عبدالماجد نظامی
ملک کی راجدھانی دلی ایک ایسا سیاسی قلعہ ہے جس کو انتخابی طور پر فتح کرنے میں نریندر مودی بری طرح ناکام رہے ہیں۔ یہ قلعہ وہ اس وقت بھی فتح نہیں کر پائے جب 2014کے عام انتخابات میں ان کے چہرے اور نام کو ایک علامت کے طور پر پہلی بار ملک گیر سطح پر استعمال کیا گیا تھا اور ’اب کی بار مودی سرکار‘کی گونج شمالی ہندوستان کے ہر گوشہ میں سنائی دے رہی تھی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ دلی بھی ان جزیروں کی فہرست میں شامل ہے جن کے کنارے پر قدم جمانے کی ہر کوشش میں نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی بری طرح شکست و ریخت کا شکار ہوتی رہی۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے جس کو حل کرنے کی جتنی بھی تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں، وہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ یہ گتھی سیاسی تجزیہ کاروں کے لیے بھی اتنی ہی الجھی ہوئی ہے جتنی کہ زعفرانی خیمہ کے پالیسی سازوں کے لیے۔ ایک اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اروند کجریوال سیاسی بازیگری میں نریندر مودی سے زیادہ آگے بڑھ گئے ہیں۔ کم سے کم دلی کی سطح تک ایسا کہنا بالکل مبالغہ آمیز نہیں کہلائے گا۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اروند کجریوال کی زندگی سیاست کے میدان میں داخل ہونے سے قبل یا تو بیوروکریسی کی فائلوں میں گم تھی یا پھر سماجی خدمت گار کے طور پر وہ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ اس کے برعکس نریندر مودی دلی کی پاور کے گلیاروں میں پوری آن بان کے ساتھ داخل ہونے سے قبل بھی تقریباً 15برس تک گجرات جیسی اہم ریاست کے وزیراعلیٰ کے بطور اپنی خدمات انجام دے چکے تھے۔ ان کے پاس سنگھ اور بی جے پی کی شکل میں پورا قوی نظام موجود تھا جس کی بدولت وہ تمام رکاوٹوں کو دور کر سکتے تھے یا کم سے کم انہوں نے اپنی جس صاف ستھری شبیہ کے ذریعہ شمالی ہندوستان کے باقی حصوں کو متاثر کیا تھا، اس کا استعمال یہاں بھی کرسکتے تھے۔ اس کے باوجود آخر دلی کو وہ فتح کیوں نہیں کر پائے؟ اس کی کچھ خاص بنیادی باتیں ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کی پہلی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ دلی جو کہ پورے ملک کی آبادی کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے، یہاں زیادہ تر تعلیم یافتہ لوگ یا ان کے وہ بچے رہتے ہیں جن کو بہتر مستقبل کی تلاش رہتی ہے۔ نریندر مودی کے مقابلہ میں اروند کجریوال کی شبیہ اس معاملہ میں زیادہ مضبوط نظر آئی۔ دلی میں جو لوگ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، وہ بھی کم سے کم پر امن ماحول میں بہتر مستقبل کی تمنا تو ضرور ہی رکھتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے واضح الفاظ اور بہتر انداز میں ان تمناؤں کو پورا کرنے کا یقین دلایا اور دلی کے عوام کو اس پر یقین بھی آگیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کے پاس ماضی کا کوئی بوجھ نہیں تھا، اس لیے کجریوال اور ان کے ہمنواؤں کی باتیں ماننا نسبتاً زیادہ آسان تھا۔
اس کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی کا جو نظریہ ہے، وہ تشدد پسندی اور تقسیم و نفرت کے اصولوں پر مبنی ہے۔ دلی کے لوگ یہ نہیں چاہتے کہ ایسا نظریہ یہاں کے لوگوں کی زندگیوں پر غالب رہے۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کی امیج دلی میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر پائی جو شمالی ہندوستان کی باقی جگہوں میں کر پائی تھی۔ دلی کے عوام کا یہ فیصلہ اس وقت صحیح ثابت ہوا، جب2020میں یہاں پر فرقہ وارانہ فسادات کروانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب رہی اور دلی کے پرامن ماحول کو بری طرح متاثر کیا۔ دلی کی پولیس چونکہ مرکزی سرکار کے کنٹرول میں ہوتی ہے، اس لیے یہ ذمہ داری کجریوال کے بجائے وزیر داخلہ امت شاہ کی تھی کہ وہ فسادات کو روکنے کا انتظام کرتے، لیکن نتیجہ بالکل الٹ نکلا۔ شمال مشرقی دلی میں پولیس نے مسلم اقلیتی طبقہ کے نوجوانوں اور خواتین کے ساتھ جو رویہ رکھا، اس سے پولیس کے پیشہ ورانہ عمل پر سنجیدہ سوالات کھڑے ہوئے۔ حالانکہ خود کجریوال سے دلی کی مسلم اقلیت کو جو امیدیں وابستہ تھیں، ان پر وہ کبھی پورے نہیں اترے اور مسلمانوں کی یہ شکایت بنی رہی کہ کورونا کے دوران یا دلی فسادات اور شاہین باغ تحریک کے موقعوں پر کجریوال نے بھی یہی ثابت کیا کہ ان میں مسلمانوں کے جائز اور ضروری مسائل سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔
لیکن فساد کے لیے اصل ذمہ دار بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے نظریہ کے حاملین ہی رہے ہیں۔ اس بار بھی دلی کے اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہونے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے دوبارہ سے نریندر مودی کو کجریوال کے برابر کھڑا کیا ہے۔ اگر عام آدمی پارٹی کے پوسٹروں پر اروند کجریوال نظر آتے ہیں تو بی جے پی کے پوسٹروں پر نریندر مودی کی تصویریں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اس بار کا الیکشن اس اعتبار سے بھی کسی قدر الگ ہوگا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اروند کجریوال کی صاف ستھری امیج کو کرپشن کے الزامات سے داغدار بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان الزامات کے تحت اروند کجریوال جیل بھی بھیجے جا چکے ہیں۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ ان دنوں ان کی سرکاری رہائش گاہ کو انتخابی ایشو بنا کر عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عام انسانوں کی بات کرنے والے کجریوال دراصل بہت خاص زندگی گزارتے ہیں اور ’’شیش محل‘‘میں رہتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے اس کا ردّ اس انداز میں پیش کیا ہے کہ نریندر مودی جو خود کو ایک معمولی چائے بیچنے والے کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں، وہ حقیقی طور پر تعیش پسند زندگی کے عادی ہیں اور عوام کے ذریعہ منتخب کسی جمہوری لیڈر کی طرح رہنے کے بجائے وہ ایک راجا کی مانند ’’راج محل‘‘ میں رہتے ہیں جنہیں عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ ان نعروں اور پروپیگنڈوں سے دلی کے مسائل کا حل تو قطعاً نہیں نکلے گا جہاں فضائی آلودگی کا مسئلہ اس قدر سنگین ہوچکا ہے کہ وہاں بسنے والے لوگوں کی اوسط عمر اس آلودگی کی وجہ سے دس برس کم ہوتی جارہی ہے۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں۔ اگر ان محاذوں پر عام آدمی پارٹی کو گھیرنے کی کوشش کی جائے گی تو بھارتیہ جنتا پارٹی خود کٹہرے میں کھڑی نظر آ ئے گی کیونکہ ملک گیر سطح پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں نے روزگار، صحت اور تعلیم و ترقی کے میدانوں میں جو سنگین مسائل پیدا کیے ہیں، وہ اب ہر شخص محسوس کر رہا ہے اور دلی بھی مرکزی سرکار کی ان پالیسیوں کی مار سے بچ نہیں پائی ہے۔ ایسے میں زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ دلی کے عوام اروند کجریوال کے بجائے بھارتیہ جنتا پارٹی سے زیادہ سوالات کریں گے اور ان کا کوئی تشفی بخش جواب بی جے پی کے پاس نہیں ہے۔ اگر دونوں پارٹیوں کے لیڈران کی بات کی جائے تو یہاں بھی اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر کجریوال کی امیج 2014 کے مقابلہ کمزور پڑی ہے تو خود نریندر مودی کے تئیں اب وہ جذباتیت کہیں نظر نہیں آتی ہے جو 10سال یا 5 برس قبل نظر آتی تھی۔ خاص طور سے 2024 کے عام انتخابات نے اس کو ثابت کر دیا ہے۔ دلی کے عوام کی نظر میں یہ بات بھی ہوگی کہ ان کے ذریعہ منتخب اروند کجریوال سرکار کو مرکزی سرکار نے لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعہ کیسے ہراساں کیا تھا اور پالیسی سازی کے حقوق ان سے سلب کر لیے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ بات بھی ذہن نشیں رکھنی ہوگی کہ ان کا مقابلہ کانگریس پارٹی سے نہیں ہے جو شیلا دیکشت کے بعد سے اب تک اپنے بکھرے ہوئے گھر کو منظم نہیں کر پائی ہے، بلکہ اس کا مقابلہ عام آدمی پارٹی سے ہے جو اعصاب کی جنگ لڑنے میں اچھی مہارت حاصل کر چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جنگ میں فاتح کون ہوگا۔ اس انتخاب میں دلی کے عوام کی سیاسی پختگی کا بھی بطور خاص امتحان ہوگا کہ جس پارٹی کا بھی انتخاب کریں گے، کیا وہ انہیں ایسی پرامن دلی مہیا کرا پائے گی جہاں تعلیم و ترقی اور روزگار کے مسائل کا بہتر حل پیش کیا جاسکے؟ اس کے لیے ہمیں نتائج تک انتظار کرنا ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]