قانون ہستی کے قیام و اصلاح کے لئے باری تعالی کی
یہ سنت جاری رہی ہے کہ یہاں وہی چیز باقی رہ سکتی ہے جس میں نفع ہو جس میں نفع نہیں اسے نیست و نابود ہونا ہے۔ کیونکہ کائنات ہستی کا یہ بناؤ ،حسن یہ ارتقاء قائم نہیں رہ سکتا اگر اس میں خوبی کی بقا اور خرابی کے ازالے کیلئے ایک اٹل قوت سرگرم کار نہ رہتی ۔فطرت ہمیشہ چھانٹتی رہتی ہے وہ ہر گوشہ میں صرف خوبی اور برتری ہی باقی رکھتی ہے فساد اور نقص محو کر دیتی ہے ۔فطرت کا یہ قانون کارخانہ ہستی کے ہر ذرہ میں اپنا عمل کر رہا ہے۔اسی سے امم ملل اقوام اور جماعت کا اقبال وادبار ہدایت و شقاوت کا معاملہ بھی اسی سے وابستہ ہے۔ قوموں کے گزشتہ اعمال سے ہی ان کا حال بنتا ہے اور حال کے اعمال ہی ان کے مستقبل بناتے ہیں۔خدائے کریم قرآن کریم میں کہتا ہے کہ خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے یعنی اس بارے میں خود انسان کا عمل ہے۔وہ جیسی حالت چاہے اپنے عمل اور صلاحیت عمل سے حاصل کرلیں۔ مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر تم نے صلاحیت عمل کھودی تو وہ تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اقبال و ارتقاء کی نعمت عظمیٰ سے نوازیں گے۔ اور کوئی نہیں جو اس کو ایسا کرنے سے روک سکے اور پھر وہ دوسری قوم تمہاری طرح صلاحیت و اصلاح سے محروم نہ ہو گی بلکہ نیکوں کے ساتھ نرم اور بروں کے ساتھ سخت ہوگی۔دوسری جگہ وہ کہتا ہے کہ ہم یوں ہی قوموں کو دن بدن بدلتے رہتے ہیں اور ایک کے ہاتھوں دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں اگر ہم ایسا نہ کرتے ایک قوم کے دست تظلم سے دوسری مظلوم قوم کو نجات نہ دلاتے تو یہ حسین و جمیل دنیا ایک ایسی ناقابل تصور ہلاکت و بربادی کا منظر ہو جاتی جس کی سطح پر مردہ انسانوں کی بوسیدہ ہڈیوں اور منہدم عمارتوں کی اڑتی ہوئ خاک کے سوا اور کچھ نہ ہوتا۔ایک قوموں کا آنا دوسرے کا جانا یہ تمام تر حوادثات اسی حکمت الہی کا نتیجہ ہے جو تمام کائنات ہستی میں کار فرما ہے۔ جسے انفع کہا جاتا ہے۔
یہ سب قدرت کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ پس جو قوم نافع ہے اس کے لئے ثبات و بقا، اقبال و عروج ہے اور جو قوم غیر نافع بخش ہے ،ا س کے لئے تباہی و بربادی فنا اور زوال و نیستی ہے،كنتم خير أمة اخرجت للناس، میں ہمارے ظہور کا مقصد نفع خلائق قرار دیا ہے ۔گویا ہمارا ظہور و عروج دونوں نفع رسانی ناس کے لئے تھے۔ ہم نے جب تک اپنے ظہور و عروج کے مقاصد کو سنبھالے رکھا تب تک دنیا کے لئے نفع بخش رہے۔
اس لئے ہمیں تکمیل فی الارض حاصل رہا اور جب سے ہم نے اپنے ظہور و عروج کا مقصد بھلا دیا تو پھر ہمیں اس منصب سے بھی محروم ہونا پڑا اور قومی زندگی کی بجائے قومی موت کا سامنا کرنا پڑ ا۔اور قومی موت کا سامنا ہو بھی کیوں نہ ہو ،کیونکہ نہ آج ایمان کی دولت ساتھ ہے اور نہ ہی طاعات و حسنات کی پونجی دامن میں ہے۔زندگی یکسر غفلت و معصیت میں برباد اور پھر اس پہ نہ توبہ و انابت ،تو پھر ہمیں کس طرح قومی زندگی کی بجائے قومی موت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کوثر علی
ہینسوا، بتیا، بہار
9801997177
قومی زندگی کی بجائے قومی موت کا سامنا کیوں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS