عبدالماجد نظامی
ہمارے ملک کی خواتین نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ اگر انہیں پوری آزادی دی جائے اور ان کی صلاحیتوں کو زنجیر میں جکڑنے کی کوشش نہ کی جائے تو زندگی کا کوئی ایسا میدان نہیں جس میں وہ مردوں سے نہ صرف برابری کر سکتی ہیں بلکہ اکثر موقعوں پر انہیں پیچھے چھوڑ کر بہت آگے بڑھ جانے اور شاندار قیادت فراہم کرنے کی قابل رشک صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ مشاہدہ تو اب شب و روز ہی ہوتا ہے کہ اسکول کے امتحانات سے لے کر اولمپک کے عالمی اسٹیج تک، جنگ و جدال کی شدت سے لے کر فلکی علوم تک ہر محاذ پر وہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے حوصلوں کو عملی جامہ پہنا رہی ہیں۔ ان تمام روشن مثالوں کے باوجود اس تلخ حقیقت سے ہم نظر نہیں چرا سکتے کہ خواتین کو آج بھی انصاف نہیں ملتا اور ان کو زندگی کے ہر قدم پر امتحان کے سخت مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
ونیش پھوگٹ نے بجا طور پر ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ میں لکھے گئے اپنے مضمون میں پوچھا تھا کہ آخر مصیبت کی ماری عورتوں کو کتنی بار بولنا پڑے گا تاکہ ان کو انصاف مل سکے۔ ونیش پھوگٹ نے اپنا یہ مضمون اس وقت لکھا تھا جب ہندوستانی کشتی فیڈریشن کے سابق چیف برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف خواتین احتجاج کر رہی تھیں۔ اس کے خلاف یہ احتجاج پورے ایک برس تک چلتا رہا لیکن پھر بھی خواتین کو انصاف نہیں مل سکا تھا۔ اب یہ معاملہ زیر سماعت ہے اور برج بھوشن کو فیڈریشن کی سربراہی سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایسا شخص جس کا کردار مشکوک ہے اور جس پر خواتین نے الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے منصب کا غلط استعمال کرکے فیڈریشن میں تربیت حاصل کرنے کے لیے موجود خواتین کے ساتھ بدتمیزی کرتا تھا اور ان کی عزت و آبرو کو تار تار کرنے کے درپے رہتا تھا، وہ آج بھی بھارتیہ جنتا پارٹی میں اپنا مضبوط مقام بنائے رکھنے میں نہ صرف کامیاب ہے بلکہ پارٹی کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پارٹی کے اندر اس کے اسی گہرے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے کہ اترپردیش کے قیصر گنج حلقۂ انتخابات سے اس کی جگہ اس کے چھوٹے بیٹے کرن بھوشن سنگھ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
برج بھوشن سنگھ کے بیٹے کو ٹکٹ دینے کا صاف مطلب یہ ہے کہ سیاسی دبدبہ کا دائرہ یہ خاندان اپنے گھر تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی بھی اتنی اخلاقی جرأت تک نہیں دکھا پا رہی ہے کہ اتنے سنگین الزامات کے پیش نظر کم سے کم عوام کو یہ واضح پیغام دے سکے کہ وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ اپنا تعلق نہیں رکھنا چاہتی ہے جس کا دامن عصمت دری جیسے مبینہ الزامات سے داغ دار ہو۔ اس کے برعکس بی جے پی نے برج بھوش سنگھ کے بیٹے کو ٹکٹ دے کر یہ اشارہ دیا ہے کہ سیاست میں اس کے نزدیک ایک امیدوار کا جیتنا ہی اہمیت رکھتا ہے۔
اس کے اخلاقی پہلوؤں سے اس کو کوئی خاص سروکار نہیں ہے۔ حالانکہ مرکزی سرکار اپنے ترقیاتی منصوبوں کو خواتین پر مرتکز رکھنے کا دعویٰ کرتی رہتی ہے اور نریندر مودی و ان کے ہمنواؤں کا حملہ پریوار واد کے خلاف نہایت سخت اور تیکھا ہوتا ہے۔ خواتین کی طاقت یا ناری شکتی کا راگ الاپتے الاپتے ہمارے وزیراعظم خود بھی نہیں تھکتے ہیں۔ ان تمام نعروں کو کوئی شخص اگر ایک طرف دیکھے اور دوسری طرف حقیقت کی زمین پر خواتین کی بدحالی کا جائزہ لے تو صاف اندازہ ہوجائے گا کہ قول و عمل کا یہ تضاد ملک کی خواتین کے مسائل کو گھٹانے کے بجائے انہیں بڑھانے اور سنگین سے سنگین تر بنانے میں بڑا رول ادا کر رہا ہے۔ اس عمل سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک کے نظام پدری نے مردوں کو اتنا پر زور اور صاحب سطوت بنا دیا ہے کہ جو لوگ پاور میں ہوتے ہیں، وہ بے شرمی کی حد تک قانون کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔
اگر ایسا نہیں ہوتا تو بھلا کوئی یہ سوچ بھی سکتا تھا کہ جس شخص کے خلاف اس ملک کی معروف ترین اور عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں نے صدائے احتجاج بلند کی ہو، وہ تاہنوز سیاسی جلوہ گری کا پرچم لیے رہے گا۔ خود کشتی فیڈریشن پر اس شخص کی ایسی مضبوط گرفت ہے کہ گزشتہ دسمبر کو جب فیڈریشن کا انتخاب عمل میں آیا تو اس کا دست راست سنجے کمار سنگھ ہی اس کی کرسی پر متمکن ہونے میں کامیاب ہو سکا۔ اس کی قوت کا راز یہ مانا جاتا ہے کہ یہ اترپردیش کی 7فیصد ٹھاکر برادری سے تعلق رکھتا ہے اور خاص طور سے گونڈہ، شرا وستی، ایودھیا، بلرام پور اور بہرائچ کے اندر اپنا گہرا رسوخ رکھتا ہے۔ اس کو اپنے بیٹے کے لیے پارٹی سے ٹکٹ حاصل کرنے کے بارے میں اتنا پختہ یقین تھا کہ امیدواری کا اعلان ہونے سے قبل ہی اس نے اپنے بیٹے کے لیے ووٹ مانگنے کا کام شروع کر دیا تھا۔ اس ملک کی سیاسی پارٹیاں اور خاص طور سے برسر اقتدار پارٹی کسی کی دبنگئی سے متاثر ہوکر اگر اس کے سامنے اس قدر مجبور نظر آئے گی تو پھر کمزور طبقوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کا کیا ہوگا؟
جب معروف اور صاحب اثر خواتین کو انصاف حاصل کرنے میں اتنی دقتیں پیش آتی ہیں تو پھر سماج کے حاشیہ پر زندگی گزارنے والی خواتین اس سماج میں ایک با وقار زندگی کیسے گزار پائیں گی؟ یہ ایک ایسا لمحۂ فکریہ ہے جس کے بارے میں تمام سیاسی پارٹیوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور ملک کی خواتین کو انصاف دلانے کے عمل کو یقینی بنانا چاہیے۔ ایسا اگر نہیں کیا گیا تو ملک کی پچاس فیصد آبادی خود کو مین اسٹریم میں شامل کرکے اپنے وطن کی ترقی میں پورا کردار ادا نہیں کرپائے گی۔ یہ صورتحال بالکل درست نہیں ہے کہ مبینہ ملزموں کو عزت کا طوق پہنایا جائے جبکہ حق و انصاف کے لیے بلکتی خواتین کو مسلسل طور پر ذلت کے گہرے غار میں دھکیلا جاتا رہے۔ اس طرز عمل کا بدلنا ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے از حد ضروری ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]