بستی میں کیوں آتے ہیں تیندوے؟

0

پنکج چترویدی

عالمی شہرت یافتہ سیاحتی مقام کھجوراہو سے متصل گاؤں بینی گنج میں ایک تیندوا کنویں میں گر گیا، جسے بعد میں نکال کر نزدیک کے پنّا نیشنل پارک میں چھوڑ دیا گیا۔ یہ تیندوا پانچ دن سے بستی میں گھوم رہا تھا اور کئی بکریوں اور بچھڑوں کا شکار کر چکا تھا۔ ابھی اس ماہ کے پہلے ہی دن دہلی میں یونیورسٹی کے نزدیک گھنی بستی براڑی کے جگت پور گاؤں میں دن میں ایک تیندوا گھر میں بیٹھا ملا۔ بھیڑ دیکھ کر وہ حملہ آور ہوا اور پانچ لوگ زخمی ہوگئے۔ جیسے ہی گرمی شروع ہوئی، تپتے راجستھان کا ڈونگرپور ہو یا گھنے جنگلات والا اترپردیش کا لکھیم پور یا پھر آسام، ہر ریاست میں بستی میں تیندوے کے پہنچنے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ کئی جگہ انسانوں سے ٹکراؤ میں ان کی جان بھی گئی۔ ظاہر ہے کہ جب جنگل کا جانور بستی میں نظر آتا ہے تو انسان میں بھی خوف پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک تو سمجھنا ہوگا کہ تیندوا بستی کی طرف آ کیوں رہا ہے، دوسرے یہ قبول کرنا ہوگا کہ کوئی بھی جانور انسان پر حملہ کرنے کے لیے گاؤں-شہر میں نہیں آتا، پھر اس بات کا ایسا حل تلاش کیا جاسکتا ہے کہ قدرت کی یہ خوبصورت دین اپنے قدرتی مسکن میں محفوظ رہے۔
مورخہ 9 اپریل کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی والی سہ رکنی بینچ نے، جس میں جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا شامل تھے، نایاب پرندہ گریٹ انڈین بسٹرڈ کو تحفظ فراہم کرنے والے معاملے میں تسلیم کیا ہے کہ لوگوں کو بنیادی حقوق کے دائرے میں آب و ہوا کے منفی اثرات سے آزاد ہونے کا حق ہے۔ وہیں زمین کی دیگر مخلوقات بھی اتنی ہی قیمتی ہیں جتنا انسان۔ چیتاہمارے سامنے مثال ہے کہ آزادی کے بعد کیسے وہ ہمارے ملک سے ناپید ہوا تھا۔ آج بھلے ہی تیندوے کی تعداد کافی ہے لیکن جب انسان سے اس کے ٹکراؤ میں اضافہ ہوگا تو ظاہر ہے کہ اس کی افزائش نسل، خوراک، مسکن سبھی پر منفی اثرات پڑیں گے، بالخصوص اس وقت جب آب و ہوا میں تبدیلی جانوروں پر بھی بری طرح اثرانداز ہورہی ہو۔
اس سال گرمی جلد آگئی اور شدید بھی۔ ایک تو جنگل میں گھاس کی کمی سے تیندوے کی قدرتی خوراک کہلانے والے جانور کم ہیں تو دوسرا پانی کی شدید کمی ہے۔ شدید گرمی میں تیندوے کے بستی میں آنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جنگلوں میں قدرتی آبی ذرائع کم ہو رہے ہیں۔ گھاس کم ہونے کا مطلب ہے کہ تیندوے کا شکار کہے جانے والے ہرن وغیرہ کی کمی یا ان کا ہجرت کرجانا۔ واضح ہو کہ جنگل کا جانور انسان سے سب سے زیادہ خوفزدہ رہتا ہے اور وہ بستی میں تبھی گھستا ہے جب وہ پانی یا خوراک کی تلاش میں بے حال ہو جائے۔ چونکہ تیندوا کتے سے لے کر مرغی تک کو کھا سکتا ہے، لہٰذا جب ایک بار لوگوں کی بستی کی راہ پکڑ لیتا ہے تو آسانی سے شکار ملنے کے لالچ میں بار بار یہاں آتا ہے۔ کبھی کبھار محکمۂ جنگلات کے لوگ انہیں پنجرا لگاکر پکڑتے ہیں اور پھر پکڑے گئے مقام کے نزدیک ہی کسی جنگل میں چھوڑ دیتے ہیں۔ چونکہ تیندوے کی یادداشت بہترین ہے، لہٰذا وہ لوٹ کر وہیں آجاتا ہے۔جان لیں کہ گھنے جنگل میں بلی ماسی کے خاندان کے بڑے ممبر شیر کا قبضہ ہوتا ہے اور اسی لیے خاندان کے چھوٹے ممبر جیسے تیندوے یا گلدار بستی کی طرف بھاگتے ہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ جنگل کے محفوظ جانور ہوں یا پھر کھیتی-کسانی میں معاون مویشی، ان کے لیے پانی یا خوراک کی کوئی دوررس پالیسی نہیں ہے۔
تیندوا ایک اچھا شکاری تو ہے ہی، کسی علاقے کے ماحولیاتی نظام کے معیار کا نشان بھی ہوتا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ آج اس کا وجود ہی خطرے میں ہے۔ جنگلی بلیوں کے کنبے کی بنیادی خصوصیات سے برعکس اس کا مزاج حالات کے مطابق خود کو ڈھال لینے کا ہوتا ہے۔ جیسے کہ یہ چوہوں اور سیہہ (Porcupine) سے لے کر بندروں اور کتوں تک کسی بھی چیز کا شکار کرسکتے ہیں۔ وہ گھنے جنگلات اور انسانی بستیوں کے پاس پنپ سکتے ہیں۔ نئے ماحول میں ڈھل جانے کی صلاحیت انہیں کہیں بھی چھپنے اور انسان کے ساتھ جینے کے قابل بنا دیتی ہے۔ لیکن جب تیندوے جنگلات کے باہر گھنی آبادی والے علاقوں میں پائے جاتے ہیں، تو ہمیں لگتا ہے کہ وہ بھٹک گئے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ ان کا بھی گھر ہے، اتنا ہی ہمارا بھی ہے۔
تیندوا اپنا جنگل چھوڑ کر اگر طویل سفر کرتا ہے تو اس کی وجہ خوراک کے علاوہ اپنے جنسی فعل کے لیے ساتھی کی تلاش کرنا ہوتا ہے۔ ایک جنگل سے دوسرے جنگل میں جانے کے لیے، تیندوے قدرتی گلیاروں کا استعمال کرتے ہیں جو زیادہ ندیوں اور کھیتوں کے ذریعے ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ کاریڈور انسانی بستیوں کی اندھادھند توسیع کی وجہ سے ٹوٹ گئے ہیں، اس لیے تیندوے کے انسانی رابطے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔حالانکہ تیندوے جتنا ہوسکے انسانی رابطے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تیندوے کو اگر ایک بار انسان کے خون کا مزہ مل جائے تو یہ خطرناک ہوتا ہے۔ جنگل کا اپنا ایک سائیکل ہوا کرتا تھا، سب سے اندر گھنے اونچے درختوں والے جنگل، گہری گھاس جو کہ کسی باہری دخل سے آزاد رہتی تھی، وہاں انسان کے لیے خطرناک جانور شیر وغیرہ رہتے تھے، وہیں ایسے خرد نامیے (Microorganisms) کا بسیرا ہوتا تھا جو اگر مسلسل انسان کے رابطے میں آئے تو اپنے کروموسوم کو انسان کے جسم کے مطابق بدل سکتے تھے۔
اس کے باہر کم گھنے جنگلات کا گھیرا-جہاں ہرن جیسے جانور رہتے تھے، گوشت خور جانور کو اپنی خوراک کے لیے محض اس سائیکل تک آنا ہوتا تھا۔ اس کے بعد جنگل کا ایسا حصہ جہاں انسان اپنے پالتو مویشی چراتا، اپنے استعمال کے لیے جنگل کی پیداوار کو تلاش کرتا اور اس گھیرے میں ایسے جانور رہتے جو جنگل اور انسان دونوں کے لیے بے ضرر تھے، تبھی اس پیرامڈ میں شیر کم، ہرن اس سے زیادہ، جنگل اور بستی میں ایڈجسٹ ہو جانے والے جانور اس سے زیادہ اور اس کے باہر انسان، ٹھیک یہی پیٹرن جنگل کے گھنے پن میں نافذ ہوتا۔ جنگلوں کی اندھادھند کٹائی اور اس میں بسنے والے جانوروں کے قدرتی مسکنوں کے تباہ ہونے سے انسانی دخل سے دور رہنے والے جانور براہ راست انسان کے رابطے میں آگئے۔
اگر انسان چاہتا ہے کہ وہ تیندوے جیسے جنگلی جانوروں کا نوالہ نہ بنے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ قدرتی جنگلات کو نہ چھیڑا جائے، جنگلات میں انسانوں کی سرگرمیوں پر سختی سے پابندی عائد ہو، خاص طور پر جنگلات میں ندی اور نالوں کو معدنیات یا ریت کی کان کنی کے نام پر اجاڑا نہ جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS