راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی جیت نے تمام مبصروں، تجزیہ نگاروں کے اعدادوشمار کو غلط ثابت کردیا۔ اگرچہ مذکورہ بالا تینوں ریاستوں میں بی جے پی نے شاندار طریقے سے انتخابی سیاست پر اپنی بالادستی کو ایک بارپھر ثابت کردیا ہے مگر تلنگانہ میں کانگریس نے جوکامیابی حاصل کی ہے اس کو بھی کئی زاویوں اور پہلوئوںسے دیکھا جارہا ہے۔ ایک بڑے طبقے کی رائے یہ ہے کہ جنوبی ہندوستان میں بی جے پی کے مقابلے میں کانگریس کو بہتر کارکردگی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ پچھلے دنوں کرناٹک میں بی جے پی کی شکست اور شاندار طریقے سے کانگریس کی سرکار کا بننا بڑا کارنامہ سمجھا جارہا تھا۔ اس کے بعد کانگریس پارٹی میں بھی کافی اعتماد آیا تھا اور کہا جارہا تھا کہ پڑوسی ریاست تلنگانہ میں بھی کانگریس پارٹی اپنی جیت اسی طریقے سے درج کرائے گی۔ اس کے برخلاف بی جے پی کو شمالی ہندوستان کی ’کائوبیلٹ‘ سمجھی جانے والی تین ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں جیت پر زبردست حیرت کا اظہار کیا جارہا تھا۔خاص طورپر چھتیس گڑھ میں تو کانگریس پارٹی نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اس کو لے کر بالکل بھی تردد نہیں تھا۔ چھتیس گڑھ میں کانگریس پارٹی نے جو سوشل نیٹ ورکنگ کی تھی اور خود اندر کی خانہ جنگی کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی اس کومدنظررکھتے ہوئے بھی نہ صرف یہ کہ پارٹی قیادت اور سیاسی مبصرین بڑی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، مگر ہوا اس کے بالکل برعکس۔ چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ بی جے پی کا ایک پرانا چہرہ تھے مگر ابھی تک یہ بات طے نہیں ہوسکی ہے کہ وہاں لیڈرشپ میں کوئی تبدیلی ہوگی تو کیا ہوگی؟ خاص طور سے ایسے حالات میں جب کئی لیڈر اپنی دعویداری بالواسطہ طورپر پیش کر رہے ہیں۔ چھتیس گڑھ کے علاوہ مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس کی شکست نے پارٹی کے کیڈر کے حوصلوں کو پست کیا ہے اور وہ لوگ جوکہ امیدلگائے بیٹھے تھے کہ 2019 میں جس طریقے سے کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا اس سے عوام میں ناراضگی ہے، مگر ہوا اس کے بالکل برعکس۔
مدھیہ پردیش میں کانگریس میں بہ ظاہر کسی قسم کا خلفشار نہیں تھا اور بڑے لیڈر خاص طورپر دگ وجے سنگھ اورپارٹی صدر کمل ناتھ زبردست تال میل، اتحاد اور منظم طریقے سے کارکردگی ادا کر رہے تھے۔ دونوں کی آپس کی جگل بندی نے جیوتی رادتیہ سندھیاکے اخراج سے پیدا ہونے والے خلا کو بھی کسی حد تک بھر دیا تھا، مگر بی جے پی کی جارحانہ حکمت عملی نے کانگریس کی مضبوط تنظیم اور قیادت کو ایسا پچھاڑا کہ کانگریس پارٹی کے ہوش اڑ گئے۔ اب خبریں یہ ہیں کہ کمل ناتھ کے بارے میں مرکزی قیادت شاید کوئی فیصلہ لے لے۔ خاص طورپر ان سے ریاستی کانگریس پارٹی کی قیادت واپس لی جاسکتی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں کچھ اس قسم کی خبریں گشت کر رہی ہیں کہ کمل ناتھ خود اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عہدے سے دستبرداری کی پیش کش کرچکے ہیں۔ پچھلے دنوں کمل ناتھ نے کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے سے ملاقات کی تھی مگر اس ملاقات میں اس ضمن میں کوئی بات ہوئی یا نہیں اس بابت کوئی واضح سگنل نہیں آیا ہے۔
ادھر بی جے پی نئے وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے چہرے کی تلاش کر رہی ہے اور اس بات کا غالب امکان ہے کہ شیوراج سنگھ چوہان جوکہ 18سال تک بی جے پی کے وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے اس مرتبہ وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز نہ ہوں۔ ویسے بھی مدھیہ پردیش میں اتنے طویل عرصے تک اتنے اہم عہدے پر فائز رہنے والے لیڈر کے بارے میںکہا جارہا ہے کہ وہ زیادہ کام کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ شاید اس جواز کے پس پشت ان کو آرام دینے کی صلاح دی جارہی ہے۔ ریاستی الیکشن میں بی جے پی نے اینٹی انکمبینسی لہر کا مقابلہ کرنے کے لئے مرکز کی مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والی پوری قیادت کو سرگرم کردیا تھا۔ بی جے پی کے تقریباً ایک درجن ممبران پارلیمنٹ نے سارا کام کاج چھوڑکر ریاستی الیکشن پوری طاقت جھونک دی۔ اگرچہ کئی لیڈر اس طریق کار سے ناخوش دکھائی دیے ، مگر مرکزی قیادت کے حکم کے آگے خودسپردگی کردی۔ یہ تجربہ کافی کامیاب رہا اوراس کے نتائج بالکل سامنے تھے۔ 18سال کی اینٹی انکمبینسی کو جس سیاسی حکمت عملی کے تحت کنٹرول کیا وہ غیرمعمولی تھی۔ بی جے پی نے ریاست کی سرگرم لیڈرشپ جومختلف گروپوں میں بٹی ہوئی تھی وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت کی مدد سے اس پر قابوپالیا۔ بی جے پی نے کسی بھی شخص کو وزیراعلیٰ کا چہرہ نہیں بنایا اوراس کی وجہ سے مرکز سے طلب کئے گئے لیڈر اور ریاست میں سرگرم پارٹی کی مشینری نے بلاتامل اور اختلاف رائے کے کام کیا۔ اگرچہ کئی حلقوں میں یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ یہ تجربہ الٹا بھی ثابت ہوسکتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ جیت کانگریس کے لئے بھی سبق آموز ہے۔ کانگریس نے حد سے زیادہ اعتمادکا مظاہرہ کیا اور اپنے لیڈروں کو مبارک باد دینی شروع کردی۔ اس سے پارٹی کو نقصان پہنچا اور کیڈر ڈھیلا پڑ گیا۔
بہرکیف مدھیہ پردیش میں کون وزیراعلیٰ ہوگا اس بات پر ابھی فی الحال کوئی فیصلہ نظرنہیں آرہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مدھیہ پردیش جیسی ریاست جہاں سے بڑی تعداد میں لوک سبھا ممبران پارلیمنٹ آتے ہیں، 2024کے الیکشن میں کیا یہی رجحان برقرار رہے گا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس صورت حال سے بی جے پی کیا سبق لیتی ہے اور کانگریس کس حد تک اپنی خامیوںکی اصلاح کرتی ہے۔
راجستھان میں گزشتہ 5سالوںمیں گہلوت سرکار نے عوامی سطح پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بہت اچھے عوامی فلاح کے اعلانات کئے۔ ان کو عملی جامہ پہنایا، بجٹ میں جو سفارشات اور التزامات کئے گئے تھے ان کا اثر بھی دیکھا گیا، مگر ان تمام چیزوں پر کانگریس کا اندرونی خلفشار زیادہ حاوی رہا۔ ساڑھے چار سال تک کانگریس پارٹی کے لیڈر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے آپ کو اعلیٰ اور پاک صاف ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت کی بیان بازیوں نے نہ صرف یہ کہ پارٹی کے کیڈر کو خراب کیا بلکہ پارٹی مخالف اور بی جے پی حامی لیڈروںکو بھی متحد کیا۔ عوام شاید کانگریس کی اسکیموںکو یاد رکھنے میں کامیاب نہیں رہے۔ راجستھان میں کانگریس کے ساتھ بی جے پی بھی اندرونی خلفشار کا شکار رہی ہے۔ مدھیہ پردیش کے ساتھ راجستھان میں بھی کانگریس کی حکومت کو بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تھی، مگر اشوک گہلوت کی چالاکی اور دوراندیشی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوپایا تھا۔ سیاسی حلقوں میں اس بات پر بھی گفتگو ہوتی رہی کہ وسندھرا راجے کی حمایت اشوک گہلوت کو رہی ہے، جس کی وجہ سے وسندھرا راجے کے حامی ممبران اسمبلی نے اس وقت بی جے پی کی پولٹیکل انجینئرنگ میں ساتھ نہیں دیا اور اشوک گہلوت اپنی حکومت بچاگئے۔ اسمبلی الیکشن سے قبل بھی وسندھرا راجے سندھیا نے مرکزی قیادت کو زبردست چیلنج سے دوچار کرایا۔ بی جے پی نے راجستھان میں 109سیٹیں جیت کر کانگریس کے سارے منصوبوں کو ملیامیٹ کردیا۔ شاید کانگریس چاہتی تھی کہ اس مرتبہ اشوک گہلوت کو مرکز میں بڑا عہدہ دے دیا جائے اور پائلٹ کو وزیراعلیٰ بنا دیا جائے مگر سوال یہ تھا کہ جس لیڈر کی قیادت میں الیکشن جیتا جاتا تو کوئی بھی پارٹی ایسے لیڈر کو کیسے نظرانداز کرسکتی تھی۔ شاید یہی بات سچن پائلٹ کی برادری کے ووٹروںمیں تھی اور کچھ حلقوں میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اوبی سی کی کچھ برادریوں نے اسی اندیشے کے پیش نظر کانگریس کو ووٹ دینے میں تامل کیا اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ وسندھرا راجے سندھیا ابھی بھی مرکزی قیادت کے لئے بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد تمام بی جے پی ممبران اسمبلی اور خاص طورپر وہ لوگ جوکہ وزیراعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہیں، اپنے اپنے حمایتیوں کے ساتھ سرگرم ہیں۔ وسندھرا راجے سندھیا مسلسل ممبران اسمبلی سے بات چیت کر رہی ہیں۔ ان کی یہ بات چیت مرکزی قیادت کی طرف سے تھوپی جانے والی کسی بھی قیادت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔ وسندھراراجے سندھیا کتنی بااثر ہیں اس کا اندازہ مرکز کی بی جے پی قیادت کو اچھی طرح ہے۔ کئی باوثوق ذرائع کے مطابق وسندھرا کے پاس کم از کم 30ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ یہ حمایت غیرمعمولی ہے اور بی جے پی کے لئے بہت بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔ وسندھرا راجے کے سوا ممبرپارلیمنٹ دیاکماری بھی وزیراعلیٰ کی ریس میں ہیں۔ دیاکماری راجستھان کے رجواڑوںمیں سے ایک ہیں۔ کئی حلقوں میں ان کو وسندھر اراجے کے مقابلے میں ایک بڑے لیڈر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دیاکماری نے ودیادھر اسمبلی حلقے سے الیکشن لڑا تھا اور وہ جیت بھی گئی تھیں۔ ان کی جیت وسندھرا کے لئے کتنا بڑا چیلنج ہوگی یہ آنے والے ایک دو دن میں صاف ہوجائے گا۔
اس کے علاوہ بی جے پی کے وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے ایک اور بڑا نام مرکزی وزیربرائے آبی امور گجیندرسنگھ شیخاوت کا ہے۔ شیخاوت جودھپورکے علاقے میں بڑا اثرورسوخ رکھتے ہیں اور اشوک گہلوت کے زبردست حریف سمجھے جاتے تھے۔ شیخاوت کے بارے میں یہ بھی کہاجارہا تھا کہ وہ اشوک گہلوت حکومت کومعزول کرنے میں کافی سرگرم تھے اوراس بابت ایک ٹیلی فون ریکارڈنگ بھی تھی جس پر تفتیش ہورہی تھی۔
اس طرح اشوک گہلوت اور گجیندرسنگھ شیخاوت کے درمیان کی نوک جھوک نے ریاست کی سیاست کو کافی حد تک متاثر کیا۔ راجستھان میں بی جے پی کے کئی لیڈر بڑی برادریوںکی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ برادریاں ریاست کے سیاسی سماجی تانے بانے میں پیوست ہیں۔ اسی طریقے سے راج گھرانے بھی مختلف پارٹیوں کی سرپرستی میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں، مگر وسندھرا راجے ان سب پر حاوی اور غالب ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن شاندار طریقے سے جیتنے کے بعد بی جے پی وسندھرا راجے سندھیا کا چیلنج کس انداز سے ختم کرے گی یاوسندھرا کو وزیراعلیٰ بناکر اس جھنجٹ سے نجات حاصل کرلے گی۔ مگر اس کا امکان کم ہی ہے کہ مرکزی قیادت وسندھرا راجے سندھیا کے سامنے سپر ڈال دے۔ ٭٭٭
بی جے پی کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہوگی؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS