عبدالسلام عاصم
دنیا کے کئی ملکوں کی مختلف اقوام کو گزشتہ چند دہائیوں سے مذہبی شدت پسندی کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز بھی اب ایک حد تک اس کی زد میں ہے۔ تاریخ میں ان اقوام کی ایک لمبی فہرست ہے جو ان تجربات سے دہائیوں نہیں صدیوں گزری ہیں۔ تو کیا اس کے تازہ مرحلے سے گزرنے والی اقوام بھی اس عفریت کو صدیوں جھیلیں گی؟ اس کا دو ٹوک جواب ہے: نہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ فطرت کے نظام میں ایکدم سے کوئی تبدیلی آگئی ہے یا کوئی معجزہ ہونے والا ہے، اس کا علمی جواز گلوبلائزیشن ہے جس میں حب الوطنی کی گنجائش تو ہے، قوم پرستی کے نام پر اُس فسطائیت کی گنجائش نہیں جو مذہبی آزادی کی آڑ میں ’’دینی وابستگی‘‘ کے نام پر شدت پسندی کے کھیل کو جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ بیزار اور بیدار دنیا کے لوگ ایک سے زیادہ بر اعظموں میں یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ فی زمانہ ایک عہد ایسا گزرتا ہے جس میں شدت پسندی کسی مذہب کی پہچان بن جاتی ہے اورافترا پردازی کا وہ طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے معاملہ فہمی اور معقولیت پسندی سے کام لینے والوں کی ایک نہیں چلتی۔ جب تک یہ طوفان ٹھہرتا ہے تب تک تاریخ کا ایک سبق آموز باب مرتب ہوچکا ہوتاہے۔ بعض بدقسمت حلقوں میں اس باب کو پڑھا تو جاتا ہے لیکن سبق حاصل کرنے کیلئے نہیں بلکہ حسب موقع دہرانے کیلئے۔ وطن عزیز کو سر دست ایک ایسے ہی طوفان کا سامنا ہے۔
ماضی کا باب در باب مطالعہ کرنے والی ملک کی اکثریت کے سماجی اور سیاسی نمائندوں کا ایک حلقہ اُس تاریخ کو دوہرانا چاہتا ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ارتقا کا سفر امکانات کے رخ پر جاری رہے۔ماضی قریب میں اس مشق سے وہ لوگ بھی گزرے ہیں جو اکثریت اور اقلیت کے بیمار مفہوم کے مطابق ہندوستان میں اقلیت میں اور پاکستان اور بنگلہ دیش میں اکثریت میں ہیں۔ اِن کا کبھی یہود، ہنود اور نصارا کو کم تر سمجھنا غیر کتابی ایمان کا فخریہ حصہ رہا۔
تاریخ جہاں کسی کا احترام کیے بغیرواقعات و سانحات مرتب کرتی ہے، وہیں سمجھنے والوں کیلئے اُن شعبدوں کی طرف واضح اشارہ بھی کرتی ہے جو تاریخ کو جھٹلانے کی کوششوں سے عبارت ہوتی ہیں۔ مذہبی پہچان رکھنے والی کوئی بھی قوم جب شدت پسندی کے زمانے سے گزرتی ہے تو اسے اپنی انتہا پسندی، تعصب اور نفرت باجواز نظر آتی ہے۔ تازہ منظر نامے میں کل جہاں کسی اور مذہب کے ماننے والوں کو یہ معاملہ تھا وہیں آج یہ سلسلہ ایک نئی مذہبی پہچان کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔
کسی کے خلاف نفرت انگیز رد عمل اصل میں اُس عمل کا جواب ہوتا ہے جومخالفت کرنے والے کے نزدیک محض اس لیے غلط ہوتا ہے کہ وہ اُسے پسند نہیں کرتا۔ وہ اپنی اِس ناپسندیدگی کو اپنے حلقے کے آمنا و صدقنا تک محدود سوچ رکھنے والوں میں ’’باطل‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایسی سوچ سے متاثر معاشرے میں نفرت آمیز تفریق وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے کوئی فرقہ دینی وابستگی کے نام پر اپنے لیے دوسرے سے الگ پہچان رکھنے کا مطالبہ کر نے لگتا ہے۔ کسی ایسے مذہبی معاشرے میں جہاں مذہبی آزادی کا ڈھونگ بھی رچایا جا رہا ہو، وہاں غیرجمہوری، غیر سیکولر اور غیر روادار مذہبی قوموں کا ایک ساتھ مل کر رہنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو جاتاہے۔
تہذیبی سطح پر بر صغیر کو ایسی ہی پریشانی کا سامنا ہے جس میں عمل اور رد عمل تک محدود حلقے جانے انجانے میں تہذیب سوزی اور غارتگری کا دائرہ وسیع کرنے میں لگے ہیں۔ 1947 میں متحدہ ہندوستان کے عوام کو فرقہ وارانہ خطوط پر گمراہ کرنے والوں کی ناعاقبت اندیشی کی سزا منقسم ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ کے عوام مسلسل کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان بباطن روزِ اول سے ہی غیر معلنہ طور پر اسلامی ملک بن چکا تھا اور بانیٔ پاکستان کے سیکولر خیالات اور اعلانات کی برملا مخالفت شروع کر دی گئی تھی جس کا وہاں کی اعتدال پسند مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کی اقلیتوں پر منفی اثر پڑتا رہا۔ ہندوستان اگرچہ معلنہ طور پر ایک سیکولر ملک بن کر ابھرا تھا لیکن یہاں اکثریت کا ایک حلقہ اس بات سے قطعی مطمئن نہیں تھا کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ملک تقسیم بھی ہوجائے اور ہندوستان کی پہچان بدستور متحدہ ہندوستان کی طرح کثرت میں وحدت کی آئینہ دار بنی رہے۔
ایسے غیر روادارماحول میں کسی بھی مذہبی اکثریت کے شدت پسندوں میں اقلیتوں کے خلاف ناپسندیدہ جذبات کا مسلسل پنپتے رہنا موجب حیرت نہیں۔ علم سے زیادہ عقائد آشنا حلقوں میں کسی بھی ایسی قوم کے لیے جینے کی امن پسند گنجائشیں ایسے میں کم ہوجاتی ہیں۔ مذہب پر غیر صحتمند انحصار کرنے والے عناصر تہذیبی اختلاط سے گھبراتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے لیے معاملات کی نوعیت خصوصی رکھی جائے اور زندگی کے ہر شعبے میں حسب تناسب و تقاضہ پیش آیا جائے۔ ہندوستان میں مسلمانوں اور پاکستان میں ہندوؤں کے ساتھ اسی طرح کے معاملات الگ الگ انداز سے پیش آئے۔
تقسیم ہند کے فوراً بعد کی مردم شماری (1951)کے مطابق ملک میں ہندوستانی مسلمانوں کی آبادی جہاں 9.8فیصد رہ گئی تھی، وہیں متحدہ پاکستان میں 1951 کی مردم شماری کے مطابق وہاں رہ جانے والے ہندوؤں کی تعداد 12.9 فیصد تھی۔ دونوں ہی طرف اکثریت کے شدت پسند حلقوں کے جذبات اقلیت کے تعلق سے امکانات سے زیادہ اندیشوں میں گھرے رہے۔ اس کا ازالہ کرنے کے بجائے دونوں طرف کے حکمرانوں نے اس صورت حال کا اپنے اپنے طریقے سے اقتدار رُخی سیاسی استحصال کیا۔ پاکستان کے برعکس ہندوستان میں یہ استحصال براہ راست کم اور بالواسطہ زیادہ کیا گیا۔
وطن عزیز میں مذہب کے نام پر مذہبی شدت پسندی سے متاثر موجودہ ماحول کو ازسرنو جمہوری اقدار، سیکولر تعلیم اور تہذیبی رواداری کی بنیاد پر سب کے لیے سازگار بنانے کے لیے علیحدگی اور تفرقہ پسند ذہنوں کو کسی تصادم کے بغیر یہ ماننے پر آمادہ کرنا ہوگا کہ دنیا واقعی ایک گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے اور زبانیں، ثقافت اور رہن سہن کے طریقے سب ایک ہورہے ہیں۔ اس کوشش کی راہ میں دونوں طرف کے وہ عناصر حائل ہونے کی کوشش یقینا کریں گے جو اپنے حلقوں کے مراعات سے محروم اور غیر ترقی یافتہ لوگوں کو قومی اور مذہبی شدت پسندی کی گھٹیاں پلاتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کے پس منظر میں اس محاذ پر عقلمندوں کو جو بات سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ اقلیت کی فسطائی سوچ وہ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اکثریت کی غیررواداری سے پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان کی مثال سب کے سامنے ہے۔
یہ سچ اپنی جگہ کہ ہندوستان میں جس طرح اسلام کے نام پر دہشت گردی کوعام مسلمانوں کی مطلق تائید و حمایت حاصل نہیں، اسی طرح ہندوتو کی سیاسی مظہر بننے والی بالا دستی کو بھی عام ہندوؤں کی تائید و سرپرستی حاصل نہیں۔ اس وضاحت سے بہر حال وہ بات پوری طرح نہیں بنتی جو دہائیوں سے نام نہاد سیکولرحکمرانوں کی کھوکھلی قیادت میں بگڑتی چلی آئی ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مذہبی شدت پسندی کا مظاہرہ خواہ کسی بھی مذہبی حلقے کی طرف سے کیا جائے ،اس کا حتمی نتیجہ مذہب بیزاری کی شکل میں ہی مرتب ہوتا ہے۔ ایک نسل جہاں بیزار ہوتی ہے، وہیں نئی نسل اس بیزاری سے بیداری کے رُخ پر استفادہ کرنے لگتی ہے۔ جب تک مذہب کو دنیا پرستی کے بجائے دنیا داری کا نقیب سمجھنے والے اس کا ادراک کر پاتے ہیں، تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کی بظاہر تمام حدیں پار کرنے والے ایک دور کے ہمسایۂ ایران کے مدبر عالم دین محمد ابوالقاسم دولابی نے گزشتہ دنوں بڑی سنجیدگی سے ایران میں مذہب بیزارلوگوں کے قدم مذہب ترک کرنے کی دہلیز پر دیکھ کرقوم کو خبردار کیا ہے۔ دینی ماہرین کی مجلس سے تعلق رکھنے والے اس عالم دین کے مطابق مذہب کے نام پر لوگوں کو ذلیل کرنے اوراُنہیں ایک باوقار زندگی سے محروم کرنے کے نتیجے میں مذہب کی گرفت کمزور ہوئی ہے اور مسجدیں ویران ہوتی جارہی ہیں۔ انہوں نے ملک میں مذہب کی آڑ میں ظالمانہ نظامِ حکومت کو جائز ٹھہرانے کی حکمرانوں کی روش کو اس صورتحال کا ذمہ دار گردانا ہے۔ اس کے خلاف عوام کی طرف سے ردِّعمل کی ایک نمایاں جھلک اُن پر تشدد مظاہروں میں نظر آئی تھی جو لازمی حجاب اوڑھنے کی پالیسی کی وجہ سے مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے نتیجے میں کیے گئے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]