ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
تاریخ کے صفحات میں کچھ ایسے دلچسپ واقعات آج درج ہو رہے ہیں جو مستقبل کے مورخین کو اس حقیقت کی تلاش پر آمادہ کریں گے کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر ایسا دور بھی مقبوضۂ فلسطین میں گزرا ہے کہ جہاں ایک طرف تمام تر جدید و مہلک جنگی آلات و اوزارِ حرب و ضرب سے لیس صہیونی ریاست تھی جس کو وقت کے سپر پاور کے علاوہ اپنے عہد کے تمام مالدار اور طاقتور ملکوں کا تعاون حاصل تھا اور جس نے غزہ کے محدود اور تنگ جغرافیائی ٹکڑے پر بسے نہتے معصوم بچوں اور بہادر ماؤں کے علاوہ مریضوں، صحافیوں، عبادت گاہوں اور کھیت کھلیانوں تک کو تباہ کر دیا تھا اور اپنی مادی و جنگی قوت کے زعم میں پوری کوشش کر لی تھی کہ غزہ میں بسنے والے کسی طرح اس بات پر راضی ہوجائیں کہ وہ غزہ کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرلیں اور مزاحمت کا فریضہ انجام دینے والوں سے دستبرداری کا اعلان کرکے یہ کہہ دیں کہ انہیں مزاحمت کاروں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ ویسے صہیونی ریاست کی یہ دیرینہ تمنا اس کے ناجائز قیام کے روزِ اول سے ہی رہی ہے اور عملی طور پر1948میں وہ بڑے پیمانہ پر ایسا کر بھی چکی ہے۔ دیر یاسین اور اس کے گرد و پیش میں فلسطینیوں کا جو قتل عام یہودیوں کے ہاتھوں ہوا تھا، وہ آج بھی تاریخ میں ’’نکبۂ اولی‘‘ کے نام سے ثبت ہے۔ اس بربریت کے نتیجہ میں 7 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا اور آج تک وہ پناہ گزینوں کی طرح دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں اور اپنی زمینوں تک واپسی کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ابھی تک انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے کیونکہ عالمی برادری نے فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے مقابلہ میں صہیونیوں کے مظالم کی حمایت کرنا زیادہ ضروری سمجھا اور آج تک عالمی اداروں اور حکومتوں کے اس ظالمانہ موقف میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی ہے۔ تاریخ کے اس تلخ تجربہ سے سبق لیتے ہوئے فلسطین کی آئندہ نسلوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہر قیمت پر اپنے وطن میں ہی رہیں گے اور ہجرت سے باز رہ کر اپنی زمین، تاریخ و ثقافت اور اپنے جملہ حقوق کی حفاظت ان ہتھیاروں سے کریں گے جن کو ان کا دشمن ٹھیک سے سمجھتا ہے۔ وہ ہتھیار مزاحمت کا ہتھیار ہے۔ بین الاقوامی قانون بھی مقبوضہ علاقوں کے اصل باشندوں کو مسلح مزاحمت کا حق عطا کرتا ہے اور اس اعتبار سے وہ تمام فلسطینی جماعتیں جو اپنے حقوق اور بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں، ان کی کوششیں جائز ہیں اور ان کے اس حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ لیکن ہمارے عہد کا یہ بھی ایک المیہ ہی ہے کہ غاصب ہونے کے باوجود اسرائیل کے حق دفاع کا اعتراف کیا جاتا ہے جبکہ مزاحمت کار فلسطینی جماعتوں کو دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال کر ان کی انسانیت تک ان سے سلب کرلینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس موضوع پر پھر کبھی بحث کی جا ئے گی۔ سردست تو یہ سمجھنا ہے کہ ایک طرف تو اتنے مسائل سے برسرپیکار رہنے کے باوجود فلسطینیوں نے اپنی زمین کو نہیں چھوڑا خواہ اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑا۔ دوسری طرف اسرائیل کے بارے میں جو مختلف خبریں اور تجزیے عبرانی و غیر عبرانی اخبارات و رسائل میں چھپ رہے ہیں، ان سے اندازہ ہو رہا ہے کہ7؍اکتوبر کے حماس حملہ کے بعد سے لاکھوں یہودی اسرائیل کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہودیوں اور صہیونیوں کی بڑی تعداد نے آخر کیوں اس زمین کو چھوڑنا شروع کر دیا جس کو وہ ارض موعود کہہ رہے تھے؟ کیا یہ وہی صہیونی ریاست نہیں ہے جہاں پر دنیا بھر کے یہودیوں کو اکٹھا کرنے کی سعی کی گئی تھی اور آج بھی اس کا سلسلہ جاری ہے؟ کیا فلسطین کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنے کے لیے اس کے بارے میں صہیونی مفکرین نے یہ پروپیگنڈہ دنیا بھر میں نہیں پھیلایا تھا کہ یہ زمین کا وہ حصہ ہے جو برسوں نہیں بلکہ صدیوں سے خالی پڑا ہے اور اپنے اصل مالکان یعنی بنی اسرائیل کا منتظر ہے اور اسی لیے تلمودی قانون کے تحت اس پر ان کا حق بنتا ہے؟ اسی جھوٹ اور پروپیگنڈہ کی بنیاد پر آج بھی مغربی ملکوں میں اسرائیل کے لیے حمایت طلب کی جاتی ہے اور ’’ارض موعود‘‘کا راگ الاپ کر ہی اس ’’خالی‘‘ فلسطینی زمین کی طرف ہجرت کرنے کے لیے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو آمادہ کیا جاتا ہے تاکہ ’’الٰہی فرمان‘‘کی سچی تعبیر نکل سکے۔ اسرائیل کی طرف دنیا بھر کے یہودیوں کی ہجرت کی اہمیت تلمودی تاریخ میں اس قدر زیادہ بتائی گئی ہے کہ اس کے پہلے وزیر اعظم بن گورین(1948-1954) نے کہا تھا کہ اسرائیل کی آخری فتح تب ہوگی جب بھاری تعداد میں یہودی ہجرت کرکے یہاں آئیں گے۔ بن گورین کی نظر میں تو اسرائیل کی بقاء کا انحصار ہی صرف واحد عامل(Factor) پر ہے اور وہ ہے وسیع پیمانہ پر اسرائیل کی طرف یہودیوں کی ہجرت۔ لیکن ’’طوفان الأقصیٰ‘‘ آپریشن کے بعد کی جو تصویر سامنے آ رہی ہے، وہ بالکل الگ ہی کہانی کہہ رہی ہے۔ وہ کہانی یہ ہے کہ نیتن یاہو کے زمانہ میں 7؍اکتوبر کے بعد سے اب تک تقریباً10 لاکھ یہودی اسرائیل سے بھاگ چکے ہیں۔ کہاں تو نیتن یاہو غزہ کی 22 لاکھ آبادی کی ہجرت کا پلان تیار کر رہے تھے اور کہاں اپنے ہی گھر کی دیواروں کی سلامتی کا انتظام کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ اس کی وجہ سے اسرائیل سخت پریشانی میں پڑگیا ہے کیونکہ غزہ پر تھوپی جنگ کی تہوں میں عددی تفوق کا گیم ہی سب سے اہم ہے۔ اگر یہودیوں کی ہجرت اسی تیزی کے ساتھ جاری رہی تو اسرائیل کو اپنے دفاع کے لیے 65فیصد احتیاطی فوجیوں کا استعمال کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا کیا گیا تو اس کی وجہ سے ایک دوسرا سنگین مسئلہ صہیونی ریاست کے سامنے پیدا ہوجائے گا یعنی اس کی کاروباری قوت پر اثر پڑنے لگے گا جیساکہ ظاہر بھی ہو رہا ہے۔ اگر جنگ کے اخراجات کو پورا کرنا چاہے اور اقتصادی صورت حال کو بگڑنے سے بچانا پیش نظر رکھا جائے تو جنگ کے سپاہیوں کو میدان جنگ سے نکال کر آفسوں، فیکٹریوں اور بازاروں میں لگانا پڑے گا اور ہر دو صورت میں اس کے سامنے چیلنج بہت بڑا ہے، کیونکہ اگر ایک محاذ بچاتے ہیں تو دوسرا مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں دس لاکھ یہودیوں کا ملک چھوڑ کر چلا جانا کتنا بڑا مسئلہ بن چکا ہے یہ اسرائیلی حکام خوب جانتے ہیں۔ دوسری مصیبت یہ ہے کہ یہودیوں کو دنیا سے بٹور کر اسرائیل لانے والی یہودی ایجنسیاں مزید یہودیوں کو یہاں لانے میں ناکام ہورہی ہیں۔ اس کے علاوہ دقت یہ ہے کہ جو یہودی آبادکار غلاف غزہ میں بسے ہوئے تھے وہ ’’طوفان الأقصیٰ‘‘کی وجہ سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہی حال لبنان سے متصل شمالی سرحدوں کا بھی ہے جہاں’’حزب اللہ‘‘ کے راکٹوں کے ڈر سے یہودی اپنے گھروں سے بھاگ گئے ہیں اور جب تک جنگ ختم نہ ہو وہاں لوٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈھائی مہینے کے بعد بھی اسرائیل نہ تو حماس کے حملوں کو روک پایا ہے اور نہ ہی ’’حزب اللہ‘‘کو۔ ایسی حالت میں عدم تحفظ کا شدید احساس یہودیوں کو ستا رہا ہے اور اسی لیے وہ زیادہ محفوظ ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ ہجرت کرنے والوں میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جن کی ضرورت جنگ میں ہے، ان کو بلایا بھی گیا ہے لیکن وہ نہیں آئے۔ اسرائیلی قانون کے مطابق ان کو سزا ہوگی جب وہ لوٹ کر آئیں گے۔ لیکن فی الفور اسرائیل کا مسئلہ مزید پیچیدہ اس لیے ہو رہا ہے کہ اندرونی طور پر فکری اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ بطور سپاہی بھرتی کے لیے تیار نہیں ہو رہا ہے۔
اسرائیل سے ہجرت کی جو رفتار ہے، اس کو اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ فلائٹ راڈار24 کے مطابق بن گورین ہوائی اڈہ سے روزانہ120پروازوں میں اوسطاً24ہزار یہودی ہجرت کر رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے لیکن ابھی پوری تصویر صاف نہیں ہے کیونکہ جنگ کے زمانہ میں اسرائیل ساری معلومات نہیں دیتا ہے۔ 71لاکھ آبادی والے ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل سے اتنی کم مدت میں اتنی بڑی تعداد کی ہجرت کی وجہ خوف کی نفسیات کے علاوہ بھلا اور کیا ہوسکتی ہے؟ اگر جنگ کا سلسلہ مزید طویل ہوا تو اس کے اثرات مزید خوفناک ہوں گے۔ یہی وہ اسٹرٹیجک شکست ہے جس سے امریکی وزیر دفاع لویڈ اوسٹن نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا۔ (جاری)
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں