1947 میں ہندوستان کے دو ٹکڑے کرنے کے بعد مملکت خدا داد (پاکستان ) وجود میں آئی تھی۔ خالص مذہبی اور تنگ ذہنی کی بنیاد پر جس طرح ہمارے ملک ہندوستان کے دو ٹکڑے انگریزوں نے کیے تھے اور جس بدنیتی پر مبنی انگریزوں کی پالیسی پر عمل آوری کراتے ہوئے مذہبی شدت پسندوں نے ایک علیحدہ ملک پاکستان بنانے پر اصرار کیا تھا۔ اسی طرح الگ ملک بننے کی محض تین دہائیوں کے بعد ہی 1971 میں پاکستان کے بھی دو ٹکڑے ہوئے اور مشرقی پاکستان میں بنگلہ بولنے والے لوگوں کابنگلہ دیش دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ کسی بھی تنگ ذہنی خاص طور پرمذہبی منافرت پر مبنی ملک کا وجود میں آنا اس کے استحکام اور قیام کی ضما نت نہیں ہوسکتا۔ یہ بات 1971میں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ملک بننے کے ساتھ ثابت ہوگئی تھی، پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے میں کس نے کس کا ساتھ دیا اس پر بحثوںکا لامتناہی سلسلہ ابھی جاری ہے، مگر یہ بات درست ہے کہ 1947اور اس کے بعد1971میں ان دونوں ملکوں کا بننا مغربی ایشیا کی ایک بڑی طاقت یعنی ہندوستان کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی بڑی داستان ہے تو دوسری طرف یہ سانحہ ملت اسلامیہ کی انتشار اور تقسیم کی بھی اندوہناک داستان سناتا ہے۔ان دونوں سانحات میں بڑے پیمانے پر معصوم لوگوں کی موت ہوئی۔ بدقسمتی یہ کہ لوٹ مار کے ساتھ ساتھ آبرو ریزی کے بھی شرمناک واقعات پیش آئے۔ پاکستان اگرچہ مذہبی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ، مگر بنگلہ دیش لسانی بنیادوںپر بنا ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ دونوں ملک آج تک انتہائی پسماندگی ، انتشار اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ جیسا کہ قارئین کے علم میں ہوگا کہ پاکستان میں اس وقت عام انتخابات کی تیاریاں چل رہی ہیں اور وہاں ایک کارگزار عارضی انتظامیہ کام کررہی ہے اوراس انتظامیہ کی دیکھ ریکھ میں ہی آئندہ انتخابات ہوں گے ۔ ان انتخابات کے اعلان سے قبل وہاں پر سیاسی عدم استحکام کا دور چل رہا تھا ۔ عمران خان کی قیادت والی پاکستانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک ہارنے کے بعد اقتدار سے بے دخل ہوئی اور اس کا ٹھیکرا فوج کے سر پھوڑا گیا۔ نواز شریف کی مسلم لیگ اور پاکستان پیوپلز پارٹی(پی پی پی)کے اتحاد سے شہباز شریف کی قیادت میں حکومت بنی اور پچھلے دنوں عام انتخابات کرانے کے لیے اس حکومت نے استعفیٰ دیا ۔انہیں عبوری حکومت کی نگرانی میں انتخابات کرائے جارہے ہیں۔ اس پوری سیاسی مشقت اورالٹ پھیرکے پس پشت فوج بتائی جاتی ہیں۔ اقتدارسے بے دخل پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس صورت حال کے لیے پاکستانی فوج کو مورد الزام ٹھہرایا اور مختلف مقامات پر فو ج کے ٹھکانوں اور ہیڈ کوارٹرو ں اور دستوں پر حملے کیے ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج نے پی ٹی آئی کے خلاف سخت کارروائی کی۔ بہر حال اب وہاں قائم مقام حکومت کی نگرانی میں الیکشن کی تیاریاں ہورہی ہیں، اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی وہ نظام قائم تھا، جس کے تحت عام انتخابات ایک غیر جانبدار حکومت کراتی تھی اور کسی حد تک یہ انتخابات منصفانہ ہوا کرتے تھے ، مگر بعد میں بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد نظام بدلا اور 2011میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ عارضی حکومت کی نگرانی میں انتخابات کا انعقاد غیر آئینی ہے اور نمائندہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ورزی ہے۔ بعد میں حکومتوںنے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے تحت انتخابات کرائے۔ سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش میںجماعت اسلامی کو بھی پابندی عائد کرنے کے احکامات دئے تھے۔ 2014 اور 2018میں جو انتخابات ہوئے وہ برسراقتدار عوامی لیگ کی نگرانی میں ہی ہوئے، جن میں وزیراعظم شیخ حسینہ نے غیر معمولی اکثریت کے ساتھ الیکشن جیتا۔اب جنوری 2024میں انتخابات ہونے ہیں اور 2018 کی طرح اس مرتبہ بھی اپوزیشن پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پار ٹی(بی این پی) ایک غیرجانبداراور عبوری حکومت کی نگرانی میں الیکشن کرانے کا مطالبہ کررہی ہے۔
بنگلہ دیش میں پارلیمنٹ کو جاتیہ سنگھد(Jatiya Sanghad) کہتے ہیں اور اس کے 300ممبران ہوتے ہیں ۔ باقی 50نشستیں خواتین کے لئے محفوظ ہیں۔ان پچاس سیٹوں کا الیکشن 300ممبران پارلیمنٹ کرتے ہیں اور پارٹی کے ممبران کے تناسب سے ہی خواتین ممبران پارلیمنٹ چنی جاتی ہیں۔بنگلہ دیش میں دوپارٹیوں اور دوخواتین کا سیاسی منظر نامہ پرقبضہ ہے۔شیخ حسینہ کی عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی خالدہ ضیاء اپنی اپنی پار ٹیوں اور سیاسی محاذوں کی سربراہ ہیں۔ دراصل بنگلہ دیش کی سیاست ان دونوں خواتین کی درمیان گھومتی ہے۔ شیخ حسینہ کی قیادت والا سیاسی اتحاد گرانڈ ایلاس یا عظیم اتحاد کہلاتا ہے۔ اس اتحاد میں 14 سیاسی پار ٹیاں ہیں۔یہ اتحاد2008میں بنایاگیا تھا، اس اتحاد کی دوبڑی پارٹیاں جاتیہ پارٹی اور ایل ڈی پی ہیں۔ نظریاتی طور پر یہ اتحاد سیکولر اور شوسلٹ ہے۔جب کہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کی قیادت والا اپوزیشن کا محاذ12 پارٹیوں پر مشتمل ہے۔2018کے عام انتخابات میں شیخ حسینہ کی قیادت والے عظیم تراتحاد نے 261سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔اس الیکشن میں اس اتحاد کو 74.63 فیصد ووٹ ملے تھے،جبکہ خالدہ ضیاء کے اتحاد کو 13.06 فیصد ووٹ ملے ، ایک بھی سیٹ پر کامیابی نہیں ملی تھی۔
گزشتہ دوالیکشن میں جس طرح شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ غیر معمولی ووٹوں اور اکثریت سے جیت رہی ہے۔اس پر نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا جارہاہے۔بنگلہ دیش میں ایک غیر جانبدار جمہوری نظام ماخذ تھا اور دونوں بڑی پارٹیاں اور ان کی لیڈر الیکشن جیتتے اور ہارتے ہوئے اقتدار میں آرہی تھیں اور جارہی تھیں۔ مگر 2013کے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جب سے رخصت پذیر حکومت ہی الیکشن کرارہی ہے، کرپشن، بوگس ووٹنگ اور بے ایمانی کے الزامات لگ رہے ہیں۔شیخ حسینہ واجد لگاتار دومرتبہ سے الیکشن لڑرہی ہیں اور جیت رہی ہیں ، مگر اب اندرون ملک اپوزیشن سیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی نے پرزور طریقہ سے مطالبہ کیاہے کہ آئندہ 2024کے اوائل میں ہونے والے الیکشن غیر جانبدارعبوری انتظامیہ کی نگرانی میں کرائے جائیں۔کئی ممالک بشمول امریکہ اور یوروپی یونین نے برملا بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔ امریکہ کے دوسرے نمبر کے سب سے باختیار افسر وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن نے حسینہ واجد کے افسران اور حامیوں کے خلاف واضح حکمت عملی وضع کی ہے کہ امریکہ نے آزاد انہ انتخابات کرانے کے لئے بنگلہ دیش حکومت پر دبائو ڈالنے کی خاطر کچھ شخصیات، افسران، موجودہ اور سابق پر ویزا پابندیاں عائد کی ہیں۔امریکہ نے جمہوری نظام میں روڑے اٹکانے والے افسران ، سیاسی حلیفوں ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران ، عدلیہ اور سیکورٹی سروسز کے اہلکاروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ان افسران ، افراد اور شخصیات کی فہرست میں وہ تمام لوگ ہیں جو پرامن الیکشن میںعوام کو ووٹ ڈالنے سے روکنے ، جلسہ جلوس کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں۔یا میڈیا کو آزادانہ طریقہ سے اپنے فرائض انجام دینے سے روک رہے ہیں۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش کی کلیدی اپوزیشن پارٹی الیکشن میں دھاندلی، تشدد اور روک ٹوک کی وجہ سے الیکشن کا بائیکاٹ کررہی تھی۔ پچھلے الیکشن میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)نے شمولیت نہیں کی تھی اور حکمراں عوامی لیگ کو بالکل واک اووردیا گیاہے ، اب عالمی برادری چاہتی ہے کہ یہ صورتحال نہ پیش آئے۔بی این پی کا موقف تھا کہ اس طرح کے الیکشن میں شمولیت تشدد اور خونی تشدد کو ہوا دے گی اورملک میںعدم استحکام ہوجائے گا۔بہرکیف اب بنگلہ دیش میں الیکشن زیادہ دور نہیں اور اپوزیشن و سول سوسائٹی مطالبہ کررہی ہے کہ بنگلہ دیش کا پرانا نظام بحال کیاجائے، جس میں عام انتخابات کا انعقاد ایک غیر جانبدار انتظامیہ کی نگرانی میں ہوناکہ موجودہ حسینہ واجد کی قیادت والی حکومت کی نگرانی میں ہو۔عالمی برادری کو لگتا ہے کہ اس طرح کی صورتحال میں ملک ایک پارٹی نظام کی طرف ڈھکیلا جارہاہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اس بابت بنگلہ دیش میں اپوزیشن کے اس مطالبہ کو لے کر مہم چلارہی ہے، جس کو دبانے کی پولیس اور حکمراں اتحاد کے قانون نافذ کرنے والے ادارے طاقت کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔اقوام متحدہ کا کہناہے کہ اپوزیشن کی ریلیوں کو سخت کارروائی کرکے روکا جارہاہے،بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی جارہی ہیں ۔مظاہرین پر ربڑکی گولیاں چلائی جارہی ہیں ، آنسوگیس چھوڑا جارہاہے، سادہ کپڑوں میں پولیس اہلکارمظاہرین کے خلاف ہتھوڑے ، بیٹ، لوہے کی راڈوںکا بے دریخ استعمال کررہے ہیں۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پار ٹی، (خالدہ ضیاء کی پارٹی) اور بنگلہ دیش کی مذہبی اور سول سوسائٹی کے افراد حکمراں اتحاد سے انتخابات سے قبل استعفیٰ دینے کا مطالبہ کررہے ہیں اور انتظامیہ ایک عبوری حکومت کے سپرد کرنے کی بات کررہے ہیں ، مگر شیخ حسینہ اس مطالبہ کو مسترد کرچکی ہیں ، ان کا کہناہے کہ اقوام متحدہ اس طرح کے بیانات دے کر ملک کو اس مقام پر پہنچا رہا ہے، جہاںگلی گلی سیاسی پار ٹیوں میں تشدد اور ٹکرائو ہوگا اور قتل وغارت گری مچے گی۔اس وقت پورے بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ کو لے کر مظاہرے ہورہے ہیں ،یہ تشدد جھگڑوں اور مظاہرین میں سیکڑوں لوگ زخمی ہوگئے ہیں۔شیخ حسینہ 2009سے اقتدار میں ہیں ۔
بنگلہ دیش میں کیوں مچی ہے اتھل پتھل؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS