ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
غزہ پر پندرہ مہینوں سے جاری اسرائیلی و امریکی جارحیت و بربریت کے خاتمہ کا امکان گزشتہ چہار شنبہ کو اس وقت پیدا ہونا شروع ہوا جب فلسطین کی معروف مزاحمتی تحریک حماس نے قطر و مصر اور امریکہ کی ثالثی والے معاہدہ پر دستخط کے لئے اپنی رضامندی ظاہر کر دی اور اسرائیل نے بھی اس کو قبول کرنے کا وعدہ کرلیا۔ اس معاہدہ کو اسرائیلی پارلیمنٹ اور کابینہ میں پاس کروانا ضروری تھا تاکہ اس کو قانونی حیثیت حاصل ہو اور اس کے بعد معاہدہ کی شقوں پر عمل در آمد کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔ اسرائیل کے پارلیمنٹ اور کابینہ میں اس معادہ کے مسودہ پر دستخط کے لئے جمعرات کو ہی پیش کیا جانا تھا لیکن اسرائیل کے داخلی انتشار اور خاص طور سے نتن یاہو کی سرکار میں شامل تشدد پسند صہیونی اور وزیر مالیات اسماٹریچ اور داخلی سیکورٹی کے وزیر بن گویر نے اس معاہدہ کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھا اور اسی لئے جمعرات کو اس پر دستخط نہیں کیا جا سکا۔ میڈیا کے مختلف ذرائع سے جو خبریں سامنے آئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ نتن یاہو نے اسماٹریچ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ جنگ کے لئے دوبارہ لوٹیں گے اور ویسٹ بینک پر حملہ کرکے آبادکاری کے عمل کو وہاں آگے بڑھائیں گے اور تقریبا دس ہزار آبادیاتی یونٹس وہاں قائم کئے جائیں گے۔ اسماٹریچ جس نے خود ویسٹ بینک کے اندر آبادیاتی محلہ میں زندگی گزاری ہے اس کے لئے یہ وعدہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے حامیوں کا بڑا حصہ ایسے ہی طبقوں سے آتا ہے جو مقبوضہ فلسطین پر قائم صہیونی آباد کاری والے علاقوں میں بستے ہیں۔
نتن یاہو کے اس وعدہ کے بعد اسماٹریچ نے اپنی رضامندی ظاہر کردی اور اس طرح آخرکار جمعہ کے روز اس معاہدہ کو اسرائیل میں منظوری حاصل ہوئی۔ جہاں تک بن گویر کا تعلق ہے تو ان کی جانب سے اس معاہدہ کی مخالفت کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ وہ اس حکومت سے باہر چلے جائیں۔ اسرائیلی میڈیا نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ نتن یاہو اس کے لئے ذہنی طور پر تیار ہیں اور بن گویر کا متبادل بھی تیار کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے سخت لہجہ نے بھی نتن یاہو کو اس بات کے لئے مجبور کیا کہ وہ اس معاہدہ کے بارے میں مزید ٹال مٹول سے کام نہ لیں۔ ٹرمپ کے نمائندہ اسٹیو ویٹکوف جنہوں نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدہ کو یقینی بنانے کے لئے خاص طور سے خطہ کا دورہ کیا اور نتن یاہو سے ملاقات کرکے ٹرمپ کے واضح موقف کو بیان کر دیا تھا کہ اب اس پر لیت و لعل کی گنجائش باقی نہیں ہے اس کا کافی اثر نتن یاہو پر پڑا۔ ٹرمپ نے حماس کو بھی سخت لہجہ میں دھمکی تھی لیکن سچائی تو یہی ہے کہ حماس نے کبھی بھی اس معاہدہ کو ناکام بنانے میں کوئی کردار ادا ہی نہیں کیا۔ ہر بار نتن یاہو ہی کسی نہ کسی بہانہ سے بالکل آخری مرحلہ میں نئی شرطوں کا اضافہ کرکے معاہدہ کو پایہ تکمیل تک پہنچنے سے قبل ہی ناکام بنا دیتے تھے۔
اس میں بائڈن کا نتن یاہو کے تئیں نرم موقف ہمیشہ ہی ذمہ دار ہوتا تھا۔ ٹرمپ جو کہ خود اسرائیل اور صہیونیت کے بڑے حامی ہیں اور صہیونی ایجنڈوں کو مشرق وسطی میں نافذ کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ ایک پرامن مشرق وسطی کے جو وعدے انہوں نے اپنے صدارتی انتخابات کے دوران کئے تھے ان کی تکمیل کے لئے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ پہلا امتحان ہوگا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ صدارتی مدت کے بالکل آغاز میں ہی غزہ پر جاری بربریت کے سائے ان کی امیج کو دھندلا کر دیں اور اسی لئے نتن یاہو کو مجبور کیا گیا کہ وہ معاہدہ کو قبول کریں ورنہ بظاہر کوئی ایسی وجہ نظر نہیں آتی جس کی بنیاد پر اس معاہدہ پر دستخط کرنے کے لئے نتن یاہو اس مرحلہ میں راضی ہوں۔ اگر اس معاہدہ کی تفصیلات کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی نئی بات شامل نہیں ہے بلکہ اس کا صیغہ عین وہی ہے جس کو مئی 2024 میں پیش کیا گیا تھا۔ نتن یاہو کو بھی دراصل یہ فکر دامن گیر ہے کہ اگر ٹرمپ کو ان کی صدارت کے آغاز سے قبل ہی ناراض کر دیا گیا تو یہ ان کے اپنے مستقبل اور اسرائیل کے صہیونی ایجنڈوں کے حق میں اچھا نہیں ہوگا اور اسی لئے اس کو قبول کرنا ہی عقلمندی سمجھی گئی۔ جہاں تک اندرونِ اسرائیل جاری رہنے والے مظاہروں اور احتجاجات کے دباؤ کا تعلق ہے تو نتن یاہو نے ان کی کوئی خاص پرواہ شاید ہی کبھی کی تھی۔ اس کے برعکس کبھی واضح الفاظ تو کبھی اشارے میں یہ بتاتے رہے ہیں کہ حماس کی قید میں موجود لوگوں کی قربانی بھی اس جنگ میں دی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عسکری قوت سے ہی انہیں واپس لانے کی بات کی جاتی تھی۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کا ارادہ یہ تھا کہ اس جنگ کے ذریعہ حماس کو ختم کردیں گے اور مکمل یا نصف غزہ پر قبضہ کرکے وہاں سے فلسطینیوں کو باہر نکال دیا جائے گا اور اس میں صہیونی آبادکاری کے ذریعہ پورے علاقہ کو اپنے قبضہ میں کر لیا جائے گا۔ لیکن مزاحمتی تحریکوں اور فلسطینی عوام کے صبر و ثبات نے نتن یاہو کے اس پورے منصوبہ کو ناکام بنا دیا۔ باوجوداس کے کہ اسرائیل نے اس جنگ میں تمام حدود و قیود اور جنگی اصولوں کو توڑ دیا لیکن وہ فلسطینیوں کے عزائم کو توڑنے میں بری طرح ناکام ہوگئے۔ جس حماس کو اسرائیل مٹانا چاہتا تھا اس کے ساتھ ہی معاہدہ کے لئے مجبور ہونا پڑا۔
باوجوداینکہ حماس کو سخت نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن خود امریکی یہودی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کے اعتراف کے مطابق حماس نے بڑی تیزی کے ساتھ اپنی صفوں کو مضبوط و منظم بنالیا اور نئے جنگجوؤں کی تقریبا اتنی ہی تعداد کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہوگیا جتنی تعداد شہید ہوئی تھی۔ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل جس نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اس جنگ میں استعمال کرلیا اس میں فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں تک کو شکست دینے کی بھی استعداد موجود نہیں ہے۔7 اکتوبر کو اسرائیل کی استخباراتی ناکامی دنیا کے سامنے اجاگر ہوئی تھی اور غزہ جنگ میں اس کی فوج کا کھوکھلا پن اور اخلاقی افلاس دونوں ظاہر ہوگیا۔ اسرائیل کا ہمیشہ سے یہ دعوی تھا کہ اس کی فوج ناقابل شکست اور اس کا استخباراتی نظام اس قدر چاق و چوبند ہے کہ وہ کبھی اپنی آنکھیں بند نہیں رکھتا۔گزشتہ پندرہ مہینوں میں حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی تحریکوں نے عملی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ صہیونیوں کے یہ دعوے اتنے ہی بے بنیاد ہیں جتنے کہ تلمودی روایتوں پر مبنی ارض موعود کے دعوے غلط اور بے حقیقت ہیں۔ اب نتن یاہو کو جہاں ایک طرف داخلی سطح پر قیدیوں کے اہل خانہ کو یہ جواب دینا ہوگا کہ جب مئی 2024 کے مسودہ پر ہی دستخط کرنا تھا تو آخر اتنی تاخیر کیوں کی گئی جس کے نتیجہ میں کئی قیدی اسرائیل کی بمباری میں مارے گئے۔ وہ زندہ آ سکتے تھے لیکن اب انہیں تابوتوں میں لاش کی شکل میں آنا ہوگا۔ اسی طرح اس مدت میں اسرائیل کی فوج کے بے شمار سپاہی بھی مارے گئے اور مزاحمت کار ہر روز ان کی صفوں میں موت کا خوف پھیلاتے رہے اور جنگی آلات کو تباہ کرتے رہتے۔
جب اسرائیلی فوج کے سربراہ کو بہت پہلے ہی اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ حماس کو عسکری طور پر شکست نہیں دیا جاسکتا ہے اور قوت کے زور پر قیدیوں کو آزاد نہیں کروایا جا سکتا ہے تو آخر اس بے سود جنگ کو جاری کیوں رکھا گیا؟ اس قسم کے بے شمار سوالات کا جواب نتن یاہو کو دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ اندرونی طور پر جو سیاسی انتشار پیدا ہوا ہے اس کے برے نتائج بھی سامنے آئیں گے اور نتن یاہو کا سیاسی مستقبل داؤ پر لگے گا۔ جہاں تک عالمی برادری کے سامنے اسرائیلی ساکھ کا تعلق ہے تو وہاں صورت حال مزید ابتر ہوگی۔ جہاں ایک طرف عالمی عدالتیں نتن یاہو اور گالانٹ کا پیچھا کریں گی، وہیں اسرائیلی فوج کے عناصر کا تعاقب ہر جگہ ان کے جنگی جرائم کی وجہ سے کیا جائے گا جیسا کہ حال ہی میں لاطینی امریکہ میں کیا گیا۔
مشرق وسطی کے ممالک بھی اب اسرائیل سے اس قدر خوفزدہ نہیں رہیں گے جیسا کہ ماضی میں ان کا سلوک ہوتا تھا کیونکہ اسرائیل کی اصلیت بہت واضح ہوگئی ہے اور عوام میں سخت غصہ پایا جاتا ہے۔ جہاں تک فلسطین مزاحمتی تحریکات بطور خاص حماص کا تعلق ہے تو ان کے لئے بھی یہ مرحلہ کئی چیلنجوں کو لے کر آ یا ہے۔ اگر اسرائیل اس معاہدہ پر عمل پیرا رہتا ہے اور دوسرے مرحلہ تک بات پہنچتی ہے جس کے نتیجہ میں اسرائیل کو مکمل طور پر غزہ سے باہر جانا ہوگا تو اس کے بعد غزہ کو آباد کرنے اور زندگی کے نظام کو از سر نو بحال کرنے کا مرحلہ سامنے آئے گا۔ ان مسائل کے حل کے لئے انہیں بے شمار چیلنجوں سے گزرنا ہوگا۔ اس کے لئے انہیں زیادہ بہتر پالیسیاں بنانی ہوں گی اور اندرونی اختلافات کے تمام دروازوں کو بند کرنا ہوگا تاکہ ستم رسیدہ لوگوں کو ایک بہتر مستقبل دیا جا سکے۔ یہ مرحلہ بہت مشکل ضرور ہوگا لیکن کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں ہے کہ اہل فلسطین کے لئے ان کی آزادی کا مسئلہ کبھی آسان رہا ہی نہیں ہے؟
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)