نوح کا زخم کون بھرے گا؟: پروفیسر عتیق احمد فاروقی

0

پروفیسر عتیق احمدفاروقی
اب اس امر سے سبھی متفق ہیں کہ موجودہ وقت میں ہمارے ملک کا فرقہ وارانہ ماحول جتنا زہر آلود ہے، اتنا آزاد ہندوستان میں پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہاں بات فرقہ وارانہ فسادات کی تعداد یا ان فسادات میں مرنے والوں کی تعداد کی نہیں ہورہی ہے۔ فسادات تو پہلے بھی ہوئے ہیں اوراس کے سبب ملک کے شہری پہلے بھی فوت ہوئے ہیں۔ یہاں اصل مدعہ یہ ہے کہ سب کچھ حکمراں جماعت کے ذریعے اوراس کی شہ پر دومقصد سے ہورہاہے: اول ، اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے اوردوئم ، ہندور اشٹریہ کے ایجنڈا کو پائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے ایک مخصوص نظام فکر کی تشہیر کی گئی۔ عام عوام کو گمراہ کیاگیاکہ اگر مسلمانوں کو کنارے نہیں لگایاگیاتو وہ ملک کے اکثریت طبقے کا جینا دوبھر کردیں گے اورہندوراشٹراکا خواب پورا نہیں ہوپائے گا۔ ہماری بھولی عوام ان باتوں میں آگئی اورنتیجتاً 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی فتحیاب ہوئی اورمستقبل کے پارلیمانی انتخاب کیلئے ملک کے تمام علاقوں میں فسادات کراکر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ منافرت پیدا کی جارہی ہے تاکہ ملک مکمل تقسیم ہوجائے اوراکثریتی فرقہ کے سارے کے سارے ووٹ بی جے پی کو حاصل ہوجائیں، لیکن اس سے ملک کو جونقصان پہنچاہے اوربین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی ساکھ میں جو گراوٹ آئی ہے اس کی تلافی کم ازکم مستقبل قریب میں تو ممکن نہیں ہے۔
ریزرویشن کے مسئلے کو لے کر میتئی اورکوکی فرقوں کے بیچ تصادم کے سبب منی پور جل رہاہے۔ ہریانہ کے نوح میں وشو ہندو پریشد اور ’ماتر شکتی درگاواہنی ‘کی طرف سے نکالی جانے والی برج منڈل یاترا کے دوران 31جولائی کو ہنگامہ ہوا اورتشدد بھڑک اٹھا۔اسی فساد کا شاید اثر تھا کہ خبرملی کہ آرپی ایف کے ایک جوان کے ہاتھوں تین مسلمانوں سمیت چار افراد کا وحشیانہ قتل ہوا اوراس واردات نے ملک کے ہر حساس اورصحیح سوچ رکھنے والے شخص کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ کہاجاتاہے کہ چیتن سنگھ نامی اس سیکورٹی جوان نے جے پور سے ممبئی جانے والی ایکسپریس ٹرین میں اپنی سروس رائفل سے یہ واردات انجام دی تھی۔ اب اس کانسٹبل کو بچانے کیلئے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ اس کادماغی توازن درست نہیں تھا، لیکن اس نے واردات انجام دینے کے بعد ، جیسا کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پتہ چلا ،جو باتیں کیں وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ مکمل طور پر نارمل تھا۔ اول تو اس نے اپنے ساتھی اے ایس آئی کو مارنے کے بعد تین مسلمانوں کی شناخت کرکے گولیاں چلائیں اورپھرکہا کہ ’’یہ لوگ پاکستان سے آپریٹ ہوتے ہیں ۔ میڈیا سب کچھ دکھارہاہے۔ اگرہندوستان میں رہناہے اورووٹ دیناہے تومودی اوریوگی ہی دوہیں ۔‘‘اس کے ذہن میں کس قدر مسلمانوں کے خلاف زہر بھراہواہے، اس کی مذکورہ باتوں سے عیاں ہوتی ہیں۔ ہریانہ کے گرو گرام میں نہ صرف ایک مسجد نذرآتش کی گئی بلکہ مسجد کے نائب امام حافظ قرآن مولانا سعد کو ظالموں نے شہید کردیا۔ ان کی عمر صرف 19سا ل تھی ۔ان واقعات سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ ہندوستان تباہی کے دہانے پر پہنچ گیاہے ؟۔
نوح کا واقعہ گودی میڈیا جس انداز میں پیش کررہاہے اس سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ سارا قصور مسلمانوں کاہے۔ دراصل دونوں گروپوں میں تصادم کے بعد تین درجن سے زائد گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔پولیس پر بھی پتھراؤ کیاگیا،جس میں کئی لوگ اورپولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ گولی لگنے سے چھ افراد کے موت کی بھی اطلاع ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ برج منڈل یاترا نوح کے نلہرشیومندر سے فیروز پور- جھرکاکی طرف شروع ہوئی ۔ جیسے ہی یہ یاترا مسلمانوں کے علاقے ترنگاپار ک کے قریب پہنچی۔ لوگوں کا ایک گروپ پہلے سے ہی وہاں جمع تھا۔ جیسے ہی وہ آمنے سامنے آئے دونوں فریقوں کے درمیان جھگڑا ہوا اورجلدہی پتھراؤ شروع ہوگیا۔ اس طرح 31جولائی کی سہ پہر پہلا تشدد ترنگاپارک کے قریب ہوا،جس نے کچھ ہی دیر میں پورے نوح شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اوربڑی تعداد میں گاڑیاں اوربائیک نذرآتش کردی گئیں۔ تشدد شروع ہونے کے فوراً بعد قریبی دیہی علاقوں سے نوجوانوں کے مختلف گروپ، جن کا تعلق اکثریتی فرقہ سے تھا، نوح شہر کی طرف مارچ کرنے لگے ۔ ہتھیاروں سے لیس ان افراد نے بھی راستے میں آنے والی گاڑیوںکی توڑ پھوڑ کی اورلوٹ مار کی ۔ شرپسندوں نے کئی مقامات پر پولیس ٹیموں پر بھی حملہ کیا۔یہ تشدد گرو گرام تک پھیل گیا۔ دنگائیوں کی شرارت سے متعلق کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ دراصل اس تشدد کا ماحول ایک دن قبل ہی بنایاجاچکاتھا۔ گئورکشک (مونومانیسر جس پر راجستھان کے بھرت پور کے رہنے والے نوجوانوں ناصر اورجنید کو ان کی کار کے اندر زندہ جلادینے کاالزام ہے )نے ایک ویڈیو جاری کیاتھا اورنہ صرف اس یاترا میں شامل ہونے کی صلاح دی تھی بلکہ اکثریتی فرقہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایابھی تھا۔ ناصر اورجنید کے قتل کاواقعہ کئی ماہ پراناہے۔ اگرپولیس اسے وقت سے گرفتار کرلیتی تو شاید نوح کاتشدد نہ بھڑکتا۔
بہرحال یہ بات واضح ہے کہ تشدد کے واقعات ملک کے حکمرانوں کی نفرت کی سیاست کا نتیجہ ہے۔ نوح وگروگرام کا یہ فساد پہلے سے منصوبہ بند تھا، جس کا اعتراف نہ صرف ہریانہ کے وزیرداخلہ اوروزیراعلیٰ کرچکے ہیں بلکہ کشمیر کے سابق گورنر اوربی جے پی کے معتمد ستیہ پال ملک کابیان بھی حکومت کی پول کھولنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ اپنے ایک پروگرام میں انہوں نے کہاکہ نوح کا فرقہ وارانہ تشدد منصوبہ بندتھا، اگردنگائیوں پر قابو نہیں پایاگیا تو پورا ملک منی پور کی طرح جل جائے گا۔ وہ تو اچھا ہواکہ نوح کے جاٹ اورگوجر نے دنگائیوں کا ساتھ نہیں دیا اوروہ مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے جس سے فساد نے منی پور کی شکل نہیں اختیار کی۔ افسوسناک خبریہ ہے کہ نوح کی یاترا پر ایک طبقہ کے ذریعہ حملے کا الزام ہے، جبکہ 31جولائی کے بعد چاردنوں تک اسی طبقے پر حملے اوریکطرفہ گرفتاریاں کی جاری ہیں اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ سپریم کورٹ کے سبکدوش ججوں کی ایک جانچ کمیٹی تشکیل کرے اوران سارے تشدد کے واقعات کی منصفانہ اورغیرجانبدار انہ جانچ کرائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS