پنکج چترویدی
19جولائی ممبئی سے تقریباً 80 کلومیٹر دور رائے گڑھ ضلع کی کھالاپور تحصیل کے تحت ارشال واڑی گاؤں کی پہاڑی ایسی کھسکی کہ گاؤں کے 229 لوگوں میں سے 26 کی موت ہو گئی، 10 زخمی ہیں اور 111 محفوظ ہیں جبکہ 82 لوگوں کا ابھی تک پتہ نہیں چل پایا۔ اس گاؤں تک پہنچنے کی سڑک بھی نہیں ہے۔ ریسکیو ٹیم کو پہنچنے میں گھنٹوں لگے۔ دو سال قبل بھی 22 جولائی، 2021کو اسی ضلع میں مہاڑ تحصیل کے تلیے گاؤں میں بڑے پیمانے پر لینڈسلائیڈ میں87 لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ گزشتہ سال ہی رتناگری کے پیسرے بودھ واڑی میں 12، سمارا کے آمبیکر میں 11، میرگاؤں میں 6 اموات ہوئیں۔ ریاست کے رتناگری، کرجت، دابھول، لوناوالا وغیرہ میں پہاڑ سرکنے سے بہت نقصان ہوا۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران مہاراشٹر کے بڑے حصے میں برسات کے دنوں میں لینڈسلائیڈ کی وجہ سے خوفناک نقصان ہو رہا ہے۔ دوردراز کے علاقوں کی بات تو دور ہے، ملک کا اقتصادی دارالحکومت کہے جانے والے شہر ممبئی میں گزشتہ سال 19 جون کو صبح چیمبور کے بھارت نگر میں پہاڑ کے دامن میں واقع چھوٹے چھوٹے گھروں پر ایک بڑی چٹان کھسک کر گر پڑی۔ اس حادثے میں 2 لوگ زخمی ہو گئے۔ یہاں چیمبور، گھاٹ کوپر، ساکی ناکا، ورلی، وکرولی جیسے علاقوں میں برسات میں چٹان-پہاڑ کھسکنا ہر سال کی بات ہے۔
جیولوجیکل سروے آف انڈیا نے 2020 میں ہی بتادیا تھا کہ مہاراشٹر میں کم سے کم 225 گاؤوں ایسے ہیں، جہاں کبھی بھی آفت کی شکل میں پہاڑ سرک سکتا ہے۔ ان میں سے 23 گاوؤں تو پنے ضلع میں ہی ہیں۔ سائنس دانوں نے ایسے گاوؤں کو الرٹ جاری کیا ہے جو ایک تو پہاڑ کی ڈھالان پر آباد ہیں، دوسرے پہاڑ کسی پتھر کا نہ ہوکر لال مٹی کا ہے۔ 30 جولائی، 2014 کو پنے ضلع کے امبے گاؤں تحصیل مالن گاؤں میں اگر بس کا ڈرائیور نہیں پہنچتا تو پتہ ہی نہیں چلتاکہ کبھی وہاں بستی بھی ہوا کرتی تھی۔ گاؤں ایک پہاڑ کے نیچے تھا اور بارش میں اوپر سے جو ملبہ گرا تو پورا گاؤں ہی گُم ہو گیا۔ اس سانحے کی جانچ پولیس نے بھی کی اور سائنس دانوں نے بھی۔ پولیس کی جانچ سے معلوم ہوا تھا کہ پہاڑ کھسکنے کے پیچھے اصل وجہ اس بے جان کھڑے ڈھانچے کے تئیں لاپروائی ہی تھی۔ نزدیک بن رہی سڑک کے لیے برسوں سے اس پہاڑ کی اندھادھند کھدائی ہو رہی تھی۔ پہاڑ نیچے سے پوری طرح کٹ گیا تھا۔ تیز بارش ہوئی تو وہ منہدم ہوگیا۔
مالن گاؤں کے سانحے پر چیتن آر شاہ، سندیپ ایس ساٹھے، پرشانت بی بھگوتی اور سنتوش ایس موہتے پر مبنی سائنس دانوں کی ٹیم نے ریسرچ کی جو کہ بعد میں ارضیات کے مشہور بین الاقوامی جرنل ٹیلر اینڈ فرانسس کے 2021 کے پہلے شمارے میں شائع ہوئی ۔ اس کے نتیجے میں بتایا گیا کہ یہ گاؤں گھوڑ ندی کی معاون موسمی ندی کے پاس تھا، گاؤں والے پہاڑی کی ڈھال پر برساتی پانی روک کر دھان کی کھیتی کرتے تھے۔ گاؤں والوں نے ہریالی کاٹ کر بھی کھیت کی زمین بنائی تھی۔ یہاں پانی نکلنے کے راستے بند تھے، جس سے مسلسل پانی رسنے سے پہاڑ کی مٹی ڈھیلی ہوچکی تھی۔ اس دن جیسے ہی تیز بارش ہوئی، مٹی بوجھ برداشت نہیں کرپائی۔ افسوسناک یہ ہے کہ مختلف محکموں کے انتباہ، حفاظت کے طریقے، حساس گاوؤں کو نئی جگہ منتقل کرنے کے منصوبے تب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، جب اچانک کسی رات ارشال واڑی جیسے گاؤں میں لاشوں کا انبار لگ جاتا ہے۔
جاننا ہوگا کہ ہندوستان میں کل ملاکر 15 فیصد یا 0.49 ملین مربع کلومیٹر خطہ لینڈسلائیڈ کے تئیں حساس ہے۔ ہندوستان میں لینڈسلائیڈ سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہمالیہ، مغربی گھاٹ، نیل گری اور وندھیا ہیں۔ چونکہ جہاں سیاحت، مذہب اور کاروبار ہے، وہاں جب پہاڑ کھسکتا ہے تو اس کا ذکر دیر تک اور دور تک ہوتا ہے لیکن مہاراشٹر کے ایسے گاؤں میں جہاں پہنچنے کے لیے ابھی بہتر راستہ نہیں ہے، تباہی پر محض معاوضے کی خانہ پوری ہی کافی سمجھی جاتی ہے۔
مہاراشٹر میں جن علاقوں میں لینڈسلائیڈ ہو رہی ہے، ان میں سے زیادہ تر سہادری پہاڑی سلسلے کے قریب ہیں۔ ان سبھی مقامات پر سانحے کے دوران اچانک ایک دن میں تین سے چار سو ملی میٹر بارش ہو گئی۔ ان سبھی مقامات پر پہاڑوں پر بستی اور کھیت کے لیے بے شمار پیڑ کاٹے گئے۔ جب مٹی پر پانی کی بڑی بوندیں براہ راست گرتی ہیں تو ایک تو یہ مٹی کو کاٹتی ہیں، دوسرے بہتی مٹی قریب کے پانی کے ذخائر ندی، جوہڑ، تالاب کو اُتھلا کرتی ہے۔ ان دونوں سے پہاڑ اوپر اور زمین سے کمزور ہوتا ہے۔ یہی نہیں ان سبھی علاقوں میں تعمیر اور کانکنی کے لیے بڑے دھماکوں کا استعمال طویل عرصے سے ہورہا ہے۔
دو سال پہلے ارتھ سائنس کی وزارت کے مرکزی وزیر کے توسط سے آب وہوا میں تبدیلی کے تجزیہ پر تیار پہلی رپورٹ میں واضح الفاظ میں متنبہ کیا گیا تھا کہ سمندر کے آس پاس اور رتناگری کے پہاڑی علاقے بدلتے موسم کے لیے سب سے زیادہ حساس ہیں اور یہاں سخت موسم کی مار سے قدرتی آفات کے زیادہ خدشات ہیں۔ اس رپورٹ اور اس کے انتباہ کے باوجود ترقی کے نام پر پہاڑوں کے ساتھ کی جارہی بربریت جاری رہی۔ آج ضرورت ہے کہ ہریالی سے محروم پہاڑیوں پر ہریالی کی چادر بچھائی جائے۔ پہاڑ اور ندی کے تقریباً بڑے تعمیراتی کاموں سے پرہیز کیا جائے، کم سے کم سدکا-پل یا ڈیم کے لیے ان قدرتی ڈھانچوں سے چھیڑچھاڑ نہ ہو۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مہاراشٹر میں آنے والے دنوں میں آب و ہوا میں تبدیلی کے برے اثرات اور سنگین شکل میں سامنے آئیں گے اور اس سے بچنے کے لیے پہاڑ کی حفاظت ضروری ہے۔
[email protected]