ڈاکٹر سیّد احمد قادری
28 فروری کو کیمبریج یونیورسٹی اور اس کے بعد 4 سے 6 مارچ کے دوران برطانیہ کے مختلف پروگراموں میں حزب مخالف کے بے باک نوجوان رہنما راہل گاندھی نے اپنے خطابات اور پریس کانفرنس میں ملک کی برسراقتدار جماعت کو آئینہ کیا دکھایا کہ حکومت کی نیند حرام ہو گئی ہے اور ایک طوفان سا آ گیا ہے۔ برطانیہ میں اپنے دورہ میں راہل گاندھی نے جو بھی باتیں کہی ہیں، کیا وہ بے بنیاد ہیں یا برسراقتدار پارٹی کے لیے نئی ہیں یا وہ ایسا سمجھتے ہیں کہ ملک کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے ، اس کی خبریں بس ملک کے اندر ہی تک محدود رہتی ہیں؟ میں نے بار بار اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ملک میں جونفرت، تشدد، عدم رواداری، ظلم و بربریت، آئینی اور انسانی حقوق کی پامالی، مذہب کے نام پر فرقہ واریت، آزادیٔ اظہار پر پابندی ، جمہوریت کی پامالی، بڑھتی فسطائیت و آمریت، عدلیہ ، سی بی آئی، ای ڈی، انکم ٹیکس، الیکشن کمیشن وغیرہ جیسے اہم جمہوری اداروں پر بڑھتی گرفت، گرتی معیشت، بدعنوانی کے بڑھتے گراف، حکومت سے سوال کرنے پر جھوٹے الزامات کے تحت گرفتاری، تنقید کیے جانے پر بلڈوزر کی کارروائی، ماب لنچنگ، لو جہاد، دھرم سنسدوں میں اشتعال انگیز بیانات، قاتلوں اور زانیوں کے لیے ہمدردی وغیرہ جیسے واقعات جو انجام دیے جا رہے ہیں، ان سے بلا شبہ ہمارے ملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے، جن پر بہت ہی ذمہ داری اور سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اقتدار کے نشہ میں کوئی بھی ان باتوں کو سمجھنے کو تیار نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ دسویں یا بارہویں صدی میںجی رہے ہیں جو یہ سمجھتے ہیںکہ جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے، وہ سب ملک کے در و دیوار کے باہر نہیں پہنچ رہا ہے۔ دنیا اب گلوبل گاؤں کے مترادف ہو گئی ہے اور کسی بھی سانحہ، واقعہ یا حادثہ کی خبر پل بھر میں بازگشت کرنے لگتی ہے۔ اگر حکومت کو بیرون ممالک میں ملک کی شبیہ کا اتنا ہی خیال ہے تو وہ ایسے تمام غیر آئینی اور غیر انسانی سانحات اور واقعات پر قدغن لگائے اور بہت سنجیدگی و ذمہ داری کے ساتھ ملک کے عوام کے بنیادی مسائل کے تدارک کی کوشش کرے۔ لیکن انگریزوں کے تسلط سے ملک کو آزاد کرانے میں جن لوگوں نے قربانیاں دی ہیں، ان قربانیوںمیں اگر ان کی تھوڑی بھی حصہ داری ہوتی تو وہ ملک کی سالمیت کی اہمیت کو سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس حکومت سے سوال کرنے والے کو غدار وطن قرار دینے میں تاخیر نہیں کرتیں۔ یہ لوگ سچی بات جو بلا شبہ کڑوی ہوتی ہے، وہ نہ سڑکوں پر سننے کو تیار ہیں، نہ ہی پارلیمنٹ میں اور نہ ہی بیرون ممالک میں ۔ راہل گاندھی نے برطانیہ میں جو کچھ کہا وہ قطعی طور پر ملک سے غداری نہیں ہے، جیسا کہ انوراگ ٹھاکر، روی شنکر پرساد، کرن رجیجو، سدھانشو تری ویدی وغیرہ بتا رہے ہیں۔
درحقیقت راہل گاندھی کے حقائق پر مبنی بیانات سے ملک کی سلامتی کو خطرہ نہیں ہے بلکہ بی جے پی، آر ایس ایس اور ان کی حکومت کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ انہیں اگر واقعی ملک سے اتنی ہی ہمدری اور محبت ہے تو ذرا کھلے دماغ سے ایک نظر ملک کی جمہوریت، بھکمری، آزادیٔ اظہار، انسانی فلاح کے عالمی انڈیکس پر ڈالنے کی زحمت کریں تب شاید سمجھ میں آئے کہ ہمارا ملک اس وقت کہاں کھڑا ہے۔ہمارے ملک کی جمہوریت جو کبھی پوری دنیا میں ستائش کی نظروں سے دیکھی جاتی تھی، اس حکومت کی ناقص کارکردگیوں کے باعث اپنے پڑوسی ممالک سر لنکا (88)، نیپال(71)، بھوٹان (65) وغیرہ جیسے چھوٹے ممالک سے بھی پچھڑ کر اس وقت لبرل ڈیموکریٹک انڈیکس کے مطابق 93 ویں مقام پر پہنچ کر شرمندہ ہو رہی ہے۔ سویڈن کے ایک معتبر ادارہ وی ڈیم نے تو عالمی درجہ بندی میں ہندوستان کی جمہوریت کی پامالی کو 104 ویں پائیدان پر رکھا ہے جو در حقیقت باعث تشویش اور شرمناک بھی ہے۔ لیکن برسراقتدارجماعت کو ایسی باتوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ انہیں فکر ہے تو صرف اس بات کی کہ کیسے ناقص کارکردگیوں کے باوجود ملک پر قبضہ برقرار رہے اور ان کی اور ان کے خاص صنعت کاروں کی تجوریاں بھرتی رہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومت ملک کی غربت، بھکمری، بے روزگاری، بدعنوانی جیسے مسئلوں کے تدارک کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کرتی لیکن افسوس کہ ایسا کچھ دیکھنے نہیں مل رہا ہے۔
افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ راہل گاندھی کے خطابات اور بیانات کو ہندوستان کے اتحاد کے لیے انتہائی خطرناک، ملک کو تقسیم کے لیے اکسانے والا، ملک کو شرمسار کرنے والا، ملک کی شبیہ کو داغدار کرنے والا بتایا گیا ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ راہل گامدھی نے جو باتیں کہی ہیں، وہ سب سچ نہیں بلکہ جھوٹ ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ راہل گاندھی نے جتنی بھی باتیں کہی ہیں، وہ سب کی سب حقائق پر مبنی ہیں، اس لیے حکومت کے درجن بھر وزرا اور ترجمان ان باتوں کو کاٹنے کی ہمت نہیں دکھا رہے ہیں۔ اگر ایسا کیا گیا تو ان کی حق تلفی، ناانصافیوں کے اوراق کھلتے چلے جائیں گے۔ اب دیکھئے کہ راہل گاندھی نے اپنے برطانیہ دورہ میں ساورکر کی کتاب کے حوالے کے ساتھ یہ بتایا کہ اس کتاب میں ساورکر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’ ایک بار انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کرایک مسلمان آدمی کو مارا تو اس دن انہوں نے بہت خوشی محسوس کی۔‘ ساورکر کے اس بیان کو ملک کے اندر ہونے والے ہجومی تشدد کے تناظر میں دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں ہجومی تشدد میں سیکڑوں مسلمان ساورکر کے اسی نظریے کے تحت قتل کیے گئے۔ اگر اس بات کو راہل کی مخالفت میں اترے لوگ ساورکر کی کتاب کے حوالے سے بتاتے کہ اس کتاب میں ایسا کچھ نہیں لکھا گیا ہے تو بلا شبہ راہل گاندھی بیک فٹ پر آجاتے اور لوگ ان کے اس جھوٹے بیان کی تنقید کرتے۔ لیکن راہل کی کسی ایک بات کو بھی کاٹنے کی کوئی ہمت نہیں دکھائی جا رہی ہے ۔ آج جو لوگ برطانیہ میں راہل گاندھی کے خطابات پر معترض ہیں وہ ذرا مڑ کر وزیر اعظم نریندر مودی کے شنگھائی، سیئول، متحدہ عرب امارات، عمان، ٹورنٹو اور امریکہ جیسے بیرون ممالک میں ملک کی ’’عزت و افتخار ‘‘ میں چار چاند لگانے والے بیانات کو دیکھیں، مثلاً ’’پہلے لوگ سوچتے تھے کہ پچھلے جنم میں کیا پاپ کیا تھا کہ ہندوستان میں پیدا ہوئے ‘‘ یا یہ کہ ’’ ملک کے میں ستر سالوں میں کچھ نہیں ہوا ‘‘ یا یہ کہ ’’جن کو گندگی کرنی تھی وہ گندگی کرکے چلے گئے ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ دراصل یہ معاملہ بقول کانگریس ترجمان سپریہ شرینت راہل گاندھی کی بڑھتی مقبولیت سے حکومت خوفزدہ ہے اور راہل جب بولتے ہیں تب ان کے پیروں تلے کی زمین کھسک جاتی ہے، اس لیے کہ راہل کی باتیں حقائق پر مبنی ہوتی ہیں۔ اگر راہل یہ کہتے ہیں کہ ’’ حزب مخالف کا ایک لیڈر کیمبریج یا ہاورڈ میں بول سکتا ہے لیکن بھارت کی کسی یونیورسٹی میں نہیں ‘‘ تواس بات میں کتنی صداقت ہے، یہ بات کوئی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ راہل گاندھی اگر کہتے ہیں کہ ’’پریس، عدالت، پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن پر آر ایس ایس کا قبضہ ہے ‘‘ تو کیا غلط کہا؟ راہل گاندھی پر بھی ای ڈی وغیرہ کا شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ملی اور راہل گاندھی بار بار یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مجھے مودی حکومت سے ڈر نہیں لگتا ہے۔ یہ ہمت وبزدلی کے درمیان کی جنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت راہل گاندھی سے خوفزدہ ہے۔ ابھی برطانیہ دورہ میں دیے گئے بیانات پر جس طرح راہل گاندھی پر رکیک حملے کیے جا رہے ہیں، یہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ابھی ابھی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ لوگ باہر جاکر ملک کی جمہوریت پر سوال اٹھاتے ہیں ۔
چندسال قبل کیلیفو رنیا یونیورسٹی (برکلے، امریکہ) کی دعوت پر ایک خطاب میں راہل گاندھی نے کچھ اسی انداز کی تقریر کی تھی، جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی سخت تنقید کی وجہ کر خوب خوب سرخیوں میں رہی۔ ویسے راہل گاندھی کے اس خطاب سے جہاں بھاجپا کے لوگ کافی چراغ پا نظر آئے تھے وہیں عام طور پر لوگوں نے راہل گاندھی کی دانشوری، بردباری اور سیاسی بالیدگی کی تعریف کی تھی۔ ویسے بھارتیہ جنتا پارٹی اور برسراقتدار حکومت کے وزرا عام طور پر راہل گاندھی کی تقریباً ہر تقریر کا مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار راہل گاندھی نے ان لوگوں کو اس انداز سے آئینہ دکھا یاکہ وہ بہت زیادہ برا مان گئے اور اس تقریر کی مخالفت اور اس پر تنقید کے لیے نریندر مودی کی حمایت میں بھاجپا کے 17 ترجمان او رحکومت کے 11 وزرا کو اترنا پڑا اور یہ لوگ مختلف ٹی وی چینلوں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعہ دن رات اس بات کی صفائی دیتے رہے کہ امریکہ میں راہل گاندھی نے جو کچھ کہا ہے، وہ سب غلط ہے۔ ملک میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ نہ مہنگائی ہے، نہ بے روزگاری ہے، تعلیم وصحت بھی اعلیٰ درجے کی ہے، ہر طرف رواداری، عدم تشدد، یکجہتی ہے، منافرت، خوف و دہشت کا کہیں نام ونشان نہیں اور نوٹ بندی نے تو ملک کی ترقی میں انقلاب لا دیا ہے، صنعتی اور تجارتی ادارے عروج پر پہنچ گئے ہیں، بلکہ روزگار کے بہت سارے دروازے کھل گئے ہیں۔ کسان خوش، جوان خوش، نوجوان خوش یعنی ملک کے سارے عوام خوش ہیں۔
ان حالات میں راہل گاندھی کے امریکہ میں آئینہ دکھانے پر برسراقتدار پارٹی اور حکومت کا چراغ پا ہونا کسی حد تک حق بجانب ہے کہ اب ان کے پیروںتلے سے زمین کھسکتی ہوئی نظر آ رہی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی کیلیفورنیا یونیورسٹی میں کی گئی راہل گاندھی کی تقریر سنی تھی اور سوال جواب کو دیکھا اور بغور سنا تھا، وہ تعریف کیے بغیر نہیں رہے۔ تعریف اس لیے بھی ہوئی کہ راہل گاندھی کے خطاب اور اس کے بعد سوال وجواب کا جو موضوع ’ انڈیا ایٹ 70 ‘ تھا، راہل گاندھی نے اسی موضوع کے حدود میں رہ کر بڑے اعتماد اور باوقار انداز میں باتیں کیں۔ ملک کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کے اندر بہت تیزی سے تشویش ناک حد تک پنپ رہی شدت پسندی، منافرت، عدم رواداری، انتشار اور خلفشار کی جانب اشارہ کیا تو کیا غلط کیا؟ اگر راہل گاندھی نے یہ کہا کہ ملک کے اندر صف بندی کی بد شکل سیاست نے سر اٹھا لیا ہے، اعتدال پسند صحافیوں کو قتل کیا جا رہا ہے ، دلتوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا جا رہا ہے، گائے کے نام پر مسلمانوں کو سر راہ بے دردی سے ہجومی تشدد پسند قتل کر رہے ہیں ، جو ہندوستان میں نئی چیز ہے اور اس سے ملک کو بہت نقصان ہو رہا ہے، تو کیا غلط کہا؟ راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ نفرت کی سیاست نے ملک میں تقسیم اور صف بندی کر دی ہے ، جس سے لاکھوں لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں اور یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اپنے ہی ملک میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کل پرسوں کے ’نیو یارک ٹائمز‘ نے کشمیر میں آزادیٔ صحافت پر مبینہ پابندیوں پر ایک رائے شائع کی ہے جس کے مطابق ’’ اگر مودی انفارمیشن کنٹرول کے کشمیر ماڈل کو ملک کے باقی حصوں میں پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف آزادیٔ صحافت بلکہ خود ہندوستانی جمہوریت کو بھی خطرہ میں ڈال دے گا۔ ‘‘ اب اس خبر یا رائے پر بھی انوراگ ٹھاکر کو اعتراض ہے کہ ’نیو یارک ٹائمز‘ نے ایسا کیوں شائع کیا؟ یہاں پر بھی وہ راہل گاندھی کو ہی ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت عالمی سطح پر ملک کو متنبہ کرنے والے بیانات کو منفی کے بجائے مثبت سوچ کے ساتھ قبول کرے اور جن کمیوں اور خامیوں کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے، ان کے تدارک کی فکر کرے تو یقینی طور پر ملک کے لیے سود مند ہوگا ۔
[email protected]