سری نگر(صریر خالد،ایس این بی) : کووڈ19 کے پوری دنیا کو مایوسی کے دلدل میں ڈبونے کے دوران وادی کشمیر میں خود کْشی کے واقعات افسوسناک ٹرینڈ بنے ہوئے ہیں۔ روزانہ اس طرح کے کئی واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران سری نگر کے صدر اسپتال میں خود کْشی یا اسکی کوشش کرنے والے کم از کم 500 معاملات درج ہوئے ہیں۔ کووڈ کی دوسری لہر کے دوران لوگوں کے اپنی جان لینے کے واقعات میں نہ صرف اضافہ دیکھنے کو ملا ہے بلکہ حالیہ ہفتوں میں کمسن بچوں سے لیکر 30-32 سال کے کئی نوجوانوں نے مختلف یا نامعلوم وجوہات کے سبب خود کو مار ڈالا ہے۔ماہ رفتہ کی ابتدا میں جنوبی کشمیر کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نے کوئی زہریلی شے کھا کر خود کی جان لی اور ایسا کرنے سے قبل انہوں نے جو کیا وہ اور بھی زیادہ ششدر کردینے والا تھا۔ مذکورہ نے ایک ویڈیو بیان ریکارڈ کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک سرکاری اسکول میں بطور استاد تعینات ان کے والد کی تنخواہ خواہ مخواہ ڈھائی سال سے روکے رکھی گئی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے گھر فاقہ پڑنے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ والد کے کام کاجی ہونے کے باوجود کمائی سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ کالج کی فیس ادا نہ کر پانے سے اس حد تک دلبرداشتہ ہوئے ہیں کہ وہ خود کْشی کرنے کا حتمی فیصلہ لے چکے ہیں تاکہ ارباب اختیار بیدار ہوں اور ان کے والد اور ان جیسے درجنوں اساتذہ کو ادائیگی کریں جو جرم ضعیفی کی سزا بھگتتے آرہے ہیں۔ یہ ویڈیو مذکورہ کی لاش کے پاس سے ملے ان کے موبائل فون میں موجود ملا اور کئی دنوں تک سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر وائرل رہا۔مذکورہ بالا واقعہ کے بعد گویا خود کْشی کے واقعات کی لڑی لگ گئی اور وادی کشمیر کا وہ شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں سے حالیہ دنوں میں خود کْشی کا کوئی واقعہ رپورٹ نہ ہوا ہو۔ شمالی کشمیر کے ایک لڑکے نے بھی اسی طرح خود کو مار ڈالنے سے قبل ویڈیو میں ایک گھریلو تنازع کو وجہ انتہائی اقدام بتایا اور پھر گزشتہ ہفتہ ایک اور نوجوان نے خود کو سری نگر کے بیچوں بیچ بہنے والے دریائے جہلم میں ڈبونے سے قبل ایک ویڈیو بناکر پیچھے چھوڑا تھا۔ کئی دیگر نے بھی دریا میں کود کر جان دی جبکہ بعض نے زہر نوشی کرکے یا پھندے پر جھول کر خود کو ’دنیا کے جھمیلوں سے چھڑا لیا۔‘سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران اکیلے سری نگر کے صدر اسپتال میں 500 سے زیادہ ایسے لوگوں کو لایا گیا کہ جنہوں نے زہر کھا کر خود کْشی کی کوشش کی تھی۔ 515ایسے افراد میں سے بیشتر نے زہر کھایا تھا اور ان میں سے بہت کم کو بچایا جاسکا ہے۔ اسپتال میں ذرائع نے بتایا کہ خود کْشی کرنے والوں میں مردوں کے مقابلے دو گنا تعداد صنف نازک کی دیکھی گئی ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں سال اپریل سے ابھی تک ایسے 17 افراد کو علاج و معالجہ کیلئے یہاں پہنچایا گیا جنہوں نے خود کو پھندوں پر لٹکایا تھا اور وہ اسپتال پہنچائے جانے سے قبل ہی مرچکے تھے۔ اسی مدت کے دوران کم از کم 15 ایسے معاملات بھی اسپتال میں درج ہوئے ہیں جن میں لوگوں نے مختلف دریاؤں یا آبگاہوں میں کود کر جان دی تھی۔خود کْشی، وہ بھی نوجوانوں کی، کے واقعات میں ہورہے اضافہ کو لیکر پورا کشمیری سماج انگشت بدندان ہے اور ’مگر کیوں؟‘‘ کا سوال ہر زبان پر ہے۔ جیسے کہ غلام قادر بٹ نامی ایک بزرگ انتہائی حیرت کے ساتھ پوچھتے ہیں ’خود کْشی کے واقعات تو ہم نے پہلے بھی رونما ہوتے دیکھے ہیں لیکن جس رفتار کے ساتھ یہ بدعت ابھی پھیل رہی ہے وہ انتہائی تشویشناک اور دم بخود کر دینے والی ہے۔
‘وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح اس قبیح فعل کے پھیلنے کی وجوہات کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ البتہ انکا کہنا ہے کہ 5 اگست2019 جب مرکزی سرکار نے ایک تیز طرار مہم جوئی کے تحت جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے ریاست سے 2 یونین ٹریٹریز میں بدل دیا،کے بعد سے وادی کشمیر میں مایوسی کی ایک چادر سی بچھی ہوئی ہے۔
سری نگر کے گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) کے شعبہ نفسیات کے ماہرین کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے۔ یہاں کے ایک ماہر نفسیات نے اپنا نام نہ لئے جانے کی شرط پربتایا کہ ’دیکھیں اصل وجہ تو خود کْشی کرنے والے کو ہی معلوم رہتی ہے اور یہ وجوہات اسکے ساتھ ہی چلی جاتی ہیں لیکن ہاں ہمارے یہاں نفسیاتی مسائل کا انبار ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ان کے یہاں آنے والے اکثر مریضوں کی عمر کمسنی سے لیکر نوجوانی کے بیچ کی ہے اور یہ سبھی لوگ بے روزگاری، گھریلو تنازعات، عشق میں ناکامی وغیرہ کے ساتھ ساتھ سیاسی غیر یقینی سے پریشان پائے جاتے ہیں۔
اْنہوں نے کہا ’’میں نے کئی نوجوانوں کو جموں کشمیر کی سیاسی غیر یقینیت کو لیکر پریشان رہنے سے مایوسی کے دلدل میں گئے پایا ہے،کئی مریض نے خصوصیت کے ساتھ دفعہ 370کی تنسیخ اور یہاں کے متعلقہ سیاسی حالات کو اپنی بے سکونی کی وجہ بتاتے ہیں تاہم بے کاری اور بے روزگاری بھی ایک بہت بڑی پریشانی ہے اور نوجوانوں کی خود کْشی کی وجہ بنتی ا?رہی ہے‘‘۔
خود کْشی کی کوشش میں زہر کھانے کے بعد معجزاتی طور بچے نصیر احمد (فرضی نام) نے اپنے حالات کے بارے میں بتایا ’’میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے باوجود بھی بے کار اور بے روزگار ہوں جبکہ میرے بزرگ والد مشکل سے گھر چلا پاتے ہیں اسی بارے میں اکثر سوچتے رہنے سے میں مایوس ہوگیا تھا یہاں تک کہ میں نے خود کْشی کی کوشش کی،شکر ہے کہ میں بچ گیا ہوں لیکن جن مسائل کو لیکر میں مایوس ہوگیا تھا وہ اب بھی باقی ہیں،میں اب بھی بے روزگار ہوں اور میری طرح دیگر کتنے ہی نوجوان ان حالات سے دوچار ہیں کہ انہیں موت ایک ا?خری راستہ لگتی ہے‘‘۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں والدین،اساتذہ،سماج کے معززین اور سرکار کا بڑا رول بنتا ہے اور اگر یہ سبھی اپنی ذ?ہ داریوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے تو اْمیدیں مرتی رہیں گی۔