پنکج چترویدی
دہلی کے منڈکا کے ایک کاروباری احاطے میں ایک الیکٹرانک کمپنی کے ملازمین کے لیے موٹیویشنل لیکچر چل رہا تھا۔ اچانک لائٹ چلی گئی، جنریٹر چلتے ہی پوری عمارت آگ کا گولہ بن گئی۔ جب تک حکومت الرٹ ہوتی کہ عمارت بھی غیرقانونی تھی اور اس میں آگ سے تحفظ کا سسٹم بھی نہیں تھا، 27 لوگ مارے جاچکے تھے۔ ان کے جسم اس بری طرح جل گئے تھے کہ مہلوکین کی شناخت نہیں ہوپا رہی تھی۔ اتنا شور ہوا لیکن نہ تو دہلی میں آگ رکی اور نہ ہی لاپروائی۔ اس کے بعد بھی ہر دن کسی نہ کسی کارخانہ میں آگ لگتی رہی اور وہی غلطیاں دوہراتی نظر آئیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آگ ایک اچھی دوست ہے لیکن بہت بری مالک، یعنی اگر آگ آپ پر حملہ آور ہوئی تو اس کے دوررس برے اثرات سے نبردآزما ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔
آگ کے تئیں کوتاہی کا جب یہ حال دہلی کا ہے تو سمجھ سکتے ہیں کہ دوردراز علاقوں میں لوگ کس طرح آگ سے کھیلتے ہوں گے۔ ملک کے دیگر آتشزدگی کے کئی واقعات کو بھی دیکھیں تو پائیں گے، ان حادثات کو حقیقت میں انسان نے خود ہی دعوت دی تھی-لاپروائی میں، زیادہ پیسے کمانے کے لالچ میں اور الرٹ رہنے کی کمی کے توسط سے۔ واضح ہو کہ آگ لگنے سے جان و مال کا نقصان تو ہوتا ہی ہے، جو لوگ اس حادثے میں زخمی ہو جاتے ہیں ان کا علاج بھی بے حد مہنگا ہوتاہے۔
حالیہ واقعات کو فوری طور پر دیکھیں تو ہر ایک آتشزدگی کی وجہ انسانی غفلت ہی ہے۔ تجاوزات، ناجائز تعمیرات اور تحفظ کے طریقوں کو پوری طرح نظرانداز کرنا۔ ایسی لاپروائی جس سے بغیر کسی خاص اُپائے کیے بھی بچا جاسکتا ہے۔ اپنے روزمرہ کی زندگی میں ہم اگر کچھ معمولی احتیاط برت لیں تو ایسے حادثات کو ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس سے کئی لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ دہلی یا دیگر شہروں کی بات کریں یا کھلیان میں رکھی سوکھی فصل میں آگ لگنے کی، زیادہ تر معاملات میں بجلی کے آلات کے تئیں تھوڑی سی لاپروائی ہی بڑی آتشزدگی میں بدلتی نظر آتی ہے۔ اس کے بعد تباہی کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔
دنیا میں جلنے کے معاملات کی سب سے زیادہ تعداد غالباً ہندوستان میں ہے۔ یہ تشویش کا موضوع ہے کہ دنیا کے کل جلنے کے معاملات میں ہندوستان کا حصہ ایک تہائی ہے۔ جہاں ترقی یافتہ ممالک میں جلنے کے معاملے مسلسل کم ہوتے جا رہے ہیںوہیں ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ہر سال ہندوستان کے تقریباً 30 لاکھ لوگ جلنے کے واقعات کے شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی پانچواں حصہ ہی اسپتال تک پہنچتا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی ایک تہائی موت کی زد میں آجاتے ہیں جبکہ اتنے ہی لوگ معذور ہو جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کے شکار 80 فیصد لوگ اپنی زندگی کے سب سے سرگرم دور یعنی 15 سے 35 سال کی عمر کے ہوتے ہیں۔ ان میں بچے یا خواتین کی بڑی تعداد ہوتی ہے۔ جلنے کے آٹھ فیصد حادثات گھر پر ہی رونما ہوتے ہیں۔
جلے ہوئے لوگوں کا علاج بے حد مہنگا اور لمبے وقت تک چلتا ہے۔ یہی نہیں، ملک میں سبھی جگہ اس کے مناسب علاج کے انتظامات بھی نہیں ہیں۔ اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہم اگر کچھ معمولی احتیاط برتیں تو ایسے واقعات کو ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ اس سے کئی لوگوں کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔
میڈیکل سائنس میں زیادہ تر بیماریوں کے علاج کے لیے دوائیں یا سرجری کا انتظام ہے۔ آگ سے ہوئے زخموں کا بھی علاج ہوتا ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ کوئی بھی علاج جسم کو اصل سائز یا رنگ لوٹانے میں کامیاب نہیں ہے۔ کئی مرتبہ جب جسم کا بڑا حصہ جل جاتا ہے تو مریض کی موت ہو جاتی ہے۔ جلے ہوئے مریضوں کی بڑی تعداد چہرے یا جسم کے دیگر حصوں میں بگاڑ کا شکار بن جاتی ہے۔ کئی بار جسم کا کوئی حصہ بقیہ زندگی کے لیے بیکار ہو جاتا ہے۔
جلنے کی وجہ سے متاثرہ مریض پر کئی نفسیاتی اور سماجی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ قریبی رشتہ دار کئی بار الگ طریقے سے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اور مریض کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ کئی بار والدین زبردست معاشی بوجھ کے نیچے دب جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کھلے عام معذور بچوں کو مسترد کردیتے ہیں۔ کئی بار جلے ہوئے متاثرہ کو بگاڑ اور بدصورتی کی وجہ سے اپنے بھائی-بہن اور ہم عمر دوستوں سے نظرانداز ہونے کا دکھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس بات سے آسانی سے بچاؤ کیا جاسکتا ہے، کئی بار اس کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
آگ سے بچنے کا سب سے صحیح طریقہ ہے احتیاط اور بیداری۔ کچھ باتیں سبھی کو گانٹھ باندھ کر رکھنی چاہیے، جیسے کہ آگ تیزی سے پھیلتی ہے۔ ایک چھوٹی سی چنگاری محض 30 سیکنڈ میں قابو سے باہر ہو جاتی ہے اور خوفناک آتشزدگی کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ کچھ منٹوں میں ہی گھر میں گہرا کالا دھواں بھر سکتا ہے۔ آگ کی لپٹیں تھوڑی ہی دیر میں کسی گھر کو نگل لیتی ہیں۔ دوسرا آگ گرم ہوتی ہے اور گرمی اکیلے ہی جان لیوا ہوتی ہے۔ آگ لگنے کی صورت میں کمرے کا درجۂ حرارت پیروں کے پاس 100 ڈگری اور آنکھوں تک آتے آتے 600 ڈگری ہو جاتا ہے۔ اتنی گرم ہوا میں سانس لینے سے پھیپھڑے جھلس سکتے ہیں۔ منڈکا میں کچھ اسی طرح لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ کچھ ہی منٹوں میں کمرہ گرم بھٹی بن جاتا ہے، جس میں ہر ایک چیز سلگ اٹھتی ہے۔ آگ کی شروعات تو روشنی سے ہوتی ہے، لیکن جلد ہی اس سے نکلنے والے کالے گھنے دھویں کی وجہ سے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ آگ کی لپٹوں سے کہیں زیادہ اس کے دھویں اور زہریلی گیسوں سے جان و مال کا نقصان ہوتا ہے۔ حیات بخش آکسیجن گیس کی وجہ سے آگ کا پھیلاؤ ہوتا ہے اور اس سے دھواں اور مہلک گیسیں نکلتی ہیں۔ دھویں یا زہریلی گیس کی اگر تھوڑی سی مقدار بھی سانس کے ساتھ اندر چلی جائے تو آپ نڈھال، بے چین ہو سکتے ہیں یا سانس لینے میں پریشانی ہو سکتی ہے۔ کئی بار تو آگ کے شعلے آپ تک پہنچیں، اس سے پہلے ہی بے رنگ، بوکے بغیر دھواں آپ کو گہری نیند میں دھکیل سکتا ہے۔ ایسے حادثات عام طور پر بھیڑ بھرے تنگ مقامات پر وقوع پذیر ہوتے ہیں، جیسے کہ اسکول، کالج، بازار، سنیما ہال، شادی کے منڈپ، اسپتال، ہوٹل، ریلوے اسٹیشن، کارخانے، کمیونٹی ہال، مذہبی اجتماع وغیرہ۔
آگ لگنے کے60 فیصد واقعات کی بنیادی وجہ بجلی کے تئیں برتی جانے والی لاپروائی ہوتی ہے، ان میں شارٹ سرکٹ، اوور ہیٹنگ، اوورلوڈنگ، گھٹیا آلات کا استعمال، بجلی کی چوری، غلط طریقے سے کی گئی وائرنگ، لاپروائی وغیرہ عام ہیں۔ اگر ہدایات پر صحیح طریقے سے عمل نہ کیا جائے تو خوفناک آگ اور بڑے حادثات رونما ہوسکتے ہیں۔ تھوڑی سی احتیاط برتنے پر ایسے واقعات سے بچا جاسکتا ہے۔ بجلی سے لگنے والی آگ، خاص طور پر بڑی عمارتوں میں بہت تیزی سے پھیلتی ہے جس کی وجہ سے جان و مال کا بڑا نقصان ہوسکتا ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ آگ لگنے پر فوری کارروائی کی جائے۔
فائر اسپیشلسٹ یہ بات قبول کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہونے والی بے وقت اموات کے اسباب میں آگ سب سے بڑا سبب ہے۔ جلے ہوئے لوگوں کا علاج کرنا بے حد خرچیلا اور بہت وقت کھپانے والا کام ہے۔ آگ سے تحفظ کے طریقوں پر عمل آوری، جلے ہوئے لوگوں کے علاج کے لیے اسپتال بنانے سے کم خرچیلا اور آسان ہوتا ہے۔ تھوڑی سی احتیاط لوگوں کی بیداری اور عام سی ٹریننگ ہمارے ملک کو آگ کے واقعات سے آزاد ملک بنا سکتی ہے۔ یہی نہیں، آگ بجھانے والے جیسے محکمہ آگ لگنے پر جس تیزی سے کام کرتے ہیں اور کئی بار آگ سے جھوجھنے میں اپنے ساتھیوں کو بھی گنوا دیتے ہیں، اس سے بہتر ہو کہ کوئی حادثہ ہونے سے قبل ہی عوامی مقامات پر آگ کے اندیشوں کو صفر کرنے پر زیادہ توجہ دیں۔ ایک بات اور ہماری سڑکیں اور عوامی مقامات فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی آمدورفت اور ان کے آلات کے ٹھیک طرح استعمال کے مطابق نہیں ہیں۔ ہم لوگ تاخیر کے لیے آگ بجھانے والے محکمہ کو کوستے ہیں، اصل میں اس تاخیر کے پیچھے بھی وہی وجوہات ہوتی ہیں جو آگ لگنے کی ہیں- تجاوزات، ناجائز تعمیرات اور لاپروائی۔ آج لازمی ہے کہ آتشزدگی کے اسباب کے تئیں لاپروائیوں پر معاشرے میں بھی باقاعدہ غوروخوض اور احتیاط برتی جائے۔
[email protected]