عبدالعزیز
تقریباً 40سال پہلے کی بات ہے کہ راقم محض اتفاق سے ایک دولت مند امیر کبیر کی محفل میں موجود تھا۔ کچھ دیر میں ان کا ایک ملازم جو ان صاحب کے پاس تیس برس سے کام کر رہا تھا، دست بستہ حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میرا بیٹا آج میٹرک کے امتحان میں درجہ اول سے کامیاب ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد انجینئرنگ کورس میں داخلہ لے۔ اس کے خیالات تو بہت اونچے ہیں لیکن میں غریب کہاں پڑھا سکتا ہوں۔ اگر آپ ماہانہ 30-35 روپئے وظیفہ جاری کر دیں تو یہ پڑھ کر انجینئر بن جائے گا۔ یہ سب سن کر صاحب کے چہرہ پر کچھ خفگی اور پریشانی کے آثار ابھر آئے۔ ان کیلئے یہ کوئی اچھی خبر نہیں تھی جبکہ خود ان کے لڑکے اس قابل نہیں تھے۔ اس ملازم کا لڑکا ریاضی میں 92 فیصد نشانات لایا تھا۔ صاحب نے اس کو مشورہ دیا کہ کہیں دفتر میں اس کو ملازم رکھ دو اور وظیفہ کی بات کو وہ ٹالنے لگے۔ وہ سراپا التجا بنا ہوا تھا اور لڑکا سہما ہوا تھا۔ یہ منظر اس بندہ سے دیکھا نہ گیا۔ ہمت کرکے مجھے درمیان میں کہنا پڑا۔ میں نے کہا دیکھئے؛ آپ بہت سے غریبوں کو ماہانہ چار پانچ سو روپئے وظیفہ دیتے ہیں اور غریب لڑکیوں کی شادی میں مدد کرتے ہیں۔ یہ سب وقتی امداد ہے لیکن اس کے لڑکے کی تعلیم کیلئے مدد ایک ایسی نہر ہے جس کا فیضان برسوں تک نہیں بلکہ کئی نسلوں تک جاری رہے گا۔ اس قسم کی دخل در معقولات پر صاحب نے مجھے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا ، پھر کیا سمجھے کہ کہا اچھا دو سال کیلئے ماہانہ بیس روپے وظیفہ جاری کردیں گے۔ اس زمانہ میں یہ بہت بڑی رقم تھی۔ وہ طالب علم انٹرمیڈیٹ کی بجائے پالی ٹیکنیک میں شریک ہوکر پھر درجہ اوّل سے کامیاب ہوگیا۔ اس کو انجینئرنگ کے دوسرے سال میں داخلہ مل سکتا تھا لیکن وظیفہ بند ہو جانے سے اس کی ترقی کی شاہ راہ پر دیوار کھڑی ہوگئی۔ وہ بہت تلملایا لیکن کچھ نہ ہوسکا۔ بالآخر انھیں ریلوے میں ملازمت مل گئی۔ اس لڑکے کی ذہانت اور ملازمت سے متاثر ہوکر صاحب نے اپنی لڑکی سے اس کی شادی کر دی۔ وہ ترقی کرکے ریلوے کے انجینئر بن گئے۔ ان کے بچے میڈیسن اور انجینئرنگ میں پہنچ گئے۔
آپ نے مرزار فرحت اللہ بیگ کا مضمون ’’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی، میری زبانی‘‘ ضرور پڑھی ہوگی۔ نذیر احمد اپنی غربت کی وجہ سے بچپن میں دہلی کی کسی مسجد میں مولوی صاحب کی خدمت میں رہ گئے۔ روزانہ پڑھنے کے علاوہ محلہ کے کسی رئیس کے گھر سے کھانا لانے کی ذمہ داری ان ہی پر تھی۔ جب وہ اس رئیس کے مکان جاتے تو نواب صاحب کی ایک چھوٹی صاحبزادی شرارت سے ان کے کان پکڑ کر چٹنی اور مصالحے پیسنے کیلئے نذیر احمد کو بٹھا دیتی۔ چند ہی برسوں میں ان کے علم و فضل کی دہلی میں دھوم مچ گئی۔ اسی لڑکی سے ان کی شادی ہوئی جو ان کے کان کھینچتی اور ستاتی تھی۔ اس قسم کی مثالیں آپ کو اپنے اطراف و اکناف میں خود آپ کے خاندان میں مل جائیں گی اور کوئی تعجب نہیں کہ اس مضمون کے اصل ہیرو آپ بھی ہی ہوسکتے ہیں۔ ہر سماج کی طرح مسلم معاشرہ میں تین طبقات موجود ہیں۔ غربت کی سطح سے نیچے، اوسط اور بالائی طبقہ، غریب طبقہ کا اوسط 40فیصد ہوگا۔ انھیں اپنے بچوں کو پڑھانے لکھانے کا خیال ضرور ہے لیکن پنڈت نہرو کی زبان میں پہلے پیٹ بھر جائے تو غریب تعلیم کی سوچ سکتا ہے۔ گزشتہ بیس برسوں میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ وہ یہ کہ غریب، امیر ہر شخص اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے فکرمند ہے۔ یہ خوشگوار تبدیلی ایک انقلاب کی آمد کی آہٹ سے کم نہیں۔ بہت سے غریب ماں باپ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے خواہشمند ہیں۔ دوسرا اوسط طبقہ ہے اور اسی طبقہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر، انجینئر آرہے ہیں۔ اس کیلئے بھی یہ طبقہ بہت قربانیاں دے رہا، جو بالائی طبقہ ہے ہمارے معاشرہ کا دس فیصد ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کیلئے تعلیم کو بھی کسی تجارتی مال کی طرح خرید سکتا ہے، کیونکہ تعلیم بھی ایک انڈسٹری میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اعلیٰ تعلیم صرف انہی کو ملنی چاہئے جن میں ذہانت، صلاحیت اور اس کے حصول کا جذبہ ہو لیکن آج کل دولت اور پیسہ نے تعلیم کی بنیادی قدروں کو پامال کر دیا ہے۔ جس کو ڈاکٹر بننا تھا وہ کلرک یا ٹیچر ہے اور جس کو یہی ہونا تھا وہ ڈاکٹر یا انجینئر ہے۔ اس میں قوم کا عظیم نقصان ہے۔ ان میں غریب اور ذہین طلبہ اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم کے پوری طرح مستحق ہونے کے باوجود داخلہ فیس اور تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ اس لئے ان کی محرومیاں ان کے ذہنی اور روحانی کرب کو اور زیادہ کر دیتی ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان سے بہت پیچھے کے رینک پانے والے خانگی کالجوں میں نشستیں حاصل کرکے انجینئر، ڈاکٹر وغیرہ بن گئے ہیں۔
یہاں در اصل ہمارا اصل مقصد یہی ہے کہ ملت کا یہ زرخیز سرمایہ یونہی بنجر نہ رہ جائے۔ ہمارے لیڈر، دانشور اور علمائے دین نے اس اہم نقصان پر آج تک بہت کم توجہ دی ہے۔ ہمارے اطراف ایسے بہت سے غریب ذہین طلبہ ہیں جنھیں مرجھاتے بجھتے سب ہی نے دیکھا ہے۔ سارے ہندستان میں مسلم انتظامیہ کے تحت اسکول، کالجز، اعلیٰ پیشہ ورانہ کالج، میڈیسن، انجینئرنگ، فارمیسی، ایم بی اے، کمپیوٹر کورسز، کالجز آف ایجوکیشن، پالی ٹیکنک کھل گئے ہیں جو قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ وقت کا عین تقاضہ ہے کہ ہم ایسے غریب ذہین طلبہ کیلئے پالیسی کے طور پر کم از کم پانچ فیصد کی حد تک نشستیں محفوظ کر دیں۔ جب ہم مرکزی حکومت سے ملازمتوں اور اعلیٰ فنی کالجوں میں مسلم آبادی کے لحاظ سے نشستیں محفوظ کرنے کی مانگ کر رہے ہیں تو ہمارا یہ مطالبہ خود اپنے تعلیمی اداروں میں نا واجبی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ دراصل ملت کی بہترین خدمت ہے جس کی طرف سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری تعلیمی کوششوں میں ایک نئی انقلابی تبدیلی آجائے گی جس کے نتائج دس پندرہ برسوں میں بہت اچھے ہوں گے۔
Radiance جون، جولائی 1998ء کے شمارہ میں پروفیسر شاہ منظور عالم کا ایک قابل قدر مضمون ’’اقلیتوں کے مسائل‘‘ سے متعلق شائع ہوا ہے۔ اس میں تعلیم کے عنوان کے تحت موصوف نے مسلم انتظامیہ کے تعلیمی اداروں کی بے حسی اور حرص و آز کو پوری طرح آشکار کیا ہے۔ یہ تعلیمی، فنی ادارے اصل میں مسلمانوں کے نونہالوں کی خدمت کے نام سے قائم کئے جاتے ہیں، لیکن وہ تعلیم کو فروخت کر رہے ہیں، غریب ذہین طلبہ کو میریٹ کی بنیاد پر انھیں داخلہ نہیں ملتا۔ یہ ادارے دولت مند طبقہ کی خدمت کیلئے قائم ہوئے ہیں جو تعلیم کو مارکیٹ میں اور اشیاء کی طرح اپنے بچوں کیلئے اونچے دام پر خرید سکتے ہیں۔ یہ ادارے آج بھی مسلمانوں کے غریب طبقہ کو غریب ہی رکھنے کا کام کر رہے ہیں، چاہے ان میں کوئی قابل جوہر ہی کیوں نہ ہو۔ انھیں اوپر آنے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ ملت کی خدمت کے نام سے یہ بدخدمتی اور بے انصافی اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے۔ یہی مسلم قائدین مرکز اور ریاستی سرکاروں سے مسلمانوں کو ملازمتوں اور اعلیٰ فنی تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کی مانگ کرتے جارہے ہیں لیکن خود اپنے تعلیمی اداروں میں غریب، معاشی لحاظ سے پسماندہ، ذہین اور میریٹ طلبہ کو کسی طرح داخل نہیں ہونے دیتے اور نہ کوئی حقیر ترین فیصد کوٹہ ان کے داخلے کیلئے رکھا گیا ہے۔ یہ مذموم اور قابل افسوس صورت حال سارے ملک کی مسلم انتظامیہ کی سننے میں آتی ہے۔ کاش! مسلم انتظامیہ سچی خدمت کے جذبہ سے ان غریب ذہین طلبہ کے درخشاں مستقبل کی جانب سنجیدگی سے عملی قدم اٹھائے تو یہ بدنصیب اپنے لئے معاشرہ میں قابل احترام جگہ بنا سکتے ہیں۔
آخر میں مولانا سید سلیمان ندوی کی یہ بات دہرانے کو جی چاہتا ہے کہ ایک غریب طالب علم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کردو تو پھر اس کی دوسری تیسری نسل میں کوئی غریب باقی نہیں رہے گا۔ بھارتیؔ، تمل زبان کا علامہ اقبال کی طرح قومی شاعر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہزار مندروں کی تعمیر، تالاب اور سرائے بنانا ضرور ثواب کے کام ہیں لیکن ان سب سے بڑا کام ایک غریب بچہ کو تعلیم سے سنوارنا ہے۔
٭٭٭