کیوں شرمسار ہوئی برازیلیائی جمہوریت

0

رہیس سنگھ

برازیلیا (برازیل) میں گزشتہ دنوں جو ہوا وہ آج جمہوریت کی نئی روایت سی بنتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ بھلے ہی اسے امریکہ کے کیپٹل ہل کی ایک نقل یا تکرار مان کر موضوع کی شدت کم کردی جائے یا بولسونارو-ٹرمپ بانڈنگ کی بنیاد پر اسے ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب دھکیلنے دیا جائے، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ ایسے واقعات ملک کی سیاست میں ہورہے بگاڑ، قومی قیادت کے عزائم اور جمہوری اداروں کی کمزوری سے جنم لیتے ہیں۔ برازیل کے تناظر میں یہ تینوں ہی عنصر ذمہ دار ہیں یا پھر صرف کوئی ایک، یہ کہنا مشکل ہوگا۔ پھر بھی یہ سوال تو پیدا ہوتا ہی ہے کہ آخر وہ وجہ کون سی تھی جس کی وجہ سے بولسونارو نے صحت مند جمہوری سیاست کو متعارف کراتے ہوئے لولا دا سلوا کی حلف برداری میں شامل ہونا مناسب نہیں سمجھا؟ لولا دا سلوانے حلف لینے سے قبل ہی انہیں امریکہ جاکر آرلینڈو میں عارضی رہائش گاہ بنانی کیوں پڑگئی؟ ان کے ممبرپارلیمنٹ بیٹے ایڈوآرڈا بولسونارو امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ میٹنگ آخر کس حکمت عملی کے تحت کررہے تھے؟ کیا وہ ’ٹرمپین ماڈل آف ڈیموکریسی‘ جس کی جھلک جنوری 2020میں پوری دنیا علامتی طور پر ہی سہی پر امریکی طاقت کی تقسیم کی شکل میں دیکھ چکی ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ جس بولسوناروواد کا تصور بھی کررہے تھے وہ بے نتیجہ ہی رہنا تھا کیوں کہ کیپٹل ہل واقعہ کے نتائج ٹرمپ کے مطابق نہیں آئے تھے۔ پھر برازیلیا میں کوئی نئی امید کیسے کی جاسکتی تھی؟
دراصل سیاست میں کوئی شارٹ کٹ ہوتا نہیں ہے، بھلے ہی ایسی کچھ مثالیں دنیا کے سامنے آگئی ہوں۔ سیاست میں شارٹ کٹ میری نظر میں صرف مزاج( اسٹیٹ آف مائنڈ ہے) ہے جو کبھی مختصر مدت کے لیے کامیاب ہوبھی سکتا ہے لیکن طویل مدت میں تو اسے ناکام ہونا ہی ہے۔ ایسا اس لیے کیوں کہ یہ کوئی سیاست کی قدر پر مبنی خوشحال روایت نہیں ہے۔ ہاں منتقلی کی مدت میں یہ کامیاب بھی ہوجاتی ہے، لیکن عام حالات میں نہیں۔ پھر بھی امریکہ جیسے خوشحال جمہوری ملک کی گرانڈ اولڈپارٹی کے صدر نے اپنی ہار کے بعد ایسا کیا۔ ایسے ہی بولسونارو نے برازیل میں دوہرانے کی کوشش کی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اکتوبر 2022میں برازیل میں صدارت کے لیے ہوئے الیکشن میں بولسونارو کی شکست ہوئی اور لولا دا سلوا کی بہت ہی معمولی فرق سے فتح۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ الیکشن میں فتح اور شکست کے درمیان فرق چاہے جتنا بھی کم ہو لیکن ہار ہار ہوتی ہے اور جیت جیت۔ اسے لے کر الزام-جوابی الزام بھی لگائے جاتے ہیں لیکن اقتدار کی منتقلی پرامن طریقہ سے آئین کی روح کے مطابق ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ بات بولسونارو کو سمجھ میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے انہوں نے عہدہ چھوڑنے میں کافی وقت لگایا اور جب چھوڑا بھی تو ان کے حامیوں نے جمہوری اداروں پر حملہ کا منصوبہ بنالیا۔ بولسونارو اپنا ہاتھ ہونے سے بھلے ہی انکار کررہے ہوں لیکن ان کی رضامندی اور ہدایت کے یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ خیال رہے کہ بیچ میں کچھ وقت کے لیے ایسا بھی لگنے لگا تھا کہ وہ عہدہ چھوڑنے سے انکار کرسکتے ہیں۔ ان کے حامیوں میں ایسی ہلچل بھی کافی وقت تک رہی۔ ان کے حامیوں نے تو فوج سے دخل کا مطالبہ بھی شروع کردیا تھا لیکن برازیل کے سپریم کورٹ نے راجدھانی برازیلیا کی سیکورٹی بڑھائی اور احتیاطاً گن لے کر چلنے پر پابندی عائد ہوئی۔ ایسا حلف برداری کے دوران تشدد اور فسادات جیسے حالات کو روکنے کے لحاظ سے کیا گیا تھا۔ پھر بھی ایسا ہوا۔ آخر کیوں؟
پہلی نظر میں تو یہ لولا دا سلوا کی برازیلیا میں حیرت انگیز واپسی اور بولسونارو کی امیدوں کے برعکس شکست اس کی فوری وجہ ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کی دیگر وجوہات کو جاننے کے لیے تو برازیل کے اندر جھانک کر دیکھنا ہوگا۔ لولاداسلوا اس سے پہلے بھی دو بار برازیل کے صدر رہ چکے ہیں۔ ان کا نظریہ بائیں بازو کا ہے لیکن ان کی یہ فتح صحیح معنوں میں بائیں بازو کی جیت نہیں ہے بلکہ اس اعتماد کی فتح ہے جو آج کی غیریقینی اور جوکھم بھری دنیا میں عام آدمی کو زندگی جینے کی گارنٹی دینے کی ہمت پیدا کرتی ہے۔ ہم محدود معنوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ گلوبلائزیشن کے مقاصد سے دنیا کا آہستہ آہستہ بھٹکنا اور گلوبلائزیشن کی تقدیر لکھنے کا دعویٰ کرنے والی مغربی لیڈرشپ کا تنگ نظری سے بھر جانا جس کی وجہ سے دنیا بھرم، خوف اور غیریقینی کے دور سے گزرنے لگی۔
دنیا میں رہنے والے زیادہ تر لوگ اپنے اپنے ملک کی ترقی چاہتے ہیں لیکن اس ترقی میں وہ اپنی حصہ داری بھی چاہتے ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ملک کی ترقی کا تھوڑا سا حصہ ان کی جیب میں بھی جائے اور ان کا مستقبل بھی محفوظ نظر آئے۔ برازیلین میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں میں برازیل اس طرح کی ترقی سے بھٹک گیا۔ بولسونارو نے برازیل کو جس ٹریک پر چلانا چاہا اس میں لوگوں کا بھلا ممکن نہیں ہوسکا۔ وہ بھول گئے کہ وہ وہی برازیل ہے جس میں 2013میں کرایہ میں اضافہ کے خلاف ساؤباؤلو، برازیلیا اور ریو ڈی جینیریو میں جو تحریکیں ہوئی تھیں، انہوں نے اس وقت کی حکومت کی بنیاد ہلا دی تھیں۔ انہوں نے شاید اس بات پر بھی غور نہیں کیا ہوگا کہ جب دنیا عالمگیریت کے دروازہ پر کھڑی تھی اور داخل ہونے کی تیاری کررہی تھی اس وقت لاطینی امریکی ممالک میں سرمایہ دارانہ تسلط کے خلاف تیزی سے ردعمل ہوا تھا۔ حالاں کہ برازیل اس طرح کے مزاحم سے بچا رہا تھا جن سے ہوکر بولیویا، پیرو، اکواڈور، گواٹے مالا اور میکسیکو جیسے ممالک گزرے تھے۔ ان عوامی تحریکوں نے کولمبیا، وینزوئیلا اور گواٹے مالا میں ایک بڑی تبدیلی لانے میں کامیابی بھی حاصل کی تھی۔ انہی تحریکوں کے درمیان برازیلیا سے نوجوانوں کی ایک آواز آئی تھی- ’’دراصل۔۔۔ لوگ اس ملک کے سسٹم سے اتنے ناراض ہیں، اتنے بیزار ہوگئے ہیں کہ اب تبدیلی چاہتے ہیں۔‘‘ بولسونارو کے لیے ایسے تاثرات کا جائزہ لینا چاہیے تھا لیکن ان کی کچھ نظریاتی خصوصیات نے انہیں اس تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ برازیل سیاسی بنیاد پر ہوئی تقسیم اور تفریق کی تقسیم لوگوں کی اپنی حقیقی شناخت ختم کررہی ہے۔اس کی ترقی کی رفتار سست ہوئی، مہنگائی میں اضافہ ہوا ا ور لوگ نہ چاہتے ہوئے لیکن قیمت میں اضافہ کی وجہ سے لازمی کردینے کے لیے مجبور ہوئے۔ اس وقت وہاں کی صورت حال یہ ہے کہ سیاسی بنیاد پر پیدا ہوئی تقسیم اور تفریق کی تقسیم لوگوں کی اپنی بنیادی پہچان ختم کررہی ہے۔اسے ہی دیکھتے ہوئے ممکنہ لولا دا سلوا نے اپیل کی تھی کہ اعتدال پسند اور دائیں بازو ایک ساتھ مل کر ملک کے خوشحال ماضی کو دوبارہ بحال کریں۔ ممکنہ برازیل کے شہریوں پر اس کا اثر پڑا اور لولا دا سلوا کی جیت ہوئی۔ جب کہ بولسونارو ایسا نہیں کرسکے۔ لہٰذا پہلے سے ہی کم ہورہی ان کی مقبولیت نے انہیں الیکشن میں پیچھے کردیا۔
بہرحال برازیل اس وقت صحیح معنوں میں جمہوری اقدار اور حکومت کی خواہشات کے درمیان ٹکراؤ سے گزررہا ہے۔ اچھی بات ہے کہ برازیل جنوبی امریکہ کی سب سے بڑی معیشت ہے اور دنیا کے سب سے استعداد والے اسٹیج برکس کا ممبر ہے جو برازیل کو آگے لے جانے میں مدد کرتا رہے گا۔ لیکن اکیسویں صدی جہاں صنعت کاری کی فورتھ جنریشن ایک نئی اسکرپٹ لکھنے کے لیے تیار ہو اور جہاں ورلڈآرڈر کی منتقلی سے باہر آنے کی کوشش ہو اور نئی بنیاد رکھنے کی کشمکش سے گزر رہی ہو، وہاں ایسے واقعات کسی بھی ملک کو بہت پیچھے لے جاکر کھڑے کردیتے ہیں۔ برازیل کے لیڈروں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS