ڈاکٹررضیہ عارف
بھوپال
ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین نے عزم و حوصلے اور طاقت و بہادری کے ناقابلِ فراموش کام انجام دئے ہیں۔ رضیہ سلطان، چاند بی بی، مہارانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، اہلیہ بائی، رانی درگاوتی، نواب شاہ جہاں بیگم اور سلطان جہاں بیگم وغیرہ تو اِسکی بڑی مثالیں ہیں، لیکن اِن کے علاوہ بھی ایسی کتنی ہی خواتین ہیں جنہوں نے ناموافق حالات کے باوجود تاریخ پر اپنے نقوش ثبت کئے ہیں۔
آزادی کے بعد کی جمہوری آب و ہوا میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خواتین کا ہندوستانی معاشرہ میں کردار اور مستحکم ہوتا، اُنہیں سیاسی و سماجی میدانوں میں آگے بڑھنے کے مواقع ملتے، لیکن جمہوری نظام کے قیام سے آج تک عملی سیاست اور سماجی خدمت کے شعبوں میں خواتین کی شرکت کافی محدود رہی ہے۔ سروجنی نائیڈو اور ہیرابائی ایسی اول خواتین ہیں جن کو کافی کوشش کے بعد الیکشن لڑنے کے لئے راضی کیا گیا، چنانچہ سروجنی نائیڈو ملک کی پہلی خاتون گورنر بنیں اور جواہر لال نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت ہندوستان کی پہلی خاتون سفیر کے عہدہ پر فائز ہوئیں۔ بعد کے عرصہ میں جو الیکشن ہوتے رہے اُن میں خواتین امیدواروں کی تعداد الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مرتب اعداد و شمار کے مطابق درج ذیل رہی۔
ہندوستان کی پہلی پارلیمنٹ کے الیکشن میں 51 خاتون امیدواروں نے حصہ لیا،1957 کے انتخابات میں 70 خاتون امیدواروں نے حصہ لیا، جس میں سے صرف 27 کامیاب ہوئیں،1962 میں65 اور1967 میں 44 خواتین الیکشن میں کھڑی ہوئیں جن میں سے علی الترتیب 33 اور38 کامیاب ہوئیں، 1971 کی پارلیمنٹ کیلئے خاتون امیدواروں کی تعداد تو86 تھی لیکن کامیاب صرف21 ہوئیں، 1977 میں70 خواتین نے الیکشن لڑا جن میں کامیابی19 کو ملی۔ 1982 میں جنرل الیکشن میں142 خواتین میدان میں تھیں جن میں سے28 منتخب ہوئیں، 1984 میں161 میں سے42 منتخب ہوکر لوک سبھا پہنچیں، جبکہ 1989 میں 198 خواتین نے قسمت آزمائی اور صرف25 کو سرخروئی نصیب ہوئی۔1991 میں 325 خاتون امیدواروں میں سے 35 ہی منتخب ہوسکیں۔ بعد کے تین پارلیمانی الیکشن میں بھی کم و بیش یہی صورت حال رہی تاہم آزادی کے 66 برس کے دوران اندرا گاندھی، سچیتاکرپلانی، جے للتا،ممتا بنرجی، مایاوتی، اومابھارتی اور پرتیبھا پاٹل جیسی خواتین نے سیاست کو زینہ بنا کر عروج کی منزلیں طے کیں۔
مذکورہ خواتین کے نام یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ عملی سیاست میں بحیثیت مجموعی خواتین کی شرکت میں بتدریج اضافہ ہوا تاہم یہ خاطر خواہ نہ رہا، اِس کی وجہ پُرانے نظریات پر مشتمل ہمارا معاشرتی نظام ہے جس میں سیاست کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اُس میں شریف گھرانے کی عورتوں کا داخلہ تو ناپسندیدہ عمل ہی شمار ہوتا ہے۔ حالانکہ آج کے روز افزوں ترقی کے دور سے یہ نظریہ میل نہیں کھاتا، خاص طور پر اِس لئے بھی کہ جس طرح کوئی پرندہ ایک پر سے پرواز نہیں کرسکتا، اُسی طرح کوئی بھی معاشرہ عورت کو نظر انداز کرکے ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا، کیونکہ عورت معاشرہ کے پرندے کا دوسرا پر ہے، جب تک عورت کو ترقی کے ہمہ جہتی مواقع میسر نہیں آئیں گے یا اُسے سماجی سرگرمیوں میں مساوی حصہ نہیں ملے گا، ہمارا معاشرہ مثالی نہیں بن سکتا۔ اگر ملک کو واقعی ترقی کرنا ہے توملک کی آبادی کے48 فیصد آبادی یعنی خواتین کو اس کا جائز حصہ دینا ہوگا، اُس میں خود اعتمادی، خود کفالتی اور خود انحصاری کا احساس جگانا ہوگا، خود اعتمادی کی یہ ضرورت وقت کے ساتھ اِس لئے بھی بڑھ رہی ہے کیونکہ آج خواتین زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں، اگر اُن میں خود اعتمادی نہیں ہوگی تو نہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرسکیں گی، نہ حوصلہ و ہمت سے پیش رفت ہی کرپائیں گی، یہ خود اعتمادی اپنے آپ پر اور اپنی صلاحیتوں پر یقین کرکے کوشش و محنت کرنے سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
آج کی خواتین کا دائرہ عمل اُن کے گھر کی چہار دیواری ہو یا کھلی پڑی دنیا کی بسیط فضا، دونوں ہی میں کام کرنے اور آگے بڑھنے کے لئے خود اعتمادی کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے اور اُسے محنت، لگن، قابلیت سے جلا ملتی ہے۔ آج کی ہنگامی زندگی کا ہر دن غیر متوقع سانحوں سے دو چار ہوتا ہے، گھر ہو یا باہر حادثات ہونے میں دیر نہیں لگتی، نہ کوئی واقعہ پہلے سے آگاہ کرکے آتا ہے، بارہا خواتین کو تنِ تنہا اُن کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جس میں سب سے زیادہ اُن کی خود اعتمادی معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔ عام طور پر شہر میں رہنے والی عورتیں پڑھی لکھی ہوتی ہیں، کام کرتے کرتے اُنہیں تجربہ بھی حاصل ہوجاتا ہے، ایسی عورتوں کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہونا فطری ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کا نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی استعمال کریں، ایسی خواتین کی تعداد بھی اب معاشرہ میں بڑھتی جارہی ہے جو گھریلو زندگی کے ساتھ ملازمت بھی کر رہی ہیں، اِس طرح اُن کی ذمہ داری دوہری اور تہری ہوجاتی ہے، ملازمت کے پیشہ میں اجنبی و نامانوس ماحول میں اپنے افسروں، ساتھیوں یا ماتحتوں کے ساتھ کام کرنا، دوسرے اپنے گھر، شوہر، بچوں اور عزیزوں سے متعلق ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے انجام دینا پڑتا ہے، ایسی خواتین کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے لیکن خوشگوار زندگی اُن ہی خواتین کو میسر آتی ہے جو خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہوتی ہیں۔
خواتین میں خود اعتمادی کے حصول کا انحصار بہت کچھ اُن کے خاندانی پس منظر اور گھریلو تربیت پر بھی ہوتا ہے۔ جہاںتک تعلیم کا سوال ہے تو وہ اُنہیں پیش آئند مسائل کو حل کرنے کا سلیقہ عطا کرتی ہے اور حالات سے مقابلہ کرنے کی برداشت بھی بڑھا دیتی ہے، لیکن خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر کا حوصلہ خود بڑھائیں، ایسی خواتین اپنے ساتھ اپنے شوہروں اور بچوں کو بھی خود اعتماد بنانے میں مددگار بن جاتی ہیں اور گھر و باہر کی ذمہ داریاں بخوبی نبھاکر دوسروں کے لئے مثال ثابت ہوتی ہیں اور ایسے نشان چھوڑ جاتی ہیں جو آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔
٭٭٭
خواتین کے لئے خود اعتمادی کیوں ضروری؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS