ہمیں ہچکی کیوں آتی ہے اور اس سے نجات کیسے مل سکتی ہے؟

0

وِنسنٹ ہو
ہم سب کو وقتاً فوقتاً ہچکی آتی ہے اور بعض اوقات ان پر قابو پانا ممکن نہیں رہتا ہے۔انسانی جسم میں پردہِ شکم (ڈایافرام) کا غیر ارادی طور پر جھٹکے سے سُکڑنے کے عمل کو ہچکی کہتے ہیں۔ پردہِ شکم جسم کا وہ عضلہ کہلاتا ہے جو آپ کے سینے کو آپ کے پیٹ سے الگ کرتا ہے، جو ہمیں سانس لینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب یہ غیر ارادی طور پر جھٹکے سے سُکڑنے کے عمل وقوع پذیر ہوتا ہے تو اِس کے بعد گلے میں آواز کی ہڈیاں بھی ایک لمحے کے لیے اچانک بند ہو جاتی ہیں۔ہچکی کے لیے طبی اصطلاح ’سنگلٹس‘ (singultus) ہے۔ یہ لاطینی لفظ ’سنگلٹ‘ (singult) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ’روتے ہوئے سانس لینا‘۔
ہم میں سے اکثرلوگوں کے لیے ہچکی پریشان کن نہیں ہوتی ہے اور یہ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہتی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کے لیے ہچکی طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے یا یہ دو دن سے زیادہ دیر تک جاری رہ سکتی ہے۔اس مسئلے میں بہرحال اچھی خبر یہ ہے کہ عام ہچکیوں کو دور کرنے کے آسان طریقے موجود ہیں اور جب یہ زیادہ عرصے تک برقرار رہیں تو اس کے علاج کے طریقے بھی موجود ہیں۔
ہچکی کی وجہ کیا ہے؟:ہچکی ایک اضطراری قوس کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی ایک نیوروموٹر راستہ جو سینسیشن کو جسمانی ردعمل میں تبدیل کرتا ہے۔ اس قوس میں حواس دماغ، کان، ناک اور گلے، ڈایافرام اور سینے اور پیٹ کے اعضاء شامل ہوتے ہیں۔(ماہرین کی تحقیق کے مطابق، ہچکی انسپیریٹری کمپلیکس اور گلوٹیس کلوزر کمپلیکس کے درمیان ’والو فنکشن‘ کے نیوروجینک ڈِسفنکشن کا نام کہا جاتا ہے)اس معاملے میں سینسیشن کے سگنلز دماغ کے اس حصے تک جاتے ہیں جو ریڑھ کی ہڈی کے اوپری حصے کے ساتھ ’ہچکی سینٹر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ہچکی کے مرکز سے سگنل واپس پردہِ شکم (ڈایافرام) اور آپ کی پسلیوں (انٹرکوسٹل مسلز) کے درمیان موجود پٹھوں تک جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں جھٹکے کے ساتھ مروڑ اٹھتا ہے۔ان پٹھوں کے مروڑ پھیپھڑوں میں ہوا کو کھینچتے ہیں اور یہ اچانک سانس لینے سے گلے میں آواز کی ہڈیوں یا گلوٹیز کے درمیان کھلنے والے حصے کو مضبوطی سے بند کر دیتے ہیں۔ اس تیزی سے بند ہونے سے ’ہچکی‘ کی آواز پیدا کرتے ہیں۔
آرک کو متاثر کرنے والی کوئی بھی چیز ہچکی کا باعث بن سکتی ہے۔ بڑا کھانا کھانے یا سافٹ ڈرنکس پینے سے معدے کا غیر ارادی طور پر کھینچنا سب سے زیادہ عام ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ معدے سے آنے والے سینسیشنل سگنلز (سنسنی خیز اشارے) ریفلیکس آرک کو متحرک کر سکتے ہیں۔تیز مرچ کا استعمال، شراب، تمباکو نوشی اور زیادہ جوش و خروش بھی اضطراری کیفیت بھی اس قوس کو متحرک کر سکتا ہے، جس سے ہچکی لگتی ہے۔حاملہ ماؤں کے رحم میں قبل از پیدائش الٹراساؤنڈ چیک کے دوران صحت مند جنینوں میں بھی ہچکی دیکھی گئی ہے۔ درحقیقت کچھ محققین کا خیال ہے کہ پیدائش کے فوراً بعد بچے میں پھیپھڑوں کو سانس لینے کے لیے تیار کرنے کا عمل ہچکی کی وجہ سے شروع ہوتا ہے۔
ہچکیاں کتنا عرصہ جاری رہتی ہے؟ اور آپ اسے کنٹرول کرنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟:ہچکی کا حملہ جو کہ 48 گھنٹے سے بھی کم رہتا ہے اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ ایسا حملہ عام طور پر خود ہی ختم ہو جاتا ہے۔جہاں یہ خود سے ختم نہیں ہوتا ہے، وہاں اضطراری قوس پر قابو پانے کے طریقے موجود ہیں۔ ’والسالوا‘ طریقہ (Valsalva maneuver)، آئس کولڈ ڈرنکس کا استعمال اور آنکھ کے ڈیلے پر ہلکے دباؤ دماغ میں ایک طویل اعصاب (ویگس — vagus) کی سرگرمی کو بڑھاتا ہے۔
کاغذ یا پلاسٹک کے تھیلے میں دوبارہ سانس لینے جیسے حربے خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی تعداد کو ایک محدود جگہ میں بڑھا کر کام کرتے ہیں۔ اس سے ہچکی سے منسلک پٹھوں کی حرکت کو دبانے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم دوبارہ سانس لینے سے دل کا دورہ پڑنے کا ایک چھوٹا لیکن سنگین خطرہ ہوتا ہے اس لیے اس عمل کو صرف ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہی انجام دیا جانا چاہیے۔تاہم ان طریقوں اور طبی مداخلتوں کے کام کو موثر ثابت کرنے کے بہت محدود شواہد موجود ہیں۔
ہمیں ہچکی کے بارے میں کب پریشان ہونا چاہیے؟: اگر ہچکی دو دن سے زیادہ رہتی ہے تو اسے مستقل ہچکی کہتے ہیں۔ اگر وہ دو ماہ سے زیادہ جاری رہے تو اسے ناقابل برداشت ہچکی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دائمی اور ناقابلِ برداشت ہچکی جسے اجتماعی طور پر دائمی ہچکی کے نام سے جانا جاتا ہے، کافی پریشان کن ہو سکتی ہے اور یہ ایک سنگین بنیادی وجہ کی نشاندہی کر سکتا ہے، اس لیے ایسی صورت میں اپنے ڈاکٹر سے فوری رابطہ کرنا ضروری ہے۔
دائمی ہچکی والے افراد کا مکمل اور جامع معائنہ کیا جائے گا۔ ان کی طبی تاریخ اکثر محرکات کے لیے بہت اہم اشارے دیتی ہے۔ بعض ادویات جیسے مرگی کے خلاف ادویات، الکوحل، تمباکو نوشی اور تفریحی ادویات کا استعمال سبھی ہچکی پیدا ہونے کے عمل سے جُڑے ہوئے ہیں۔ چونکہ سینے اور پیٹ کے اعضاء اضطراری قوس میں شامل ہوتے ہیں، ان اعضاء کی تحقیقات جیسے پھیپھڑوں کی امیجنگ یا اوپر سے کی جانے والی اینڈوسکوپی (جہاں ایک چھوٹے کیمرے والی ٹیوب کو اوپری ہاضمہ دیکھنے کے لیے گلے میں ڈالا جاتا ہے) کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔دماغ میں ہچکی کے مرکز سے، سگنل پردہِ شکم (ڈایافرام) اور آپ کی پسلیوں (انٹرکوسٹل مسلز) کے درمیان کے پٹھوں میں واپس آتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ سکڑ جاتے ہیں۔
فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتا چلا کہ دائمی ہچکی کے 80 فیصد مریضوں کی غذائی نالی اور معدے میں غیر معمولی چیزیں ہیں، جن میں ریفلوکس بیماری (معدہ اور غذائی نالی کا رجعی بہاؤ جزر) سب سے عام پایا جاتا ہے۔
آپ کا معالج آپ کے کان، ناک اور گلے کا بھی معائنہ کرے گا، کیونکہ کسی بیرونی شہ کے جسم میں داخل ہونے سے کان میں جلن یا گلے میں انفیکشن ہچکی کا سبب بن سکتی ہے۔دماغ کی امیجنگ ضروری ہو سکتی ہے خاص طور پر اگر اس سے متعلق علامات ہوں جیسے کہ بولنے میں تبدیلی اور چہرے اور اعضاء کے پٹھوں کی کمزوری۔ہچکی ہمیں بہت پریشان بھی کرسکتی ہے اگر یہ 40 گھنٹوں سے زیادہ عرشے تک جا رہے۔
دائمی ہچکیوں کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟:اگر ممکن ہو مکمل تحقیقات کے بعد بنیادی وجہ کا علاج کیا جانا چاہیے۔ ہچکی میں مبتلا افراد کو اکثر گیسٹرک ریفلوکس کا مسئلہ ہوتا ہے، اس لیے علاج میں اینٹی ریفلیکس ادویات کا مختصر کورس شامل ہوسکتا ہے۔ٹھوس ثبوت کی بنیاد والی دوسری دوائیں جو ہچکی کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہیں ان میں متلی پر قابو پانے والی دوا ’میٹوکلوپرامائیڈ‘ اور ’بیکلوفین‘ شامل ہیں، جو کہ پٹھوں کی کثافت (ضرورت سے زیادہ تنگی) کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔اس بات کے بڑھتے ہوئے شواہد موجود ہیں کہ دوروں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا ’گاباپینٹن‘ ہچکی کے لیے بھی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔
ہم مستقبل میں کیا علاج دیکھ سکتے ہیں؟:محققین نے حال ہی میں ایک اندرونی والو کے ساتھ ایک غیر لچکدار پانی پینے کی ٹیوب تیار کی ہے جس میں ایک کپ سے منہ میں پانی کھینچنے کے لیے فعال طریقے سے اسے کھینچنے (سکشن) کی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ٹیوب کو ’فورسڈ انسپائریٹری سکشن اینڈ سوالو ٹول‘، یا ’فِسٹ‘ (FISST) کہا جاتا ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ ’فِسٹ‘ حسی اعصاب کو متحرک کر کے ہچکی اضطراری قوس کو روکتا ہے تاکہ پردہِ شکم (ڈایافرام) اور گلوٹیس کے سکڑاؤ کا سبب بنے۔
ایک 249 شرکاء پر کی گئی تحقیق جنہوں نے فِسٹ کا تجربہ کیا، صرف 90 فیصد نے گھریلو علاج سے بہتر نتائج کی اطلاع دی۔تاہم فِسٹ پر تحقیق نے اب تک اس کا موازنہ کسی ایسے کنٹرول گروپ سے نہیں کیا ہے جن پر یہ طریقہِ علاج نہیں کیا گیا۔ اس لیے تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ پلیسبو (دوائی کے طور پر دیا جانے والا گھریلو علاج کا کوئی مادَّہ)، یا کسی غیر مستند دوا کی نسبت ’فِسٹ‘ کتنا زیادہ موثر ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS