پنکج چترویدی
گزشتہ 26اکتوبر2024کو بستر کے بیجاپور ضلع کے پاترپارہ، بھیڑم گڑھ میں تعینات ہریانہ کے رہنے والے سی آر پی ایف جوان پون کمار نے دن میں ہی خود کو گولی مار کر موت کو گلے لگالیا۔ گزشتہ دو ماہ میں صرف بستر میں نیم فوجی دستوں کے جوانوںکی خودکشی کا چھٹا اور اس سال کا چودہواں واقعہ ہے۔ جب مرکزی حکومت مسلسل چھاپے مار کر بڑے نکسل آپریشن کر رہی ہے اور ابوجھماد کے ان علاقوں تک سیکورٹی فورسز پہنچ رہی ہیں جنہیں اب تک ’’ابوجھ‘‘ کہا جاتا تھا، فوجیوں میں خودکشی کا رجحان تشویشناک بات ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں تو تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں لیکن ایک ہفتہ گزرتے ہی جوانوں کو انہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے مایوس ان کا ساتھی خودکشی کر چکا تھا۔
گزشتہ دہائی کے دوران بستر میں150سے زیادہ فوجی خود کشی یا پھر اپنے ہی ساتھی کے غصہ میں مارے گئے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی بھی فوجی ایسا قدم انتہائی تناؤ یا عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہوکر اٹھاتا ہے۔ آخر وہ دباؤ میں کیوں نہ ہوں؟ نہ تو انہیں صاف پانی مل رہا ہے اور نہ ہی صحت کی مناسب سہولیات۔ یہ جان کر افسوس ہو گا کہ نکسلی علاقوں میں خدمات انجام دینے والے فوجیوں کے ملیریا جیسی بیماری میں مبتلا ہونے کے اعدادوشمار ان کے لڑتے ہوئے شہید ہونے سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ نے تقریباً دو دہائی قبل ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی جس کی رپورٹ جون 2004میں آئی تھی۔ اس میں خراب سماجی ماحول، پرموشن کے کم امکانات، زیادہ کام، تناؤ میں مبتلا کرنے والے کام، ماحولیاتی تبدیلی، تنخواہ کی سہولیات جیسے مسائل پر کئی سفارشات کی گئی تھیں۔ ان میں تنظیمی سطح پر 37، نجی سطح پر آٹھ اور حکومتی سطح پر تین سفارشات شامل تھیں۔ ان میں چھٹیوں کی پالیسی میں بہتری، فوجیوں کے ساتھ باقاعدہ بات چیت، شکایات کے ازالے کو مضبوط بنانے، تفریح اور کھیلوں کے مواقع فراہم کرنے جیسی تجاویز شامل تھیں۔ ان پر کاغذی عمل بھی ہوا، لیکن جیسے جیسے ملک میں بدامنی سے متاثرہ علاقوں میں اضافہ ہو رہا ہے، نیم فوجی دستوں اور فوج کے کام کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر سال فسادات، نکسل ازم، علیحدگی پسندوں، سیلاب اور اسی طرح کے مشکل حالات سے نمٹنے کی جدوجہد کرنے والی اس فورس کے لوگ میدان میں لڑتے ہوئے مرنے سے کہیں زیادہ سنگین بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔ یہ نمونہ ہے کہ جن لوگوں کے مرنے کے بعد ہم نعرے لگانے کا کام کرتے ہیں، ان کی ملازمت کی شرائط کتنی ناقابل برداشت، ناکافی اور پرخطر ہیں۔
اپنے ہی ساتھی یا افسر کو گولی مارنے کے واقعات بھی آئے دن منظرعام پر آ رہے ہیں۔ مجموعی طور پر سی آر پی ایف دشمن سے نہیں، خود سے ہی لڑ رہی ہے۔دور دراز سے آئے مرکزی افواج کے جوان نہ تو مقامی جغرافیہ سے واقف ہیں، نہ ہی وہ مقامی بولی، زبان اور ثقافت سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی اپنا انٹلیجنس نیٹ ورک بن پایا ہے۔ وہ تو بنیادی طور پر مقامی پولیس کی اطلاع یا ہدایات پر ہی کام کرتے ہیں۔ بستر میں کئی مقامات پر تعمیر شدہ سڑکوں کی نگرانی کے لیے سی آر پی ایف کو روزانہ ڈیوٹی پر تعینات کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت سینٹرل فورس کا کام دشمن کو تباہ کرنے کا ہوتا ہے نہ کہ چوکسی کرنے کا۔
بستر دنیا کی خوبصورت ترین جگہوں میں سے ایک ہے، ہریالی، آبشار، جانور، پرندے اور انسان سبھی قدرتی ماحول میں آزاد ہیں۔ بھلے ہی اخبارات کی سرخیاں خوفزدہ کریں کہ بستر میں بارود کی بو آتی ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی باہری سیاح کے لیے کبھی بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پوری رات جگدل پور سے رائے پور تک کی سڑک پر گاڑیوں کی آمدورفت ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تنازع ہے تو بندوقوں کا، نکسل ازم نے یہاں اپنی جڑیں گہری کر لی ہیں۔ جب مقامی پولیس ان کے سامنے بے بس نظر آئی تو مرکزی سیکورٹی فورسز کو یہاں جھونک دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے لیے نہ تو خوراک اور پانی کا مناسب انتظام ہے اور نہ ہی صحت کی سہولیات، نہ ہی سڑکیں اور نہ ہی مواصلات۔ نتائج سامنے ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یہاں سینہ پر گولی کھاکر شہید ہونے والوں سے کہیں زیادہ تعداد سینے کی دھڑکنیں رکنے یا مچھروں کے کاٹنے سے مرنے والوں کی ہے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مقامی پولیس کی فرضی اور استحصالی کارروائیوں کی وجہ سے دور دراز علاقوں کے دیہاتی خاکی وردی پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں مقامی پولیس کی غلط کارروائیوں کا خمیازہ مرکزی فورسز کو بھگتنا پڑتا ہے۔ انتہائی گھنے جنگلات میں مسلسل تلاشی اور گشت کا کام بہت تناؤ بھرا ہے، یہاں دشمن نظر نہیں آتاہے، ہر دوسرے انسان پر شک ہوتا ہے، چاہے وہ چھوٹا بچہ ہو یا پھر بدحال دیہاتی۔ مکمل طور پر عدم اعتماد، نامعلوم خوف اور اندھی گلی میں منزل کی تلاش۔ اس پر بھی ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، جس کی ڈور سیاسی آقاؤں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس قسم کا مسلسل دباؤ بعض اوقات فوجیوں کے لیے جان لیوا ثابت ہورہا ہے۔
سڑکوں کا نہ ہونا،صرف سیکورٹی کے لحاظ سے ہی جوانوں کو دقت نہیں ہے، بلکہ اس کا اثر ان کی ذاتی زندگی پر بھی ہوتا ہے۔ ان کی پسند کا کھانا، کپڑے، یہاں تک کہ پانی بھی نہیں ملتا ہے۔ بستر میں زمینی پانی بہت آلودہ ہے، اس میں آئرن کی مقدار بہت زیادہ ہے اور اسی کی وجہ سے گرمی شروع ہوتے ہی عام لوگوں کے ساتھ ساتھ فوجی بھی الٹی اور اسہال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات ٹینکروں کے ذریعے کیمپ میں پانی سپلائی بھی ہوتا ہے، لیکن وہ کسی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ سے صاف ہوکر نہیں آتا ہے۔کہتے ہیں کہ جوان پانی کے ہر گھونٹ کے ساتھ ڈائریا، پیلیا اور ٹائیفائیڈ کے جراثیم پیتا ہے۔ شدید مرطوب، جھلسا دینے والی گرمی والا یہاں کا موسم بعض اوقات ناقابل برداشت ہوتا ہے اور یہ مچھروں کی افزائش کا باعث بنتا ہے، جوکہ ہر سال کئی جوانوں کی بے وقت موت کی وجہ بنتے ہیں۔ اگرچہ جوانوں کو سخت ہدایت ہے کہ وہ مچھر دانی لگاکر سوئیں، لیکن رات کی گرمی اور گھنے جنگلات میں چوکسی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوپاتا۔ یہاں تک کہ بستر کا ملیریا اب روایتی کونین سے ٹھیک نہیں ہوتا ہے۔
گھنے جنگلات، قدرتی آبشاروں اور پہاڑوں جیسے قدرتی حسن سے مالا مال بستر میں بھی پورے ملک کی طرح موسم بدلتے ہیں، مقامی بولیوں میں ان کے نام بھی ہیں، لیکن وہاں کے باشندے ان موسموں کی پہچان بیماریوں سے کرتے ہیں۔ اس کے باوجود مرکزی فورسز کے جوانوں کے لیے صحت کی خدمات بہت ناقص ہیں۔ فوجی یہاں-وہاں نہیں جا سکتے، جگدل پور کا میڈیکل کالج بہت غیر منظم ہے۔
کمزور موبائل نیٹ ورک بھی جوانوں کے تناؤ اور موت کا سبب بنا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ بستر کا رقبہ ریاست کیرالہ سے زیادہ ہے۔ یہاں بہت گھنے جنگلات ہیں اور اس کے مقابلے میں موبائل ٹاورز بہت کم ہیں۔ زونل ایریاز میں نکسلی ٹاوررہنے نہیں دیتے تو شہری علاقوں میں مناسب بجلی کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے ٹاور کمزور رہتے ہیں۔ انتہائی تناؤ کی زندگی جینے والا فوجی کبھی اپنے گھر والوں کی خیریت بھی جاننا چاہے تو یہ بڑی پریشانی کی بات ہوتی ہے۔ کئی بار یہ بھی دیکھا گیا کہ سگنل کمزور ہونے پر جوان فون پر بات کرنے کیمپ سے کچھ باہر نکلا اور نکسلیوں نے اسے اپنا نشانہ بنالیا۔بہت سے کیمپوں میں فوجی اپنے فون کو اونچے اینٹینا پر لٹکا دیتے ہیں اور اس میں لمبے تار کے ساتھ ’ایئرفون‘لگاکر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سی آر پی ایف کی رپورٹ میں یہ مانا گیا ہے کہ طویل عرصہ تک تناؤ، عدم تحفظ اور تنہائی کے ماحول نے فوجیوں میں دل کے امراض میں اضافہ کیا ہے۔ وہیں گھر والوں کی خیریت نہ جان پانے کا درد بھی انہیں اندر ہی اندر توڑتا رہتا ہے۔ مزید یہ کہ وہاں تفریح کے کوئی ذرائع نہیں ہیں اور نہ ہی جوانوں کے پاس اس کے لیے وقت ہے۔
یہ بھی تشویش کی بات ہے کہ سی آر پی ایف اور دیگر سیکورٹی فورسز میں ملازمت چھوڑنے والوں کی تعداد میں 450فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ افسران کی سطح پر بہت کم لوگ ہیں۔ یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ فوجیوں کے کام کرنے کے حالات کو بہتر بنائے بغیر بستر کو درپیش سیکورٹی چیلنجوں سے صحیح طریقے سے نمٹنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اب جوان پہلے سے زیادہ پڑھا لکھا ہے، وہ پہلے سے زیادہ حساس اور معلومات سے بھرپور ہے، ایسی صورت حال میں اس کے ساتھ کام کرتے ہوئے مزید بیداری اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ باقاعدہ چھٹی، افسران کے ساتھ بہتر رابطہ، دور دراز تعینات فوجیوں کے اہل خانہ کے مقامی مسائل کے حل کے لیے مقامی انتظامیہ کی ترجیح اور تیاری، فوجیوں کی تفریح کے مواقع، ان کے لیے پانی،طبی وغیرہ جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی ایسے اقدامات ہیں جو فوجیوں میں ڈسپلن اور کام کے عزم، دونوں کو برقرار رکھنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ یہی نہیں، جب تک سی آر پی ایف کے جوان کو دشمن سے لڑتے ہوئے مارے جانے پر فوج کی طرح شہید کا درجہ اور احترام نہیں ملتا، ان کے حوصلے کو برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ پورا ملک اپنے جوانوں کو یاد کرنے کے لیے ان کی شہادت کا انتظار کرتا ہے۔ صرف صاف پانی، مچھروں سے نمٹنے کے اقدامات، فوجیوں کا باقاعدہ ہیلتھ چیک اپ کچھ ایسے اقدامات ہیں جو حکومت نہیں تو معاشرہ اپنی سطح پر اپنے فوجیوں کو فراہم کروا سکتا ہے تاکہ فوجی مکمل توجہ مرکوز کرتے ہوئے ملک کے دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں۔