میرٹھ (شکیل سیفی ایس این بی )
’سر سید احمد خاں کو اگر محسن قوم کہا جائے تو یہ ان کو صحیح خراج عقیدت ہوگا۔1857ءکی پہلی جنگ آزادی میں مغل حکومت کی شکست کے بعد انہوں نے محسوس کرلیاتھاکہ انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت پر قبضہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی برتری کی وجہ سے کیا ہے۔ اس وقت ہندوستانی خصوصاً مسلمانان ہند ایک شکست خوردہ قوم تھے۔ ان میں انگریزوں اور ان کی زبان اور ان کے لائے ہوئے علوم و فنون کے خلاف نفرت کا جذبہ تھا۔یہ الفاظ تھے پرو فیسرڈاکٹر بصیر احمد خاں (سابق پرو وائس چانسلر،اگنو)کے جو اپنی صدارتی تقریر میں شعبہءاردو،چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی،میرٹھ اورسر سید ایجو کیشنل سو سائٹی کے مشترکہ اہتمام میں مفکر قوم،معروف دانشور اور ماہر تعلیم سرسید احمد خاں کے یوم پیدا ئش کے مو قع پر جشن سر سید تقریبات کے اختتامی اجلاس میں شعبے کے پریم چند سیمینار ہال میں ادا کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سر سید نے مسلمانوں میں جدید علوم، سائنس اور بالخصوص انگریزی زبان کی ترویج کے لیے مدرس العلوم یعنی محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ میں قائم کیا جو بعد میں علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی شکل میں عمل میں آ یا جس کے فرزند نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں آج سر سید کی کوششوں کے نتیجے میں با وقار زندگی گزار رہے ہیں۔ آج ہم عہد کریں کہ مسلم یونیورسٹی کے مسلم اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہیں گے۔ واضح رہے کہ سالہا ئے گزشتہ کی طرح امسال بھی محسن قوم، عظیم تعلیمی رہنما سر سید احمد خاں کے یوم پیدا ئش کے مو قع پر جشن سر سید تقریبات کا اختتام شعبہءاردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی،میرٹھ میں ہوا۔ صدارت کے فرائض سابق شیخ الجامعہ اگنو،دہلی نے انجام دیے۔ مہمانانِ خصوصی کے بطور م۔افضل (سابق ممبر راجیہ سبھا اورمدیر اخبار نو) اور پروفیسر سنجیو کمار شرما(ڈین فیکلٹی آف آرٹس،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی،میرٹھ) جب کہ مہمانان ذی وقار کے بطور ڈاکٹر معراج الدین احمد(سابق وزیر حکومت اترپردیش اور جاوید اقبال(میجر جرنل ریٹائرڈ)نے شر کت کی اور خصوصی مقرر کے بطور علی گڑھ کے پروفیسر ابو سفیان شریک ہوئے۔ استقبالیہ کلمات ڈاکٹرشاداب علیم، تعارف ڈاکٹر ارشاد سیانوی، نظامت ڈاکٹر آصف علی اور شکریہ کی رسم عرفان عارف نے انجام دی۔
پہلا ٹیکنیکل اجلاس صبح 11:00بجے منعقد ہوا۔جس کی صدارت پروفیسراسلم جمشید پوری،ڈاکٹر ظفر گلزار،حیدر آباد،ڈاکٹر پرویز عالم، آفاق خاں،ذیشان خاںنے کی اور ڈاکٹر شبستان آس محمد ’سر سیداحمد خاں اور تہذیب الاخلاق‘ ڈاکٹر ساجد علی ’سرسید اور اخبار الجمعیت‘سیدہ مریم الٰہی،’سرسید ایک مفکر اعظم تہذیب الاخلاق کے آئینے میں‘ شاہِ زمن ’سر سید احمد خاں متنی نقاد:ایک جائزہ‘شہناز پروین،سرسید کے ہم خیال علماءکے دینی نظریات‘ عظمیٰ سحر ’سر سید کا نظریہ تعلیم‘ اور عرفان عارف ’سر سید کی حب الوطنی‘پر اپنے مقالات پیش کیے۔ نظا مت کے فرائض ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے انجام دیے۔ دوسرا ٹیکنیکل اجلاس 2:30بجے منعقد ہوا۔جس کی صدارت انجینئر رفعت جمالی،ذیشان خان،انیس میرٹھی،سرتاج احمد ایڈووکیٹ اور اسرار الحق اسرارنے کی جب کہ مقالہ نگار کے بطورڈاکٹر چاندنی عباسی،مظفر نگر،ڈاکٹرعفت ذکیہ،میرٹھ’سر سید اور ان کے مخالین‘ سر سید اور تعلیم نسواں‘نوید خان، سنبھل ’عصر حاضر کے مسائل اور افکار سر سید‘،مفتی راحت علی صدیقی ’خطبات احمدیہ اور سر سید‘،عصر حاضر کے علما نصیب،’ماہِ عالم نے’سر سید بحیثیت تاریخ داں‘ عنوانات پر اپنے مقالات پیش کیے۔ جب کہ نظا مت کے فرا ئض ڈاکٹر الکا وششٹھ نے انجام دیے۔اس سے قبل پرو گرام کا آغاز محمدطلحہ نے تلا وت کلام پاک سے کیا بعد ازاں فر حت اختر نے غزل پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ مہمانوں نے مل کر شمع رو شن کی ۔اس موقع پر3 ایورڈ تقسیم کیے گئے جن میں سر سید انٹر نیشنل ایورڈ برا ئے مجموعی خدمات سہارا میڈیا گروپ، (عبدالماجد نظامی)،سر سید نیشنل ایوارڈ برائے تعلیمی خدمات شدھانشو شیکھر(پرنسپل،کے ایل انٹر نیشنل اسکول،میرٹھ) اور سر سید نیشنل ایوارڈ برا ئے سماجی خد مات جن ہت فائونڈیشن،میرٹھ(انیتا رانا)کو دیے گئے۔ایوارڈ یافتگان کا تعارف ڈاکٹر آصف علی نے پیش کیا۔ خصوصی مقرر کی حیثیت سے پروفیسر ابو سفیان اصلا حی نے کہا کہ اردو سے جو محبت کرتا ہے وہ سر سید سے بھی محبت کرتا ہے۔کیو نکہ سر سید نے اردو کو پیروں پر کھڑا کیا ہے۔ سابق ممبر راجیہ سبھا اور معروف اسکالرم۔افضل نے کہا کہ سر سید احمد خاں نے چاروں طرف پھیلی ہوئی سیاسی ابتری، معاشی بحران،تعلیمی پسماندگی اور تہذیبی شکست و ریخت کا علاج مغربی تعلیم کے حصول میں دیکھا اور فکرو نظر کے پیمانوں کو جدید حالات اور عصری تقاضوں کے مطابق ڈھال دینے کی ضرورت کا احساس دلایا۔
ڈاکٹر معراج الدین نے کہا کہ سر سید کی تعلیم سے جو فیض عوام کو پہنچا،اسی کی وجہ سے آ ج شہر در شہر سر سید کی خدمات پر اجلاس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ جاوید اقبال نے کہا کہ تمام مقالات کو سننے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہم سر سید کی تعلیمات کو زندگی میں اتاریں تو ہم دنیا میں آنے کا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ سر سید احمد خاں نے سماج کے ہر پہلو پر غور کیا اور ان کا ذہن ہمہ وقت مذہبی، معاشرتی، اقتصادی، تعلیمی اور تہذیبی اصلاح کے منصو بے تیار کرتا رہا۔ اس دوران شعبہءاردو کے سابق طالب علم ڈاکٹر سید ساجد علی کی کتاب اردو صحافت اور اخبار الجمعیہ کا اجراءبھی مہمانوں کے ذریعے عمل میں آیا۔
اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر عبدالماجدنظامی نے کہا کہ میں شکر گزار ہوں شعبہ ٔاردو کا جنہوں نے سر سید انٹر نیشنل ایوارڈ کے لیے ہمارے سہارامیڈیا گروپ کا انتخاب کیا۔یہ ایوارڈ ہمیں یاد دلاتا رہے گا کہ ہمیں سر سید کے کاموں کو آگے بڑھا نا ہوگا۔ جن ہت فائونڈیشن،میرٹھ کی چیئر پرسن انیتا رانانے ایوارڈ حاصل کر نے کے بعد کہا کہ ہم شعبہءاردو اور اس کی مشترکہ تنظیموں کے بے حد شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ایک عظیم شخصیت کے نام پرہماری خدمات کو سراہتے ہوئے جن ہت فائونڈیشن،میرٹھ کا انتخاب کیا۔سر سیدنے نہ صرف تعلیم بلکہ دیگر شعبوں میں بھی نمایاں کام کیے ہیں۔سدھانشو شیکھرنے شعبہءاردو اور سر سید ایجو کیشنل سوسائٹی کے اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان اداروں نے سر سید جیسی عظیم شخصیت کے نام پرمجھے یہ ایوارڈ دے کر میری عزت افزائی کے ساتھ مجھے ہمیشہ کے لیے اس بات کا پابند کر دیا ہے کہ میں سر سید کی طرح غیر جانب دار ہو کر سماج کے سبھی طبقوں میں علم کی روشی پھیلا ئوں۔اسی دوران بیت بازی مقابلے میں جیت حاصل کرنے والی اسماعیل نیشنل مہیلا پی جی کالج،میرٹھ کی طالبات اور شعبہءاردو،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کی رنر ٹیم کو سر ٹیفکیٹ پیش کیے گئے۔ پروگرام میں فرح ناز،ایاز احمد ایڈووکیٹ، وارث وارثی عمائدین شہر اور کثیر تعداد میں طلبا و طالبات موجود رہے۔