محمد فیروزعالم
یونانی طریقہ علاج کا ماخذ عربی اور فارسی لٹریچر ہے اور اس کا بنیادی نظریہ اخلاط اربعہ (بلغم، خون، صفرا اور سودا) جو انسانی بدن کی بنیاد ہیں اور ان سے پیدا شدہ مزاج پر قائم ہے۔ چنانچہ جب یہ اخلاط اعتدال پر قائم رہتے ہیں انسان کا مزاج بھی معتدل رہتا ہے اور اسی کا نام صحت ہے اور جب یہ اخلاط کسی اندرونی یا بیرونی اثر کے سبب اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں تو انسان کا مزاج بھی اعتدال میں نہیں رہتا اور یہی صورت حال بیماری سے تعبیر کی جاتی ہے جسے اعتدال پر لانے کے لیے مناسب دوا و غذا اور ترکیب کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی کا نام علاج ہے۔ جو ایک طبیب کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ بدنِ انسان کا یہ نظام ایک قوت کے ذریعہ انجام پاتا ہے جسے قوت مدبرہ بدن، مناعت یا امیونٹی کہتے ہیں۔
(بحوالہ ویکی پیڈیا)
یونانی طب یا حکمت کو اس کے ماہرین قدیم ترین طریقۂ علاج کہتے ہیں اور اس کے موجد کے طور پر بقراط کا نام لیتے ہیں جنھوں نے کہا تھا کہ’’ قدرت ہی سب سے بڑا معالج ہے۔‘‘ لیکن جدید طریقۂ علاج ایلوپیتھی کے بہت سے پیروکار اور بہت سے مغربی ممالک یونانی طب کے سرے سے منکر ہیں اور کئی جگہ تو اس پر پابندی کا بھی مطالبہ ہے۔ لیکن یونانی طب سے منسلک افراد کا سوال ہے کہ ایلوپیتھ سے قبل آخر کون سا طریقۂ علاج رائج تھا۔
انڈیا میں یونانی طب بہت سے دیگر طریقۂ علاج آیوروید، یوگا، نیچروپیتھی، سدھ اور ہومیوپیتھی کے ساتھ نہ صرف قانونی طور پر رائج ہے بلکہ اس کے فروغ کے لیے ایک علیحدہ وزارت ’’آیوش‘‘ کے نام سے قائم کی گئی ہے۔
طب یونانی کے فروغ کے لیے ہر برس ملک کیکسی نہ کسی کونے میں کوئی نہ کوئی جلسہ، ورک شاپ، نمائش، سمینار وغیرہ منعقد کیے جاتے ہیں۔ پھر بھی طب یونانی کا فروغ، رائج اور مقبولیت میں کئی قسم کی اڑچنیں ہیں۔ فروغ دینے اور رائج کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ اْس کے باوجود یہ طریقۂ علاج مقبول کیوں نہیں ہے؟ سب سے اہم سوال یہی ہے۔ آثار و قرائن سے کئی منفی پہلو سامنے آتے ہیں ہیں، جو اس طریقۂ علاج کو مقبول بنانے میں مانع ہیں۔
سب سے پہلی وجہ بی یو ایم ایس کرنے والے سو میں سے نوے افراد ایلوپیتھی پریکٹس کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ جن میں اکثر وہی ہوتے ہیں جن کا ٹارگٹ تو ایم بی بی ایس کرنے کا رہتا ہے لیکنایم بی بی ایس میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے یونانی میں (بھی جگاڑ لگا کے) داخل ہو جاتے ہیں۔ اور اِن میں اکثر وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو عربی فارسی نہ جاننے کی وجہ سے انہیں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ باقی جو دس ہوتے ہیں اْن میں بمشکل تمام ایک یا دو طب یونانی میں ماہر ہوتے ہیں اور پوری زندگی اس فن اور طریقۂ علاج کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ سات آٹھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو لکیر کے فقیر بن کے پیشہ سے جڑے رہتے ہیں۔ جن میں ریسرچ و تحقیق پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے معاشرہ کے لیے غیر مفید ہوتے ہیں۔ اور اکثر لوگ ان سے علاج کرانے سے گریز کرتے ہیں۔ اب چونکہ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے سرکاری پوسٹ پر قابض ہو جاتے ہیں تو اچھی تنخواہ ملنے کی وجہ سے بھی وہ فن کے فروغ کے تئیں بے فکرے ہو جاتے ہیں۔
عمومی طور پر دوسری وجہ ان کے یہاںریسرچ یا تحقیق نام کی کوئی چیز نہیں بچی۔ قرابادین کی پہچان اب اکثر لوگوں میں ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ خام مال جہاں سے بھی ملے خرید لیتے ہیں، جس کے خالص ہونے پر شک کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ وہ اِس وجہ سے کہ اگر وہ پھل، پتی، تنا، جڑ یا عروق کی پہچان نہیں ہے تو انہیں بازار میں موجود کیمیکل فلیور کے ذریعہ بھی فراہم کیا جا سکتا ہے، یا اکثر کر دیا جاتا ہے۔ اور اس کیاستعمال سے متعینہ وقت میں خاطر خواہ نتائج نہ ملنے کی وجہ سے جہاں ایک طرف مریض پریشان اور بے یقینی کی صورتِ حال سے گزرتے ہیں، وہیں دوسری طرف حکماء بھی تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ آخر درست وقت، درست خوراک اور پرہیز کا اہتمام کرنے کے باوجود نتیجہ مثبت کیوں نہیں مل پا رہا ہے۔ جب تک سمجھنے اور جاننے کی کوشش کی جاتی ہے تب تک،مریض غیریقینی کی صورت میں معالج بدل لیتا ہے اور لوگوں میں یہ پیغام جاتا ہے کہ طب یونانی بہت دیر میں اثر کرتا ہے۔
تیسری وجہ پوسٹڈ حکما ء کا غیرذمہ دارانہ رویّہ۔ یہ ایسی تلخ حقیقت ہے کہ اْن پوسٹڈ حکماء کا غیر اصولی رویہ اکثر مریضوں کو یا اْن کے گارجین کو دوسری پیتھی میں جانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہاں مرض یا مریض ایسی کیفیت میں رہتا ہے کہ فی الفور طے کر پانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اس پریشانی سے کیسے آزادی حاصل کرے۔؟ بڑے اسپتالوں میں جہاں یونانی کا شعبہ ہوتا ہے، وہاں بڑی لمبی لمبی قطاریں لگتی ہیں۔ خاص طور سے ان شفاخانوں میں جہاں طب یونانی کی تعلیم کا بھی شعبہ ہوتا ہے، وہیں کے حکماء ہوتے ہیں، وہیں کی تیارشدہ دوائیاں ہوتی ہیں۔ ایسا واقعہ خود میرے ساتھ پیش آیا کہ دہلی کے مشہور طبیہ یونیورسٹی کے شفاخانہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ شعبہ کے ہیڈ جن کا بیان ریڈیو پر سن چکا تھا، (اکثر لوگ ’’اٹھیے اچھے سوستھ کے ساتھ‘‘ والے پروگرام سن کر ہی وہاں آتے تھے اور آتے ہیں) میں بھی اِسی خوش فہمی میں گیا کہ چلو جان کی امان ایک جگہ تو ہے لیکن دوبار میں ہی اْن کے غیر ذمہ دارانہ رویّہ نے ہمیں منہ موڑنے پر مجبور کر دیا۔ اور ہم کیا، ہماری طرح اور بھی کئی لوگوں سے اس دوران گفتگو ہوئی تو انہوں نے بدظنی ظاہر کی۔ بعد میں بھی اْن میں سے کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے طب یونانی کے حکماء اور اسٹاف کے تئیں منفی رویہ کا اظہار کیا۔
1- گریجویشن سطح پر طب یونانی کی تعلیم کا صحیح نظم نہیں ہے، اساتذہ یونانی طب کی افادیت کا اظہار کرنے اور اسے آزمائشی طور پر طلبہ کے سامنے پیش نہیں کرپاتے ہیں۔ طب یونانی کی درسی کتابیں قدیم معالجین کی کتابوں کی کٹنگ اور پیسٹنگ ہیں۔ جن میں کسی بھی نئی تحقیق کو شامل نہیں کیا جاتا ،جبکہ ہر سال طبیہ کالجوں اور تحقیقی اداروں میں سینکڑوں مقالات(Thesis )نئی تحقیق کے نام پر جمع کئے جاتے ہیں جس کے بعد طب یونانی میں ماہر طب ( MD) اور ماہر جراحت ( MS) کی ڈگری تفویض کی جاتی ہے۔
-2 یونانی معالجین خوف کے شکار ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ جن لوگوں نے پی جی سطح پر کسی مرض پر کسی خاص یونانی دوا کے اثرات پر کام کیا ہو، اورجس کے مثبت نتائج بھی انہوں نے صد فیصد بتائے ہوں، اگر ان سے کہا جائے کہ آپ کی تحقیق سے متعلق ایک مریض ہے، اس پر آپ پر اپنی تحقیق شدہ دوا /ادویات استعمال کیجئے تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں اور وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
3-ش ذیابیطس،ہائی بلڈ پریشر، کینسر، دمہ ،جوڑوں اور جگر کے امراض موجودہ دور کا چیلنج ہیں۔طب یونانی میں ایسے نسخہ جات اور ادویات ہیں جو ان امراض کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، لیکن طب یونانی کے محققین اور معالجین کے لئے یہ کوئی سنجیدہ موضوع نہیں ہے، اس سمت میں افسردگی کی کیفیت ہے۔ بچوں کے امراض پر بھی کوئی خاص کام نہیں ہورہا ہے اور نہ ہی ایسی دوائیں تیار کی جارہی ہیں جو ان کی عمر، ذوق اور معیار کے مطابق ہواور انہیں استعمال کرنے میں آسانی ہو۔
4-طب یونانی کے محققین لیے تحقیق ایک بار ہے ، کورونا کے زمانے میں اس مرض پر قابو پانے کے لئے آیوروید کے ماہرین ملک کے طول و عرض میں کئی درجن پروجیکٹ پر کام کررہے تھے، اس وقت یونانی تحقیقی حلقوں میں خاموشی تھی۔ طب یونانی میں تحقیق کے نام پر قائم درجنوں سرکاری ادارے بھی کسی نئی یونانی دوا پر Patent حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ جبکہ ان ہی کے مقابل آیوروید کے تحقیقی ادارے روز بروز نئی نئی ادویات اور Procedures پر Patent حاصل کرتے جارہے ہیں۔
5- آیوروید دواساز کمپنیاں اپنی ادویات پر جدید تجربہ گاہوں، اسپتالوں اور میڈیکل کالجوں میں تحقیق کرانے پر خاصی رقم خرچ کرتی ہیں جس کے بعد ان کی تحقیق شائع ہوتی ہے، جس سے اس دوا کی افادیت اور مضرت کے بارے میں پتا چلتا ہے لیکن یونانی دواساز اداروں کا تحقیق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔یونانی دوا ساز کمپنیاں یونانی ڈگری یافتہ معالجین سے رابطہ نہیں کرتی ہیں، جبکہ آیوروید دواساز بلاتفریقِ پیتھی سب سے رابطہ میں رہتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ بیشتر یونانی معالج بھی آیوروید ادویات لکھتے ہیں۔ جبکہ یونانی دوا ساز اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات دے کر یونانی ادویات کا محل استعمال اور طریقہ علاج بتاکر خود علاجی جیسے مضرت رساں عمل انجام دینے کی ترغیب کے مرتکب ہورہے ہیں۔
6- یونانی معالجوں کی ایک بڑی تعدا د نے طب یونانی کو صرف ’شادی سے پہلے اور شادی کے بعد‘تک ہی محدود کردیا ہے۔جس کی وجہ سے عوامی رجحان یہ ہے کہ طب یونانی میں صرف جنسی پریشانیوں کے علاوہ کسی اور مرض کا علاج ممکن نہیں ہے۔
7- دیسی طبوں کو کنٹرول کرنے والی وزارت آیوش اور این سی آئی ایم جیسے اداروں میں یونانی طب کی نمائندگی کرنے والے افراد کی سرد مہری نے بھی یونانی طب کو عدم مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔طب یونانی کے ایم ایس ڈگری حاملین کو آیوروید کے مقابل اجازت نہ ملنا ،اور بی یو ایم ایس میں داخلہ کے لیے دسویں جماعت تک اردو تعلیم کے سرٹیفیکٹ کی لازمیت کو ختم کرنا اس کا اہم ثبوت ہے۔
(مطبوعۂ فیس بک اور دیگر اخبارات)
طب یونانی سے تعلیم حاصل کرکے پریکٹس کرنے والے طبیبوں کے خیالات و تجربات و تحقیقات کیا پیش کرتے ہیں، اس کا اندازہ آپ کو ہو جانا چاہیے۔ ہم کئی ایسے حکیموں کو بھی جانتے ہیں جو فیس بک کے ذریعہ ہمارے دوست بنے۔ اور جب انہیں اپنے علاج کی ضرورت پڑی تو وہ ہولی فیملی گئے۔ میں نے پوچھا ایسا کیا ہوا تھا کہ جس کا علاج آپ کے یہاں نہیں؟ تو کوئی جواب نہیں ملا۔
طبیبوں کا ایک واٹس ایپ گروپ بھی ہے جس میں اتفاق سے میں بھی شامل ہوں۔ جس میں فی الحال ۶۹۱ شرکاء موجود ہیں۔ کم و بیس پانچ سو حکماء اس میں ضرور ہوں گے۔ باقی میرے جیسے لوگ، جو صحت کے میدان میں کام کرنے کا شوق رکھتے ہیں، یا با وجہ یا بلاوجہ اپنی قابلیت لوگوں میں بانٹتے ہیں۔ طب یونانی کے ادویہ بنانے والی کمپنیوں کے مالکان ہیں، ماہرین ہیں، ریٹائرڈ ماہرین بھی ہیں۔ زیادہ تر اْن کی طرف سے پریس ریلیز یا خبریں پوسٹ کی جاتی ہیں۔ تجربات و تحقیق پر مبنی مضامین و خبریں برائے نام۔ ایک طرح سے طبیبوں کا چائے خانہ یا چوپال کہا جا سکتا ہے۔ حالاں کہ اسے مفید بنایا جا سکتا ہے لیکن۔ منقی تجربات و خیالات نے اسے بھی ٹائم پاس گروپ بنا دیا ہے۔ اس وقت اس گروپ میں شامل دو ماہرین نے اپنے ہارٹ کا آپریشن کرایا ہے۔
دونوں سے گروپ میں اور انفرادی طور پر میں پوچھا کہ کیا طب یونانی میں ہارٹ کا علاج نہیں ہے؟ جواب کے طور پر ابھی تک خاموشی ہے۔
جیسا کہ فاضل دوست نے کئی بیماریوں کے حوالہ سے ذکر کیا؛ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اچھی خاصی پڑھائی پر محنت کرنے کے باوجود چند خامیوں کی وجہ سے اِس طریقہ علاج کی مقبولیت میں رکاوٹ کا سبب ہے۔
آخر ہمارے پاس ہارٹ، کڈنی، لیور، لنگس، پن کریاز سے جڑی بیماریوں کا خاطر خواہ علاج کیوں موجود نہیں ہے؟
یا کیوں قابل عمل نہیں ہے ؟
یا کیوں قابل بھروسہ نہیں ہے؟
گویا طب یونانی کے حکیم خود شک و شبہ میں مبتلا ہیں۔
ایسے میں صرف سرکاری مراعات کے سہارے اِس فن کو کیسے فروغ دیا جا سکتا؟
کیا 11فروری کو مجاہد آزادی، سیاسی رہنما اورطبیب حاذق حکیم اجمل خاں کے یوم پیدائش کو عالمی یوم طب یونانی کے طور پر ہر سال منا لینے سے؟
اس لیے کہ طب یونانی قدیم طب ہے جو یونان میں پیدا ہوئی، عرب میں تجرباتی مراحل سے گزری اور برصغیر میں عوامی طب کے طور پر مقبول ہوئی؟
اب کچھ مثبت پہلو کے بارے میں گفتگو کر لیتے ہیں؛
جیسا کہ اکثر لوگوں کو یہ تسلیم ہے کہ طب یونانی میں نمبر ایک ادارہ اس وقت ہمدرد ہے، خواہ تعلیم و تعلّم کے میدان میں یا پروڈکٹ تیار کرکے استعمال کنندہ تک پہنچانے کے معاملے میں۔ کئی نئے پروڈکٹ بھی بازار میں آئے ہیں، لیکن وہ میری آزمائش میں نہیں آئے۔
اس کا پرڈکٹ روح افزا کے مقابل میں شربت اعظم لایا گیا، لیکن وہ لوگوں میں اپنی جگہ نہیں بنا پایا۔
دوسرا پروڈکٹ صافی؛ اس کے مقابلہ میں کوئی دوسرا پروڈکٹ موجود نہیں۔ علاج ہے، لیکن چرم روگ کے لیے کارآمد اور مفید یہی ثابت ہو رہا ہے۔
تیسرا پروڈکٹ سانس اور پھیپھڑے کی تکلیف کو دور کرنے کے لیے جوشینا اور صدوری
چوتھا پروڈکٹ بچوں کے لیے نونہال نہایت ہی مفید اور کارآمد ہے۔
مزید اور بھی کئی ٹانک اور پروڈکٹ ہیں جو نہایت ہی مفید ہے ان کے مقابلہ میں دوسری کمپنیوں کے پروڈکٹ متبادل کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ اوّلیت دیتے ہوئے۔ لیکن جو سب سے بڑی کمی حکماء کی جانب سے کی جاتی ہے، اس کے طریقۂ استعمال ایلوپیتھی کی طرح لااْبالی پن میں بتایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے پروڈکٹ کے بہتر نتائج نہیں مل پاتے۔ میں خود عرصہ تک اس کے پروڈکٹ استعمال کرتا رہا لیکن خاطر خواہ نتیجہ نہ ملنے کی وجہ سے میں نے ہومیوپیتھی کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ جس میں بہت حد تک کامیابی ملی۔ پھر میرے ذہن میں آیا کہ آخر کیوں یہ پروڈکٹ میرے لیے کارآمد ثابت نہیں ہو رہا تو پھر سے ایک بار حکمت کی کتابوں کو پڑھنا شروع کیا، جس میں سب سے اہم پہلو یہ سامنے آیا کہ اس کے طریقۂ استعمال میں غلطی ہو رہی تھی۔ اور پرہیز کے عمل کو ترک کیا جا رہا تھا۔
الحمد للہ آج بھی مذکورہ پروڈکٹ اور مزید کئی دوسرے پروڈکٹ میں مریضوں کو بتاتا ہوں اور طریقۂ استعمال بھی۔ تو وہ مقررہ معیاد میں صحت مند ہو جاتے ہیں۔