ازقلم: امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن،
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
آج ملک بھر میں افرا تفری کا ماحول بنا ہوا ہے، ملک کے کونے کونے سے نوجوان آگے آرہا ہے، کہیں سرکاری اشیاء کو نذر آتش کر رہا ہے تو کہیں نجی اشیاء کو آگ کے انگارے میں جھونک رہا ہے، کہیں ٹرینوں کو آگ کے حوالے کر رہا ہے تو کہیں بسوں اور دیگر اشیاء کی آگ زنی کر رہا ہے، اس حال میں کہ ملک پہلے سے ہی کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، ملک مہنگائی آسماں کی جانب اٹھ رہی ہے، بےروزگاری زمیں کی جانب جھک رہی ہے، ادھر چین حملے کا خواہاں ہے، ادھر پاکستان سے دشمنی چل رہی ہے۔
اسکے علاوہ کبھی نوپور شرما کو لیکر پوری کی نظر میں ہندوستان کھٹک رہا ہے، کبھی پاکستان اسکی مذمت کر رہا تو کبھی سعودیہ عرب اسکے خلاف ایکشن لے رہا، کبھی قطر اسکو انکھیں دکھا رہا ہے تو کبھی کوئی اور ڈرا رہا ہے۔
اسکے باوجود ایک اور نیا مسئلہ ابھر کر سامنے آرہا ہے، اور وہ معاملہ ایسا معاملہ ہے گویا وہ پاکستان اور چین کی ترجمانی کر رہا ہو، یہاں کے شہری خود اس ملک کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔
آج اس ملک کا ہر نوجوان گھر سے باہر نکل کر چین کی ترجمانی کر رہا ہے، خود اپنے ہاتھوں سے ملک کا اور اپنا نقصان کر رہا ہے، ٹرینوں اور بسوں کو نظر آتش کر رہا ہے جس سے خود ہمارا اور ملک کا نقصان ہو گا، آگے چل کر ہم سے ہی پیسہ وصول کر اسکی بھرپائی کی جائے گی، جسکے لئے پھر ایک بار ہر چیز کو مہنگائی کی راہ پر لے جایا جائے گا اور ہم سے ہی پیسہ وصول کر اس ملک میں نقصان شدہ اشیاء کو پورا کیا جائے گا۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر آج ملک ہندوستان کا نوجوان سڑکوں پر کیوں نکل پڑا ہے؟ کیوں ملک کے ٹرینوں اور گاڑیوں کو آگ کے حوالے کر رہا ہے؟
تو اسکے دو جواب ہو سکتے ہیں.
پہلا جواب تو اگنی پتھ سکیم ہے جو ہر ایک کے نزدیک قابل اعتماد ہے۔
اگنی پتھ سکیم ہے کیا؟
رواں ہفتے منگل کو وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے اگنی پتھ سکیم کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد انڈین فوجی سروسز کی تنخواہوں اور پینشنز کے بجٹ کو کم کرنا تھا۔
سکیم کے تحت 21 سال سے 23 سال تک کی عمر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو فوج میں چار سال کے لیے بھرتی کیا جائے گا اور مدت کے اختتام کے بعد ان سب میں سے صرف 25 فیصد افراد کی مدت ملازمت بڑھائی جائے گی۔
اس سکیم کے تحت فوج میں بھرتی ہونے والے افراد ’اگنی ویر‘ کہلائیں گے۔
چار سالہ مدت ختم ہونے کے بعد ’اگنی ویروں‘ کو ملازمت کے اختتام پر 11 سے 12 لاکھ روپے دیے جائیں گے لیکن اس کے بعد یہ تمام افراد پینشن وصول کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔
اسی اسکیم کی وجہ سے آج ملک کا نوجوان سڑکوں پر نکل پڑا ہے، کہ چار سال آرمی میں کام کرنے کے بعد ہم کیا کریں گے؟ ہماری زندگی کیسے کٹے گی؟
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سکیم کی مذمت صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ سابق فوجی افسران بھی کر رہے ہیں۔
ٹوئٹر پر انڈین حکومت کی سکیم پر تنقید کرتے ہوئے میجر جنرل جی ڈی بخشی نے لکھا کہ ’ہمارے اداروں کو تباہ نہیں کریں ایک ایسے وقت جب پاکستان اور چین کی جانب سے بڑے خطرات موجود ہیں۔‘
انہوں نے بی جے پی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’صرف پیسے بچانے کے لیے ہمارے پاس جو ہے اسے برباد نہ کریں۔ فوجی سروسز کو جوانی اور تجربے دونوں کی ضرورت ہے۔
انڈین آرمی کے سابق وائس چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل راج کدیان نے بھی حکومتی سکیم کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سکیم کو کسی ’لو رسک اداروں‘ میں آزمانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اسے اپنی دفاعی فورسز پر آزما رہے ہیں جہاں رسک زیادہ ہے۔ میں بس امید اور دعا کرتا ہوں کہ جنگ نہ ہو۔‘
ان کے مطابق ’اگر جنگ ہوگئی تو آپ ایک ایسے شخص سے جان دینے کی امید نہیں کرسکتے جو پہلے ہی چار سال بعد کا سوچ رہا ہو۔‘
دوسرا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ملک کے نوجوانوں کو مودی جی سے بھروسہ ہی اٹھ گیا ہو۔ کیوں بہت سی مرتبہ مودی جی نے ملک کے لوگوں سے وعدے کیے ہیں لیکن شاید ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا ہے اور آج پھر ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نوجوانوں سے ایک وعدہ کرہے ہیں، جیسا وعدہ چند سالوں قبل کیا تھا کہ ہر ایک شہری کے خاطے میں پندرہ لاکھ روپے سرکار کی جانب سے دیئے جائیں گے، لیکن وہ وعدہ جھوٹا ثابت ہوا، اسی طرح یہ بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ کالا دھن واپس لائیں گے وہ بھی جھوٹا نکلا، اسی طرح سب کا ساتھ سب کا وکاس کا ایک نعرہ لگایا وہ بھی جھوٹا ثابت ہوا۔
اسی طرح اب ایک اور وعدہ کیا جارہا ہے کہ چار سال آرمی میں کام کرنے کے بعد اس شخص کو گیارہ لاکھ روپے دیئے جائیں گے اسکے علاوہ اس شخص کو اگنی ویر کا لقب دیا جائے گا۔
اسے لیکر نوجوان کشمکش میں ہیں کہ کیا واقعی وہ پیسہ ملے گا؟ یا یوں ہی جملے بازی ہو رہی ہے۔
ہو سکتا ہے بہت سے لوگ اس دوسرے جواب سے اتفاق نہ رکھتے ہوں لیکن پہلے جواب سے تو ہر کوئی سہمت ہے۔
اب حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سکیم کو واپس لیکر ملک کو بچائے کیوں جہاں تک لگتا ہے آگے چل کر اس سکیم کو ختم ہی کیا جائے گا جیسا کہ کسانوں کے خلاف کالے قانون کو مسترد کیا گیا تھا۔
اسی لئے ابھی سے حکومت کو اس پر غور کرکے اسے ختم چاہیے تاکہ ملک مزید کھنڈرات میں نہ تبدیل ہو۔