلمانوں کے لیے سارے راستے مسدود کیے جا رہے ہیں اور ان کے ایمان و عقیدہ سے لے کر ان کے تشخص و طرز معاش ہرشے پر تیشہ زنی کی جا رہی ہے۔ این سی ای آر ٹی کے مشورہ پر سی بی ایس ای کے اسکولی نصابوں میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ افسوسناک ضرور ہیں لیکن2014 کے بعد والے ہندوستان میں حیرت انگیز بالکل نہیں ہیں۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق فیض احمد فیضؔ کی ان دو اردو نظموں کو دسویں کے نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے جن کا ترجمہ انگریزی زبان میں کرکے داخل نصاب کیا گیا تھا اور ’’ریلیجن، کمیونلزم اینڈ پالیٹکس‘‘ کے باب میں وہ نظمیں شامل تھیں۔ اسی طرح ’’کمیونلزم اور سیکولر اسٹیٹس‘‘ کے موضوع کو سمجھانے کے لیے فیض احمد فیضؔ کی نظموں کا حوالہ دیا گیا تھا تاکہ اسکول کے بچے سیکولر اسٹیٹ کی ضرورت و اہمیت کو سمجھ سکیں۔ اس کے علاوہ ایشیا و افریقہ میں جو اسلامی سلطنتیں قائم ہوئی تھیں ان کے عروج و ارتقا کی تاریخ اور سماج و اقتصاد پر ان کے اثرات پر جو باب تھا اس کو نصاب سے نکال دیا گیا ہے۔ اسی طرح بارہویں کی تاریخ کی کتاب میں مغل کورٹ اور وہاں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی روشنی میں ہندوستانی سماج کی تشکیل کی جو روئداد پیش کی گئی تھی، اس کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ سارے حذف شدہ ابواب بتلاتے ہیں کہ ان کا مقصد ہندوستان کی تہذیبی تکثیریت اور جمہوری قدروں نیز سیکولرزم کے اصولوں پر خاص طور سے حملہ کرنا ہے۔ اسکولوں کے اساتذہ اور ماہرین تعلیم نے اس پر اپنی گہری فکر مندی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر مذاہب و ادیان والے ملک میں یہ ضروری ہے کہ بچے تمام مذاہب اور تہذیبوں کو ٹھیک سے سمجھیں کیونکہ ملک کی ترقی اور سماج کی بھلائی کا راز اسی میں مضمر ہے۔ لیکن جنہیں سیکولر اور جمہوری قدروں اور یہاں کی لسانی و تہذیبی کثرت سے ہی بیر ہے، وہ اس کی اہمیت کو بھلا کیا سمجھیں گے۔ جن لوگوں کو مغل کا نام ریلوے اسٹیشن اور دلی کی سڑکوں پر گوارہ نہیں ہے، وہ نصاب کی کتابوں میں اسے برداشت کرلیں یہ تو ناممکن ہے۔ لیکن انہیں سمجھنا چاہیے کہ اس ملک کو جب بھی کسی ایک مذہب اور ایک نظریہ کے ساتھ زبردستی باندھنے کی کوشش کی جائے گی، اس کی ترقی کی راہیں مسدود ہوجائیں گی۔ مغل تاریخ سے عداوت نبھانے کے بجائے ان سے یہ سیکھنا چاہیے کہ کیسے انہوں نے کسی پر بھی اپنا مذہب اور اپنا نظریہ نہیں تھوپا تھا اور تمام مذہب و مشرب کے لوگوں کو یکساں طور پر پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ فیضؔ جمہوریت کے علمبرداروں میں سے ہیں جنہوں نے آئندہ نسلوں کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور اس راہ میں قید و بند کی صعوبتوں کو جھیلنے کا ہنر سکھایا تھا۔ اسکول کے نصابوں سے نکال دینے سے نہ تو اسلام اور مغل کی تاریخ مٹ جائے گی اور نہ ہی فیضؔ کی نظموں کی اثر انگیزی میں کوئی فرق آ ئے گا۔ البتہ اتنا ضرور ہوگا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا نام تاریخ میں فکری آزادی کے دشمنوں کی فہرست میں شامل ہوجائے گا، انہیں ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS