منو سیبسٹین
سپریم کورٹ میں ججوں کی 9 نئی تقرریوں کی موجودہ فہرست میں جسٹس عقیل قریشی کی عدم موجودگی بحث کا موضوع بن گئی ہے۔ جسٹس قریشی سے متعلق تنازعہ پہلی بار 2018 میں منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد وہ اس وقت کے چیف جسٹس سبھاش ریڈی کے سینئر ترین جج بن جانے کے بعد گجرات ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس بننے والے تھے۔ تاہم ان کا تبادلہ بمبئی ہائی کورٹ میں کر دیا گیا،جہاں انہیں پانچویں نمبر پر سنیارٹی کا عہدہ لینا تھا۔ گجرات ہائی کورٹ ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن نے اس منتقلی کی سخت مخالفت کی، جس نے جسٹس قریشی کی ایمان داری اور قابلیت کی سختی سے تصدیق اور وکالت کی۔ اور ان کے تبادلے کو مکمل طور پر غیر منصفانہ قرار دیا۔
مئی 2019 میں سپریم کورٹ کالجیم نے جسٹس قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ترقی دینے کی سفارش کی۔ تاہم مرکزی حکومت نے جسٹس قریشی کی منظوری پرروک لگادی۔ جبکہ اس فہرست میں تجویز کردہ دیگر ناموں (جسٹس ڈی این پٹیل ، جسٹس وی راماسوبرامنیم اور جسٹس آر ایس چوہان) کو بالترتیب دہلی،ہماچل پردیش اور تلنگانہ ہائی کورٹس میں مقررکیا گیا۔ مرکزی حکومت کی طرف سے منظوری دی گئی تھی۔
اس کی وجہ سے گجرات ہائی کورٹ ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی جس میں مرکز کو جسٹس قریشی کے بڑے عہد کی سفارش پر عمل کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا۔ جسٹس قریشی کے پروموشن کی وکالت کے لیے جی ایچ سی اے اے کی جانب سے پھلی ایس نریمن،اروند داتار،دشینت دیو، یتن اوجھا، مہر ٹھاکر،پرسی کویتا،جیسے سینئر ایڈوکیٹس کا ایک پینل پیش ہوا۔ تاہم مرکز بغیر کوئی وجہ بتائے اپنے پیروں کو گھسیٹتا رہا۔ سفارش کے چار ماہ بعد ستمبر 2019 میں سپریم کورٹ کالجیم نے وزارت انصاف سے کچھ بات چیت کے بعد ایک علیحدہ تجویز پیش کی، جس کے تحت
جسٹس قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ (جہاں تین علاقائی بینچ اور 53 جج تھے) کے بجائے تریپورہ ہائی کورٹ (4 جج ہائی کورٹ) میں ترقی دینے کے لیے کہا گیا۔ ترمیم شدہ تجویز،جو کہ ایک طرح کی ‘تصفیہ’ کی طرح تھی،مرکز نے قبول کر لی اور جسٹس قریشی تب سے تریپورہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہیں۔ عدالت نے کالجیم کی سفارشات پر عمل کرنے کے لیے مرکز کے لیے وقت کی حد مقرر کرنے کے مسئلے کو حل کیے بغیر جی ایچ سی اے اے کی درخواست نمٹا دی۔
چونکہ ان فیصلوں کے پیچھے کی وجوہات کو عوام کے سامنے ظاہر نہیں کیا جاتا، اس لیے ایک شخص قیاس آرائیوں پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایک عام سمجھداری ہے کہ جسٹس قریشی اپنے کچھ فیصلوں کی وجہ سے مرکزی حکومت کے لیے ایک ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ 2010 میں جسٹس قریشی نے گجرات کے اس وقت کے وزیر داخلہ بی جے پی لیڈر امیت شاہ کو سہراب الدین انکاؤنٹر قتل کیس میں دو دن کی پولیس تحویل میں بھیج دیا۔ جسٹس قریشی نے 2012 میں ایک فیصلے میں (ریٹائرڈ) جسٹس آر اے مہتا کی بطور لوک آیکت تقرری کو برقرار رکھا جو کہ ریاستی حکومت کے لیے ایک دھچکا تھا۔ 2016 کے نرودا پاٹیا قتل کیس میں مایا کوڈنانی (جو کہ گجرات حکومت میں وزیر تھے) اور چند دیگر کی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے انہیں ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ جسٹس قریشی سے متعلق ایک سینئر ایڈوکیٹ،جو آخری لمحات میں فریقین میں سے ایک کے لیے پیش ہوئے، نے جسٹس قریشی کو کیس سے بری کرنے کی درخواست کی۔ جسٹس قریشی نے دوبارہ حکم دینے کے معاملے میں اپنے حکم میں کہا “جب سینئر ایڈوکیٹس آخری مرحلے میں کیس میں پیش ہوتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں کہ کیا یہ بہتر نہ ہوتا اگر وکلاء خود عدالت سے درخواست کرنے کے بجائے ایسا کرتے۔ ” اس واقعہ پر اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا “یہ بہت افسوسناک ہے۔ ہم کچھ نہیں کہیں گے لیکن اس سے ادارے کے امیج اور لوگوں کے اعتماد کو نقصان پہنچتا ہے … ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔”
مئی 2018 میں ان کی سربراہی میں بنچ نے اوڈ میں گودھرا کے بعد ہوئے فسادات میں ملوث 19 ملزمان کی سزا کو برقرار رکھا،جہاں مارچ 2002 میں ایک ہجوم نے خواتین اور بچوں سمیت 23 افراد کو زندہ جلا دیا تھا۔ جسٹس قریشی نے اپنے فیصلے میں کہا “یہ واقعات اکثر ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم فرقہ وارانہ قرار دیتے ہیں۔ پاگل پن بالکل عام انسانوں کو ایک لمحے میں قاتل راکشسوں میں بدل دیتا ہے، جس سے متاثرین اور ان کے اپنے خاندانوں کے لیے موت اور تباہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑتا۔ ”
تازہ شفارسات کے مدنظر سپریم کورٹ کالجیم نے ہائی کورٹ کے سینئر ترین چیف جسٹس اے ایس اوکا کو منتخب کیا، لیکن اگلے سینئر چیف جسٹس اے ایس قریشی کو ہٹا دیا۔ کچھ اطلاعات ہیں کہ ستمبر 2019 کے بعد سے تقریبا دو سال تک سپریم کورٹ میں تقرری پرروک اس لیے رہی کہ جسٹس نریمن مصرتھے کہ جسٹس قریشی کو ترقی دی جائے۔ قابل ذکر ہے کہ نو ناموں کی موجودہ فہرست کو پانچ رکنی کالجیم نے جسٹس نریمن کے ریٹائر ہونے کے بعد ہفتے کو منظور کیا تھا۔ اس بار کالجیم کی توجہ سنیارٹی کے مقابلے میں دیگرتنوعات ومتعلقات پر زیادہ تھی،کیونکہ چار ججوں – دو خواتین اور پسماندہ طبقے کے دو افراد – کو ترقی دی گئی ہے۔ لیکن یہ ابھی تک جسٹس قریشی کو ہٹانے کی وضاحت نہیں کرتا،کیونکہ ایک اور خالی عہدہ ہے۔ اگر کالجیم ججوں کے ساتھ کھڑانہ ہوتا ہے اور عدالتی تقرریوں میں ایگزیکٹو کی ہدایت پر عمل کرتا ہے ،تو یہ عدالتی آزادی کے لیے خطرہ ہے۔ ایسی مثالیں این جے اے سی اور عدلیہ کو عدالتی آزادی کے نام پر عدالتی تقرریوں کا اختیار برقرار رکھتے ہوئے کالعدم قرار دیتی ہیں۔ جسٹس قریشی کی قابلیت پر کبھی کوئی سوال نہیں ہوا،ایک قابل جج جو ہمیشہ آئینی حقوق کے لیے کھڑا رہا ہے۔ جج کے ساتھ کھڑا ہونا جج کی دیانت اور قابلیت کا مضبوط ترین ثبوت ہے۔ جسٹس قریشی کا ہوم بار، گجرات ہائی کورٹ ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن ہمیشہ سے ہے اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں ان کی ترقی کے لیے پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے۔
تریپورہ ہائی کورٹ میں جسٹس قریشی نے عوامی آزادی پر قابل ذکر فیصلہ سنایا ہے سوشل میڈیا پوسٹس میں حکومت پر تنقید کرنے کے بعد گرفتار افراد کو شہری آزادی اور تحفظ کے حوالے سے قابل ذکر فیصلہ دیا ہے۔ آئی پی سی کی دفعہ 295 اے کے بارے میں ایک حالیہ فیصلے میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے بغیر جان بوجھ کر یا بدنیتی پر مبنی غفلت سے کیے گئے مذہب کی توہین قابل سزا جرم نہیں ہوگا۔ تریپورہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ان کے کچھ قابل ذکر اقدامات مندرجہ ذیل ہیں-
انہوں نے ایک نابالغ لڑکی کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹس کا ازخود نوٹس لیا، ایک ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ایک جوڑے کی خودکشی کی ایس آئی ٹی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ریاست میں کووڈ مینجمنٹ کی نگرانی اور ویکسین کی تقسیم کی نگرانی، شادی کی تقریب کو روکنے کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات کے غلط استعمال کی صورت میں مداخلت؛ COVID کے دوران یتیم خانوں میں بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات جاری کی گئیں۔ ضلعی عدلیہ میں خالی آسامیوں کو پُر کرنے کی ہدایات دی گئیں۔
انہوں نے اختلافی مقدمات میں فیصلے دیے ہیں ، مثلا ،ان میں گل روکھ گپتا کیس میں گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ سیکولرازم اور انفرادی آزادی پر زور دینے کے لیے قابل ذکر ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ کیا پارسی عورت پارسی نہیں رہے گی اگر اس نے غیر پارسی مرد سے شادی کرلی۔ اس مقدمے میں اکثریت کا موقف تھا کہ غیر پارسی سے شادی کا مطلب یہ ہوگا کہ عورت نے زرتشتی مذہب کو ترک کر دیا ہے،جبکہ جسٹس قریشی نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے کہا تھا “ایک سیکولر ریاست اور آئینی فلسفہ جو ہم نے اختیار کیا ہے ، یہ تصور کرنا ناممکن ہوگا کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو جائز شادی کی اجازت نہیں ہوگی، جب تک کہ ان میں سے کم از کم ایک ایک اپنے مذہب کوچھوڑنے اور تبدیلی قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔” یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے۔
یماندار ججوں کے لیے مایوس کن پیغام یہ ہے کہ جسٹس قریشی 7 مارچ 2022 کو ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اس سے قبل 4 جنوری 2022 کو جسٹس آر سبھاش ریڈی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اور عہدہ سپریم کورٹ میں خالی ہونے والا ہے۔ ہائیکورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ سے قبل جسٹس قریشی کو سپریم کورٹ کا عہدہ دینے سے کترانے کا مطلب یہ ہوگا کہ جو ججز اپنے فرائض کا انجام بہترین طریقے سے دیتا ہے تواسے درکنار کردیا جائے گا۔ یہ پہلی مثال نہیں ہے کہ کالجیم ججوں کو انتظامی زیادتیوں سے بچانے میں ناکام ہو۔ 2017 میں جسٹس جینت پٹیل کو ان کی مناسب ترقی سے انکار کے بعد استعفی دینا پڑا۔ قیاس آرائیاں عروج پر تھیں کہ جسٹس پٹیل متنازعہ عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر کیس کی سی بی آئی تحقیقات کی ہدایت کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اس کی نگرانی کے دوران ہی سی بی آئی نے اس معاملے میں ایک چارج شیٹ داخل کی تھی جس میں آئی بی اور گجرات پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کا نام لیا گیا تھا۔ بار کے کئی سینئر ارکان نے ان کے تبادلے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی تھی،جس کے خلاف کئی بار ایسوسی ایشنوں نے قراردادیں منظور کی تھیں۔ سینئر ایڈوکیٹ دشینت دیو نے ریمارکس دیے تھے کہ جسٹس پٹیل کو حکومت کے دباؤ کے آگے نہ جھکنے پر ہراساں کیا گیا۔ مضمون کے اختتام سے پہلے این جے اے سی کے فیصلے کے ایک اقتباس کا تذکرہ کرنا مناسب ہے- “عدلیہ سے اس ملک کے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کی توقع، انتظامیہ کے دیگر اداروں سے اسے مکمل پر دور اور آزاد رکھ کر ہی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔”