واشنگٹن(ایجنسی):11 ستمبر 2001 کی صبح۔ دو بوئنگ 767 طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹرکے جڑواں ٹاورز سے ٹکراتے ہیں۔ 110 منزلوں کے ساتھ یہ نیو یارک کی سب سے اونچی عمارت تھی۔پہلا طیارہ شمالی ٹاور سے آٹھ بج کر 45 منٹ پر ٹکرایا۔ عمارت میں 102 منٹ تک آتشزدگی رہی اور پھر 10 بج کر 28 منٹ پر یہ صرف 11 سیکنڈ میں گِر گئی۔پہلے طیارے کی ٹکر کے 18 منٹ بعد ایک دوسرا طیارہ جنوبی ٹاور سے ٹکرایا۔ اس میں 56 منٹ تک آتشزدگی ہوئی اور پھر نو بج کر 59 منٹ پر یہ نو سینکڈ میں گِر گیا۔برونو ڈیلنجر شمالی ٹاور کی 47ویں منزل پر کام کرتے تھے اور اس حادثے میں وہ بچ گئے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ’عمارت کے گِرنے کی خوفناک آواز کے بعد کچھ دیر میں رات سا اندھیرا ہو گیا۔ کوئی آواز تھی نہ سانس۔‘
نیویارک کے میوزم میں 11 ستمبر کے حوالے سے ان کے بیان میں درج ہے کہ ’مجھے یقین تھا کہ میں مر گیا ہوں کیونکہ دماغ ایسی کسی چیز کو برداشت نہیں کر سکتا۔‘ان حملوں میں 2606 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورز زمین بوس کیوں ہوئے؟ایم آئی ٹی کے سول اینڈ انوائرمنٹل انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ سول انجینیئر ایڈورڈو کوسیل کہتے ہیں کہ ’تمام سنجیدہ افراد کی جانب سے تسلیم شدہ جواب یہی ہے کہ یہ ٹاور دہشتگرد حملے کے نتیجے میں گِرے۔‘
9/11 حملوں کے بعد کوسیل نے کئی تحقیقات کی سربراہی کی جن میں ایم آئی ٹی کے ماہرین نے انجینیئرنگ اور فن تعمیر کے اعتبار سے لینڈ سلائیڈ کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا۔کوسیل کے جواب میں اس تباہی کے ان فزیکل اور کیمیکل زاویوں سے پردہ اٹھایا گیا جو اس وقت تصور میں بھی نہیں تھے۔
2002 میں شائع ہونے والی ایم آئی ٹی کی تحقیق امریکی حکومت کے ان جائزوں سے ملتی جلتی ہے جن کی ذمہ داری نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹینڈرز اینڈ ٹیکنالوجی (این آئی ایس ٹی) کو سونپی گئی تھی۔اس میں یہ پتا لگانے کی کوشش کی گئی کہ جڑواں ٹاورز آخر گِرے کیسے۔ اس سلسلے میں آخری تحقیق سنہ 2008 میں شائع ہوئی۔ ایم آئی ٹی اور این آئی ایس ٹی کے جائزوں کے مطابق جڑواں ٹاورز ان دو وجوہات کی بنا پر گِرے:دونوں عمارتوں میں طیارے ٹکرانے سے اسے ساختی نقصان پہنچا تھا۔آگ کئی منزلوں میں پھیل گئی تھی۔کوسیل کہتے ہیں کہ ’اگر آگ نہ لگتی تو عمارتیں کبھی نہ گرتیں اور اگر ساختی نقصان کے بغیر صرف آگ لگی ہوتی تب بھی دونوں ٹاور زمین بوس نہ ہوتے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’ان ٹاورز میں کافی مضبوطی تھی۔‘
این آئی ایس ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سرکاری دستاویزات کے مطابق ان ٹاورز کے ڈائزائن میں انھیں بوئنگ 707 طیارے کی ٹکر جھیلنے کی صلاحیت دی گئی تھی۔ اپنے ڈیزائن کے وقت یہ سب سے بڑا کمرشل طیارہ تھا۔‘تاہم این آئی ایس ٹی کے محقق کہتے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی معلومات موجود نہیں کہ وہ کن طریقوں کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچے تھے۔
یہ واضح ہے کہ طیارے کی ٹکر سے ہونے والے نقصان اور اس سے پیدا ہونے والی آگ نے تباہ کن اثرات مرتب کیے جس سے دونوں ٹاور زمین بوس ہو گئے۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاور کیسے بنائے گئے تھے؟جڑواں ٹاورز کا ڈیزائن 1960 کی دہائی میں عام معیار کے مطابق تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کی تعمیر شروع ہوئی۔دونوں عمارتوں میں سٹیل کے ستون استعمال کیے گئے اور بیچ میں کنکریٹ تھا۔ ان میں لفٹ اور سیڑھیاں بھی تھیں۔ ہر منزل میں سٹیل کے افقی ڈھانچے تھے جو بنیاد بنتے اور انھیں سٹیل کے ستون سے جوڑا جاتا۔ ان سے عمارت کی باہری دیواریں تشکیل پاتیں۔ اس فن تعمیر کی مدد سے ہر منزل کا وزن ستون اٹھاتے تھے جبکہ ہر منزل ستون کے مُڑنے کو روکتی تھی۔ سول انجینیئرنگ میں اسے ’بکلنگ‘ بھی کہتے ہیں۔اس تمام سٹیل کے ڈھانچے کو کنکریٹ سے ڈھکا گیا تھا جو آگ کی صورت میں اس کی حفاظت کرتا ہے۔ سٹیل کے بعد فائر پروف تہہ تھی تاکہ آگ کی صورت میں یہ بچ سکیں۔دونوں ٹاورز سے بوئنگ 767 طیارے کے مختلف ماڈل ٹکرائے تھے۔ یہ بوئنگ 707 سے بڑے ہوتے ہیں۔
این آئی ایس ٹی کی رپورٹ کے مطابق طیارے کی ٹکر سے ستونوں کو ’شدید نقصان‘ پہنچا اور اس کی فائر پروف تہہ بھی ہٹ گئی۔کوسیل کہتے ہیں کہ تھرتھراہٹ سے سٹیل کے ڈھانچے سے فائر پروف تہہ الگ ہو گئی تھی جس سے پھر اسے آگ سے نقصان پہنچا۔جب نائن الیون حملوں کا منصوبہ ساز ’میرے ہاتھ آتے آتے رہ گیا‘یعنی ساختی نقصان سے آتشزدگی بڑھتی گئی اور اسی طرح آتشزدگی سے ساختی نقصان وسیع ہوتا گیا۔اس سب کے دوران اندر درجہ حرارت ایک ہزار ڈگری سیلسیئس ہو گیا جس سے کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹنے لگے۔
اس سے ہوا عمارت کے اندر داخل ہوئی اور آگ مزید پھیلنے لگی۔ کوسیل کہتے ہیں کہ ہوا نے آگ کے لیے خوراک کا کام کیا جس سے یہ پھیلنا شروع ہو گئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دونوں طیاروں میں قریب 10 ہزار گیلن ایندھن تھا یعنی 37 ہزار لیٹر سے زیادہ۔ کوسیل کہتے ہیں کہ یہ ’اڑتے بم دھماکوں‘ جیسا تھا۔آتشزدگی کے دوران ایندھن کی اکثر مقدار جل گئی لیکن کافی زیادہ ایندھن ٹاور کی نچلی منزلوں تک پھیلنے لگا۔اس سے آگ نیچے تک پھیل گئی اور اس نے کئی آتش گیر اشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے اس کی وسعت بڑھتی گئی۔
پہلا یہ کہ شدید گرمی نے ہر فلور پر سٹیل کے ڈھانچے کو پھیلنے پر مجبور کیا۔ اس سے فرش ستون سے الگ ہونا شروع ہو گیا۔ ستون پھیلنے سے عمارت کے کالم باہر کی طرف جانے لگے۔دوسرا یہ کہ آگ نے سٹیل کے ستونوں کو نرم کر دیا جس سے یہ کمزور ہو گیا۔اس سے مضبوط عمارت رسی کی طرف دکھنے لگی اور اس نے گِرنا شروع کیا تو یہ اندر کی طرف مڑ گئی۔کوسیل کہتے ہیں کہ ’ٹاورز کے لیے یہ تباہ کن ثابت ہوا۔‘
عمارت کے ستون اب سیدھے کھڑے نہیں تھے۔ یہ باہر اور اندر کی طرف مڑ رہے تھے اور اس طرح عمارت نے تھرتھرانا شروع کر دیا۔این آئی ایس ٹی رپورٹ کے مطابق ستون مڑی ہوئی شکل میں گِرنے لگے جبکہ اس ڈھانچے نے انھیں اندر کی طرف کھینچنے کی کوشش کی۔ کوسیل کے جائزہ میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک موقع پر ڈھانچے نے ستون کو اتنا زور سے کھینچا کہ اس میں لگے بولٹ ٹوٹ گئے جنھوں نے کالم کو جوڑا ہوا تھا۔ اس سے منزلیں تاش کے پتوں کی طرح ڈھیر ہونے لگیں اور نچلی منزلوں کے لیے یہ وزن قابل برداشت نہیں تھا۔اس تناؤ سے پہلے سے کمزور شدہ کالم پر مزید بوجھ آنے لگا۔ اس کا نتیجہ ایک خوفناک منظر تھا۔
کوسیل کہتے ہیں کہ جب یہ عمارت فری فال کی طرف بڑھی تو ہوا کے دباؤ سے منزلوں کے بیچ ہوا تیزی سے باہر کی طرف خارج ہوئی۔ اس کے گرنے سے دھواں بادل کی شکل میں ابھرنے لگا۔ دونوں عمارتیں کچھ ہی سینکڈ میں غائب ہو گئیں لیکن ملبے میں آگ 100 روز تک بھڑکتی رہی۔ مگر اب بیس سال بعد بھی ان حملوں کا خوف ختم نہیں ہوا۔