اسرائیل صحافیوں کا قتل کیوں کرتا ہے؟ : ڈاکٹرمحمدضیاء اللہ

0

ڈاکٹرمحمدضیاء اللہ

اسرائیل کے جرائم کی فہرست بہت طویل اور ہولناکیوں سے پر ہے۔ یہ دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جو اپنے وجود کیلئے دعوی تو خدائی وعدہ کی تکمیل کو قرار دیتاہے، لیکن اس میں خدا کے بندوں سے سخت نفرت اور حقارت پائی جاتی ہے۔اسرائیلی دعووں کے برعکس فلسطینیوں کے خلاف صہیونی بربریت کی تاریخ اس قدر خوں آشام اور دل فگار ہے کہ اس میں اخلاقی بلندی،قانون کی پاسداری، رحم وکرم،عدل گستری اور حق پرستی جیسے اعلی اوصاف کے لئے قطعا کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔ ان خرابیوں کے علاوہ صہیونیوں کاایک خاص وصف یہ رہا ہے کہ وہ حقائق کو بدل دیتے ہیں۔ جن خدائی وعدوں کو اساس بناکر خالص یہودیوں کیلئے اسرائیل کو قائم کیا گیا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ محض جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اس جھو ٹ کو حقیقت کا جامہ پہنانے کیلئے صہیونیوں کا ایجنڈہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ باقی کہانیوں کو ختم کرتا رہے تاکہ دنیا اس کی بس اسی کہانی کو دہرائے جس کے پلاٹ صہیونی مفکرین تیار کرتے ہیں ۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ اس قوم کی فطرت میں حقائق کو مسخ کرنے اور اپنے ہوائے نفس کی بنیاد پر ایک نیا نظام حیات قائم کرنے کا چلن عہد قدیم سے رہا ہے۔ اپنی اسی فطرت کی بنا پر آج بھی حقائق کو مسخ کرنے کا سلسلہ یہ قوم جاری رکھے ہوئے ہے۔ صحافیوں کا قتل اس کی اسی مسخ شدہ فطرت کی توسیعی شکل ہے ۔

صہیونیوں میں حقائق اور سچائی کے تئیں یہ نفرت بھی اس کے وجود کی طرح قدیم اور ابدی ہے۔ پہلے یہ انبیا کا قتل کرتی تھی کیونکہ خدا کے یہ پیغمبران اس قوم کی اخلاقی اور عملی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اب صحافیوں کے قتل سے یہ قوم اپنی اس سرشت کی کجی کا اظہار کرتی ہے۔اسرائیل کو سب سے زیادہ خوف چونکہ سچائی کے باہر آ جانے اور اقوام عالم کے سامنے اس کا حقیقی چہرہ اجاگر ہو جانے سے لگتا ہے اسلئے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ان وسائل کا ہی گلا گھونٹ دیا جائے جن سے اس کی اس کی تعفن آمیز پالیسیوں کا پتہ چلتا ہو۔ اس محاذ پر اسرائیل کے جرائم کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ 7 اکتوبر کے آپریشن طوفان الاقصی سے لے کر اب تک238 صحافیوں کو اسرائیل نے شہید کیا ہے۔ یہ تمام صحافی غزہ پر جاری مسلسل اسرائیلی بمباریوں کا شکار ہوئے ہیں۔یہ سبھی صحافی صر ف اسلئے شہید کئے گئے کیونکہ ان کی رپورٹنگ، ان کے کیمر و ں اور ان کی تحریروں میں اسرائیلی بربریت کی وہ تفصیلات درج ہیں جن سے انسانیت شرمسار ہوتی ہے اور تاریخ کے صفحات میں درج ان حقائق کی بنیاد پر صہیونیوں کو دیر یا سویر ان کے جرائم کیلئے انہیں سزا دی جاسکے گی۔ مذکورہ بالا تعداد صرف شہید صحافیوں کی ہے۔ ان میں سے جو زخمی ہوئے ہیں ان کی تعداد اس پر مستز ا د ہے۔ اس کے علاوہ ان صحافیوں کے رشتہ دار، اعزہ و اقا ر ب کی ایک بڑی تعداد بھی اسرائیلی حیوانیت کا شکار ہوئی ہے ۔ اسرائیل صحافیوں کے خلاف اس قدر مجرمانہ پالیسی اس لئے نافذ کرتا ہے تاکہ وہ ڈر جائیں اور اپنے پیشہ کو پوری ذمہ داری سے ادا کرنے کی ہمت نہ جٹا پائیں ۔ لیکن اس کے باوجود صحافیوں نے اپنا کام کرنا ضروری سمجھا ہے اور ان کی یہی جوانمردی و بسالت اسرائیل کیلئے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ وہ اپنے پیشہ کی لاج رکھے ہوئے ہیں اور اپنے صحافتی مشن پر گامزن ہیں۔ یہ صحافی ہی ہیں جن کی پامردی و استقامت اور ان کے اپنے پیشہ سے مکمل وفاشعاری کی بدولت اسرائیل کے جرائم کی تفصیل دنیا کے سامنے سیدھے لوگوں کے آرام دہ کمروں تک پہنچ رہی ہیں۔ حالانکہ ہر لمحہ انہیں اس کا خطرہ رہتا ہے کہ وہ کسی اسرائیلی گولی یا بم و میزائل کا شکار نہ ہوجائیں۔ یہ صحافی سخت مشکل حالات میں جیتے ہیں۔ ان کے سامنے امن و سلامتی اور لوجسٹیک کے مسائل اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ جن علاقوں کا کوریج انہیں کرنا ہوتا ہے ان میں آسانی سے آنا جانا دشوار ہوتا ہے۔ کبھی خیموں میں پناہ لیتے ہیں تو کبھی کھلے آسمان کے نیچے سڑکوں پر رہتے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا ندارد۔ خریدناچاہیں تو بھی خورد و نوش کی چیزیں مہیا نہیںہیںکیونکہ اسرائیل نے مکمل طور پر ناکہ بندی کرکے عہد جدید کا کربلا قائم کر رکھا ہے۔ ایسے حالات میں ان صحافیوں کے دل و دماغ پر ایک دوسری ذمہ داری کا بوجھ بھی رہتا ہے۔ انہیں اس بات کی کوشش بھی کرنی پڑتی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے کھانے پینے، دوا علاج اور رہائش کا انتظام کریں۔ انہیں نفسیاتی عذاب سے بھی گزرنا پڑتا ہے کیونکہ ہر روز اعزہ اقا ر ب، دوستوں اورپڑوسیوں کو اسرائیل شہید کرتا رہتا ہے ۔ ان کے گھر منہدم کئے جاتے ہیں۔ بار بار نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑ تا ہے ۔صحت و تعلیم اور زندگی گزارنے کے دیگر بنیادی وسائل تک سے محرومی عام زندگی کا حصہ ہے۔ ان جاں گسل اور ہمت شکن صعوبتوں کے باوجود پوری پیشہ ورانہ مہارت کے سا تھ اپنا کا م کرنا کسی معمولی حوصلہ کے حامل انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔بجا طورپر غزہ میں کام کرنے والے یہ صحافی غیر معمولی صلا حیتو ں کے حامل ہیرو ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی اس جنگ میں ان کا کردار اسی طرح جلی حروف میں ثبت کیا جاتا رہے گا ،جس طرح مزاحمت کاروں کی داستانیں لکھی جا رہی ہیں۔

اگریہ صحافی نہ ہوتے تودنیاکو اندازہ ہی نہیں ہوتاکہ اسرا ئیل کس طرح شب و روز غزہ کو اس طرح برباد کر رہا ہے کہ وہاں زندگی کا کوئی نشان تک باقی نہ رہے۔ ان صحافیوں کی بہادری کی بنا پر ہی ہم غزہ کے لوگوں کی دل دوز مشکلات کو دیکھ پار ہے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ دنیا کی باضمیر قومیں بھی ان کی شدت و ہولناکی کو محسوس کر پار رہی ہیں۔ ان کی محنتوں کی وجہ سے ہی اسرائیلی بربریت کے خلاف تمام گوشہ ہائے عالم میں صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے۔ یہ صحافی ہی ہیں جو ہم تک اسپتالوں کے مناظر، کمزور خیموں، تباہ شدہ اسکول و مدارس اور سنسان بازاروں کی زندہ تصویریں پہنچاتے ہیں۔

اسرائیلی بموں اور میزائلوں میں شدید زخمی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی چیخیں اور دوا و علاج کیلئے تر ستے ان معصوموں کی گہاریں اقوام عا لم تک پہنچاتے ہیں۔ ان گھروں اور سڑکوں کی حا لت زار بتاتے ہیں جو کبھی آباد تھے اور جن پر کبھی زندگیاں دوڑتی اور ہنستی کھیلتی نظر آتی تھیں، لیکن اب وہاں تباہی و بربادی کے ڈیرے ہیں۔ قارئین ذرا تصور کریں کہ ان صحافیوں کا کام کتنا مشکل ہے۔ 24گھنٹے خبریں نشر کرنا، شب و روز اسرائیلی بمباری کے نتائج کو پیش کرنا اور ان حملوں میں شہید ہونے والوں کی تفصیلات بتانا، ز خمیوں اور ان کے رشتہ داروان سے ملنا اور چشم دید گواہوں سے با تیں کرنا، انسانی امدادات کی کمی اور اس کے مہلک اثرات و نتائج کو سمجھانا، معمولی امدادی سامانوں کے پہنچنے کی صورت میں گاڑیو ں کو ٹریک کرنا اور ان پر اوباش اسرائیلی آباد کار وں کاحملہ کر کے قابض ہوجا نے کی دلخرا ش تفصیل بیان کر نا ،را حت کا ساما ن حا صل کر نے والو ںپراسرائیلی فو ج کا گولیاں چلا نا اور اس کے نتیجہ میں بھوکے لوگوں کا شہید ہو ناکیایہ سب آسا ن کام ہے؟ پہا ڑ جیسی ہمت اور حوصلہ چاہئے اس ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے۔ یہی وہ کام ہے جو غزہ کے صحافی کر رہے ہیں اور اسرائیل نہیں چاہتا کہ مقہور فلسطینی زندگیوں کی یہ تفصیلات دنیا کے سامنے آئے اور اس کی فضیحت کا سامان تیار ہو اور اسی وجہ سے صحافیوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ ان صحافیوں کی مشکلات بس اسی قدر نہیں ہے کہ انہیں انسانی قوت تحمل سے زیادہ دقتوں کو طویل مدت تک برداشت کرنا پڑتاہے یا سخت ترین حالات میں انہیں جینا اور کام کرنا پڑتا ہے۔ ان کی مشکلات اس وقت مزید دوبالا ہوجاتی ہے جب اتنی محنت و جانفشانی کے بعد بھی وہ اپنی رپورٹیں اپنے ایڈیٹران کو صرف اس لئے نہیں بھیج پاتے ہیں کیونکہ انٹرنیٹ کی رفتار یا تو بالکل سست ہوتی ہے یا پھر اس کی خدمت ہی سرے سے مہیا نہیں ہوتی۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسرائیل ان صحافیوں پر یہ الزام لگاتا رہتا ہے کہ یہ فلسطینی مزاحمت کیلئے کام کرتے ہیں۔ ابھی الجزیزہ کے انس الشریف سمیت جن پانچ صحافیوں اور کیمرہ مین کو اسرائیل نے شہید کیا ہے ان پر بھی یہی الزام لگایا گیا تھا۔ اسرائیل کے اس پر وپیگنڈہ کا اثر بھی پڑتا ہے۔جو عرب اور مغربی میڈیا ہاؤسز اس صہیونی پروپیگنڈہ پر بھروسہ کرتے ہیں وہ ان کی رپورٹ کو نشر نہیں کرتے اور اس طرح اسرائیلی بربریت کی سچائی کو دنیا کے سامنے آنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اس طرح صہیونیوں کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ غزہ کے ان صحا فیوں کو وہ عزت اور مقام حاصل نہیں ہوتا جو مغرب کے ان صحا فیو ں کو ملتا ہے جو دن رات فلسطین، اسلام اور مسلمان کے خلاف زہر افشانی میں لگے رہتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ2015 میں فرانس کی چارلی ایبدو میگزین کی گستاخی کی وجہ سے جب 12 صحافیوں کا قتل ہوا تھا تو کس طرح جلوس نکالا گیا تھا۔ اس جلو س میں 40ملکوں کے لیڈران شامل ہوئے تھے جن میں فر ا نس کے صدر اور جرمنی کی چانسلر بھی شامل تھی۔ وزرائے اعظم اور اعلی درجہ کے سفارتی مشنوں کی تعداد اس کے علاوہ تھی۔ لیکن غزہ میں پچھلے چند مہینوں میں ہی سینکڑوں صحافی شہید ہوگئے جن میں الشفا ہاسپیٹل کے سامنے شہید ہونے والے وہ پانچ صحافی بھی شامل ہیں جو الجزیرہ سے وابستہ تھے۔ ان کے بارے میں اسی قسم کی حساسیت کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا گیا؟ بہت کم ملکوں نے اس کی مذمت ہے۔ اسی دوہرے معیار کی وجہ سے دنیا میں مظالم کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ الجزیرہ کے اب تک 11صحافی شہید ہوچکے ہیں جو غزہ میں شہید ہونے والے کل صحافیوں کا پانچ فیصد ہے۔ ان سے وابستہ کتنے گھر اور خاندان متاثر ہوئے۔ بیویاں بیوہ اور بچے یتیم ہوئے۔ بوڑھے ماں باپ اور چھوٹے بھائی بہنوں کا سہارا ختم ہوگیا اس کی کہانی خود درد و کرب کی ایک الگ داستان ہے۔ اسرائیل کو اس کے ان تمام جرائم کیلئے جب تک قرار واقعی سزا نہیں دی جائے گی۔ اس پر پابندیاں عائد کرکے اس کے جنگی مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا تب تک اس دنیا کے ہر گوشہ میں اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔ ایک پر امن دنیا کے قیام کیلئے اسرائیل اس وقت سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اس پر نکیل ڈالنا مہذب دنیا کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS