محمد فاروق اعظمی
گزشتہ 8، 10برسوں میں جس تیزی سے بے روزگاری نے ہندوستان پر پنجہ گاڑا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ نہیں لگ رہاہے کہ آنے والے دو چار برسوں میں یہ منظر نامہ تبدیل ہوگا۔بے روزگاری کے اس ہولنا ک محاذ پر موجودہ حکومت مکمل طور پر ناکام ثابت ہوچکی ہے۔ گزشتہ ہفتہ بہارا ور اترپردیش میں بے روزگار نوجوانوں کے ہنگامہ سے یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ اب نوجوان بے کاری سے تنگ آچکے ہیں، ان کے سامنے کرو یا مرو کی صورتحال ہے اور وہ یہ بھی محسوس کررہے ہیں کہ حکومت روزگار دینے کے معاملے میںان کے ساتھ کھلا دھوکہ کررہی ہے۔2014میں پہلی بار حکومت سنبھالنے سے قبل وزیراعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہر سال 2کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کریں گے لیکن 8برسوں کے بعد بھی یہ وعدہ ایک جملہ ہی ثابت ہو۱۔ اسی طرح2020میں بہارا نتخاب کے وقت نتیش کمارا ور بھارتیہ جنتاپارٹی نے ہر سال19لاکھ نوکریاں دینے کا وعدہ کیاتھا۔اس وقت ریلوے میں بھرتی کے تعلق سے خوب اعلانات کیے گئے۔ ریلوے کی ایک کروڑسے زیادہ اسامیوں کی تشہیر کی گئی اور نوجوانوں کو لالی پاپ دکھایاگیا کہ انہیں اب بے روزگاری کے محاذ پر کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن جب حقیقت سامنے آئی تو نوجوانوں کے ہاتھوںکے طوطے اڑ گئے۔
وزارت ریلوے نے 2019 میںفقط 35ہزار اسامیوں کا اعلان کیا اوراس کیلئے تین مرحلوں میں امتحانات کا بھی اعلان کیاگیا۔ پورے ملک سے خاص کر شمالی ہندوستان اترپردیش اور بہار سے امیدواروںنے درخواستیں دیں۔اس 35ہزار کی اسامی کیلئے سوا کروڑ سے زیادہ بے روزگاروں نے فارم بھرا اوراس کی فیس بھی ادا کی۔ وزارت ریلوے نے جنرل امیدواروں سے400روپے فی درخواست اور دیگر سے250روپے فی درخواست کی شرح سے 400 کروڑ کمائے۔ نوجوان اس امید میں تھے کہ انہیں جلد ہی ملازمت مل جائے گی۔ لیکن ریلوے بے روزگار نوجوانوں سے یہ رقم وصول کرنے کے بعد خاموش بیٹھ گئی۔جن اسامیوں کیلئے نوٹیفیکیشن 12مارچ 2019کو جاری کیاگیاتھا، اس کیلئے امتحان بھی اسی سال ستمبر میں ہونا تھا لیکن اس میں وزارت ریلوے نے بلاوجہ کی تاخیر کی اورپہلے مرحلہ کا امتحان دسمبر 2020 اور جولائی 2021 کے درمیان لیا گیا۔ دوسرے مرحلہ کے امتحان کیلئے 15 فروری2022کی تاریخ مقرر کی گئی۔ پہلے مرحلہ کے امتحان کا نتیجہ14جنوری کو جاری کیاگیا۔ اسی طرح اسی سال2019میں گروپ سی لیول کی تقریباً ایک لاکھ اسامیوں کیلئے بھی نوٹیفیکیشن جاری کیاگیا جس کیلئے ایک کروڑ 15لاکھ بے روزگار نوجوانوں نے درخواستیں دیں اوراس کی فیس کی مد میں وزارت ریلوے نے پھر 400 کروڑ روپے اکٹھے کرلیے۔ بعد میں اعلان کیاکہ امیدواروں کی غیرمعمولی تعداد کی وجہ سے ان اسامیوں کیلئے امتحان کے انعقاد میں تاخیر ہوگی اور اب 2 سال 10 ماہ سے زیادہ وقت گزرجانے کے بعد بھی امتحان کی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔
آر آر بی – این ٹی پی سی یعنی ریلوے بھرتی بورڈ نان ٹیکنیکل پاپولر کیٹگریز میں مختلف اسامیوں کیلئے امتحان کا جو معیار مقرر کیاگیا وہ بھی یو پی ایس سی لیول کا ہی تھا۔ ملک بھر کے سولہ ریلوے زون کے 25 بھرتی بورڈ کے زیرا نتظام ہونے والے اس امتحان میں جنرل سائنس، میتھ میٹکس، جنرل انٹلیجنس اینڈ ریزننگ، عمومی آگاہی اورمعلومات عامہ کے 100 نمبروں کے سوالات 90 منٹ میں حل کرنے کاہدف دیاگیا۔اس امتحان کے ذریعہ مختلف عہدوں پرلیول 2 سے لیول 6 تک بھرتیاں کی جانی ہیں۔جن کیلئے الگ الگ تعلیمی اہلیت مقرر کی گئی تھی۔ لیکن ہوا یوں کہ ایک ایک امیدوار نے اپنی اپنی تعلیمی قابلیت کے مطابق دو دو عہدوں کیلئے درخواست دی اوراس کا امتحان بھی دیا۔ ان اسامیوں پر بھرتی کیلئے ریلوے نوٹیفیکیشن میںکہا گیا تھا کہ امتحان کے پہلے مرحلے میں خالی اسامیوں کی کل تعداد سے 20 گنا زیادہ امیدواروں کو پاس کیاجائے تاکہ دوسرے مرحلے میں زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو موقع مل سکے۔ لیکن جب نتیجہ آیا تو یہ دیکھاگیا کہ وہ حقیقت سے صرف 10 گنا زیادہ ہے۔یہی صورتحال ریلوے کے گروپ سی لیول 1کی بھرتی میں بھی پیش آئی۔چار برسوں کے بعد ریلوے نے بھرتی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا، اس میں بھی دو سال امتحانات میں ہی گزر گئے۔ اس پر ستم یہ بھی کیاگیا کہ آن لائن درخواستوں میں بڑی تعداد میں تکنیکی طور پر غلطی اور خامی کی نشاندہی کرتے ہوئے تقریباً ساڑھے 5 لاکھ درخواستیں مسترد کر دی گئیں حالانکہ امیدواروں نے امتحان کی فیس بھی باقاعدہ ادا کی تھی۔
حکومت اور وزارت ریلوے کی یہ کھلی بدعنوانی اور بے ضابطگی امیدواروں کے اشتعال کا سبب بنی اوروہ سر تاپا احتجاج ہوگئے، نتیجہ میں ایک جانب ریلوے کی پٹریاں اکھاڑی گئیں، ٹرینیں جلائی گئیں تو دوسری جانب پولیس نے بے روزگار نوجوانوں پر وحشیانہ جبر کے ریکارڈ بھی توڑ دیے۔بے روزگاری کی یہ سنگین صورتحال اور اس پر حکومت کی جانب سے ملنے والے پے بہ پے دھوکے نے نوجوانوںکے سامنے کرو یا مروجیسے حالات پیدا کردیے ہیں۔
ایسا معاملہ صرف ریلوے میں بھرتی کا ہی نہیں، یہ معاملہ تو 8 برسوں کے بعد ایک ٹسٹ کیس کے طور پر سامنے آیاہے۔کم و بیش تمام سرکاری اداروں میں یہی صورتحال ہے۔ درخواست دینے کے دو دو چار برس گزرجانے کے باوجود نہ تو امیدواروں کا امتحان لیاجاتا ہے اور نہ ہی ان کے کسی سوال کا جواب دیاجاتا ہے۔ اس دوران بے روزگار نوجوانوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے اور اسی تناسب میں نوجوانوں میں مایوسی اور اشتعال بھی پیدا ہوتا چلاجاتا ہے۔
کورونا کی طرح بے روزگاری بھی ہندوستان میں ایک خطرناک اور موذی وائرس کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے اعداد وشمار کے مطابق بے روزگاری سے مایوس نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2016 سے 2019 کے درمیان بے روزگاروں کی خودکشی میں24فیصد کا اضافہ درج کیاگیاہے۔ صرف سال 2019 یعنی کورونا سے پہلے والے سال میں2851 نوجوانوں نے بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کر لی تھی۔ 2016 میں خودکشی کرنے والے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد2298تھی، اسی طرح 2017 میں 2404 اور 2018 میں 2741بے روزگار نوجوانوں نے خود کو ہلاک کرلیاتھا۔ یعنی خودکشی کرنے والے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی جانب سے گزشتہ سال جاری کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق عالمی سطح پر بے روزگاری6.47فیصد تھی لیکن ہندوستان میں یہ شرح 7.11فیصد رہی۔2022کے آغاز تک یہ مزید بڑھ کر اب8فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ہمارے وہ پڑوسی ممالک جو آبادی، وسائل اور دیگر معاملات میں ہم سے کہیں زیادہ کم تر ہیں، وہاں بے روزگاری کا یہ عفریت قابو میں کرلیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں بے روزگاری 5.3فیصد، پاکستان میں 4.65 فیصد، سری لنکا میں 4.48 فیصد، نیپال میں 4.44فیصد اور بھوٹان میںفقط 3.74 فیصدہے۔ ان میں سے پاکستان کو چھوڑ کر کم و بیش تمام ممالک کی معیشتیں ہندوستان کی مدد سے چلنے والی معیشتیں کہلاتی ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے یہاں اس خطرناک صورتحال کو قابو میں نہیں کر پا رہے ہیں؟اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس محاذ پر حکومت کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی ہے۔اس کے پیش نظر سرمایہ کشی اور نجکاری کا ایک وسیع تر منصوبہ ہے اور وہ تمام سرکاری اداروں کو نجی ہاتھوں میں سونپنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔روزگارکی عدم فراہمی اور تخفیف روزگار بھی اسی منصوبہ کا ایک حصہ نظرآرہاہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ یہ بھیانک مسئلہ حکومت کی ترجیحات سے غائب رہے اور حکومت اپنے ماتھے پر ناکامی کا داغ سجائے رکھے۔
[email protected]