ڈاکٹر سیّد احمد قادری
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ قدرت نے ان کے دماغ میں ایساسافٹ ویئر فٹ کر دیا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے مسئلہ کو چٹکیوں میں حل کر لیتے ہیں ۔ پھر ایسا کیا ہے کہ گودی میڈیا کو چھوڑ کر حزب مخالف، سوشل میڈیا، بیرون میڈیا اور عوامی طور پر سب کے سب وزیر اعظم سے سولات کر رہے ہیں اور وہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ شاید ایک خاموشی سو بلا کو ٹالتی ہے، اس پر عمل کر رہے ہیں، لیکن یہاں ایسا ہو نہیں پا رہا ہے ،بلکہ ان کی خاموشی سے ہر طرف بے یقینی، عدم اعتما داور انتشار وخلفشار کا طوفان بڑھتا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک کا جو منظر نامہ سامنے آیا ہے ۔ وہ بہت ہی تشویشناک ہے۔ اس وقت ملک اور بیرون ممالک کے لوگ حیرت زدہ ہیں کہ ملک کا وقار بڑھانے والی خواتین پہلوان دہلی کے جنتر منتر پر رات دن اس لیے احتجاج اور مظاہرہ کر رہی ہیں کہ ان کے ساتھ جنسی استحصال کرنے والے دبنگ ممبر پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کے ساتھ تادیبی کارروائی کی جائے۔ لیکن افسوس کہ اس دبنگ ممبر پارلیمنٹ کے خلاف سخت کارروائی کے بجائے اسے سرکاری طور پر بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اس برج بھوشن کے خلاف دو سال قبل خاتون پہلوان خود ساکشی ملک نے براہ راست وزیر اعظم سے جنسی ہراسانی کی شکایت کی تھی اور اسے توقع تھی کہ اس کے خلاف تادیبی کارروائی ضرور کی جائے گی ۔ لیکن افسوس کہ وزیر اعظم اس نازک معاملہ میں کوئی کارروائی کیا کرتے بلکہ اب تک وہ خواتین پہلوانوں کے اس جائز مطالبہ اور احتجاج پر خاموشی اختیا ر کیے ہوئے ہیں ۔ ہمارے وزیر اعظم ’’بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ‘‘ کا نعرہ تو خوب لگاتے ہیں ، لیکن جب ان بیٹیوں کی عصمت بچانے کا معاملہ سامنے آتا ہے تو پوری طرح خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ کٹھوعہ ، ہاتھرس اور ایسے دیگر بہت سارے حساس معاملے میں بھی عام طور پر وزیر اعظم خاموش ہی نظر آئے۔ بلقیس بانو کے زانیوں کو سنسکاری بنا کر جیل سے رہا کیا گیا، انہیں پھول مالا پہنایا گیا، لیکن افسوس کہ وزیر اعظم نے مذمت کرنے کی بجائے خاموشی کو راہ دی۔ بی جے پی کے ہی رکن اور سابق گورنر بہار و کشمیر ستیہ پال ملک نے معروف صحافی کرن تھاپڑ کو ایک انٹرویو میں پلوامہ میں 40جوانوں کی شہادت اور ملک کی سا لمیت سے منسلک بہت ہی سنگین انکشافات کیے، اس پر بھی وزیر اعظم کے لب خاموش ہی ہیں۔ حالانکہ ان چالیس شہیدجوانوں کو 2019 کے عام انتخابات کے وقت خوب یاد رکھاگیا، بات بات پر ان شہیدوں سے جذباتی لگاؤ کا اظہار کیا گیا اور تو اور انتخابی جلسوں میں ان شہید جوانوں کی تصاویر کا بینر لگا کر عوام سے بڑے جذباتی انداز میں ووٹ مانگے گئے تھے۔ گرچہ بعد میں الیکشن کمیشن نے انتخابی جلسوں میں شہید جوانوں کی تصاویر کو ہٹانے کا حکم صادر کر دیا تھا۔ ان شہیدوں کے سلسلے میں بلا شبہ ستیہ پال ملک نے جو انکشافات کیے ہیں ، وہ بہت ہی اہم ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ملک کے جانباز ہلاک ہوئے۔ ا س سلسلے میں اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی انکوائری رپورٹ سامنے کیوں نہیں آئی ہے۔ ستیہ پال ملک نے کشمیر اور گوا میں جس طرح بی جے پی کے بڑے نیتاؤں کی بدعنوانیوں کو اجاگر کیا ہے، وہ بھی اہم سوال ہے۔ لیکن ان تمام سوالات کے جواب میںصرف خاموشی ہے۔ ہنڈن برگ کی تہلکہ مچا دینے والی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں سوال کیا کہ وزیراعظم کے دیرینہ دوست گوتم اڈانی عالمی سطح پر امیروں کی فہرست میں 609 ویں نمبر سے چند برسوں میں ہی دوسرے نمبر پر کیسے پہنچ گئے؟ نیز راہل گاندھی نے ایک بڑا سوال یہ بھی کیا کہ ماریشش کی کمپنی میںبیس ہزار کروڑ روپے جو لگائے گئے ہیں، وہ کس کے ہیں ؟ ان سوالوں کا جواب دینے کے بجائے سوال کرنے والے کو ہی پارلیمنٹ سے نکال باہر کیا گیا۔ ہنڈن برگ کی دھماکہ خیز رپورٹ پر وزیر اعظم خاموش ہی رہے، کم از کم اپنے دیرینہ دوست کی حمایت میں کچھ تو بولتے۔ راہل گاندھی اور دیگر حزب مخالف رافیل سودے پر سوال در سوال کرتا رہا لیکن اس پر بھی وزیر اعظم خاموش ہی رہے۔ اسرائیل کی ایک کمپنی سے راہل گاندھی سمیت ملک کے کئی حزب مخالف رہنماؤں کے ساتھ ساتھ کئی سرکردہ شخصیات کی جاسوسی کرانے کیلئے جدید جاسوسی آلات پیگاسس کے خریدے جانے کا معاملہ اجاگر ہو ا ، لوگ سوال پوچھتے رہے لیکن افسوس کہ اس کا بھی کوئی مدلل جواب نہیں دیا گیا ۔ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ہر جمہوری ملک میں وزیر اعظم کی بات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے وزیراعظم ادھر ادھر کی باتیں تو خوب کرتے ہیں، لیکن جب کوئی سنگین مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ چپی ساد ھ لیتے ہیں ، جس کی وجہ کر بہت ساری غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اب دیکھئے کہ چین کی دراندازی ملک میں بڑھتی جا رہی ہے ، لیکن بقول خود ( سابق وزیراعظم منموہن سنگھ مہنگائی کا مہ بولنے کو تیار نہیں) وہ چین کا ’چ‘بولنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ جمہوری ملک کا وزیر اعظم کسی خاص طبقہ ، ذات یا مذہب کا نہیں ہوتا، وہ پورے ملک کا وزیراعظم ہوتا ہے۔ جس کے ذمہ پورے ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور منصفانہ عمل جیسی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بی بی سی، لندن کی گجرات المیہ پر بنائی گئی فلم پر وہ چراغ پا ہوتے ہیں تو وہیں دوسری طرف وہ خود پروپیگنڈہ کے لیے بنائی گئی فلم ’’ دی کشمیر فائلس ‘‘ اور ’’ دی کیرلہ اسٹوری ‘‘ جیسی منافرت اور عداوت بڑھانے والی جھوٹ پر مبنی فلموں کو پروموٹ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسی فلموں سے ملک کے اندر یکجہتی، رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کا ماحول بننے کے بجائے زہریلی فضا بنے گی۔ جس سے ملک کے سماج اور معاشرے کو نقصان کے سوا فائدہ کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔
ایسے غیر ضروری اور ملک کو نقصان پہنچانے والے معاملات کے بجائے وزیر اعظم ملک کو در پیش مسائل پر توجہ دیں تو اس سے نہ صرف ان کی امیج بنے گی بلکہ ملک اور بیرون ممالک میں بہتر شبیہ دیکھنے کو ملے گی۔ اس وقت ہمارا ملک بلا شبہ بہت ہی مشکل دور اور حالات سے گزر رہا ہے۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، فرقہ پرستی، بدعنوانی، ظلم و تشدد، خوف و ہراس، مذہبی تعصب، انتشار وخلفشار کا دور دورہ ہے۔ ایسے مسائل میں گھرے عوام کا پریشان ہونا فطری ہے لیکن افسوس کہ ان پریشان حال لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومت سے سوال کرنا اب جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ کسی نے ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دبی زبان میں سوال کر دیا تو اس شخص کے حصے میں پولیس کی ٹھوکریں، ای ڈی ، سی بی آئی ، انکم ٹیکس کی ریڈ، جیل اور پھر بلڈوزر سے اس کا آشیا نہ کا انہدام۔ اب اس خوف و دہشت کے ماحول میںکس کی ہمت ہے کہ کوئی سوال کرے۔ حالانکہ ہمارے وزیر اعظم بذات خود پارلیمنٹ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ’ میں انتظار میں رہتا ہوں کہ کوئی ہم پر تنقید کرے، کیونکہ جمہوریت میں تنقید کی اہمیت ہوتی ہے۔ وہ بولنے کو تو بولتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اندر تنقید برداشت کرنے کی قوت نہیں ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں میں ملک کا جو منظر نامہ سامنے آیا ہے، اسے دیکھ کر ملک کے ہر باشعور اور حساس شہری کی فکر مندی لازمی ہے۔ 3 مئی 2023 کو ’عالمی یوم آزادی ٔ صحافت ‘ کے موقع پر عالمی میڈیا مانیٹرنگ ادارہ ’ آر ایس ایف ‘ کی رپورٹ کے بموجب ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں ہندوستان 180 کے مقابلے 161 ویںمقام پر پہنچ گیا ہے، جو آزادیٔ صحافت کے لیے ہندوستان کی درجہ بندی میں ذلت آمیز کمی کی نشاندہی کرتی ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق جنوری 2023 سے اب تک ملک میں ایک صحافی کو قتل کیا گیا اور دس صحافیوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال آزادیٔ صحافت کے معاملے میں ہندوستان 150 ویں مقام پر تھا۔ ملک کی تنزلی کی ایک اور خبریہ ہے کہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) نے مسلسل چوتھی بار اپنی سالانہ رپورٹ میں ہندوستان کو خاص تشویش والے ملک کے طور پر نامزد کرنے کی سفارش کی ہے ۔ واضح رہے کہ ملک میں مذہبی آزادی کی صورتحال تشویشناک حد تک ہو گئی ہے۔ ریاستی اور مقامی سطح پر مذہبی امتیازی پالیسیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ہندوستانی حکومت پر یہ بھی یہ الزام لگایا کہ وہ تنقیدی آواز کو دبا رہی ہے، خاص طور پر مذہبی، اقلیتوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کی نگرانی، ہراساں کرنے، املاک مسمار کرنے اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت حراست کے ذریعہ اور غیر سرکاری تنظیموں کو غیر ملکی کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (FCRA ) کے تحت نشانہ بنایا گیا ۔ جو لوگ بڑی بے شرمی سے یہ کہتے ہیں کہ 2014 سے قبل ملک میں ترقی کی کوئی روشنی نہیں دکھائی دیتی ہے ، ایسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض کر دوں کہ 2014 میں عالمی سطح پرملک بھکمری میں 55 ویں نمبر پر تھا جبکہ موجودہ اقتدار میں ملک بھکمری میں 121 کے مقابلے 107 ویں پائیدان پر پہنچ گیا ہے۔ صحت کے معاملے میں ملک 2014 میں جہاں 85 ویں نمبر پر تھا، آج 146 ویں نمبر پر ہے۔ انسانی آزادی میں 2014 میں 106 پر تھا، آج 150 ویںنمبر پر ہے۔ ماحولیاتی تحفظ میں ملک 2014 میں 155 نمبر پر تھا، آج 180 ویں مقام پر آنسو بہا رہا ہے۔ اسی طرح بار بار جمہوریت کی دوہائی دینے والے یہ بھی سن لیں کہ 2014 میں ملک کا جمہوریت کے معاملے میں 33 واں مقام تھا، آج 93 ویں نمبر پر پہنچ کر شرمسار ہو رہا ہے۔ یہ ہے حکومت ہندکی حصولیابی کا بہت ہی چھوٹا سا نمونہ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی ان تمام حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے چند روز قبل ہی فرما رہے تھے کہ ’’ ہندوستان کی ترقی اور جمہوریت کی تعریف پوری دنیا کر رہی ہے۔ ‘‘ بی جے پی صد ر جے پی نڈا نے تو مودی کی خوشنودی کے لیے ایک قدم اور بڑھ کرکرناٹک کی ایک انتخابی ریلی میں کہہ دیا کہ ’’9 سال قبل ہندوستان گھٹنے ٹیک رہا تھا، مودی جی کے وزیر اعظم بننے کے بعد اب ہندوستان دنیا میں سکہ جمانے والا ملک بن گیا ہے۔‘‘اب ایسے ناعاقبت اندیشوں کے بیان سے وقتی طور پر کچھ لوگ خوش ہو سکتے ہیں لیکن حقیقت حال بہت ہی تشویشناک ہے، جن پر وزیر اعظم کو اپنی چپی توڑنی چاہیے، خاموشی کوئی مداوا نہیں ہے۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہیں گی لیکن ملک کو جو نقصان ہو جائے گا، اس کا ازالہ بہت ہی مشکل ہوگا۔
[email protected]