صبیح احمد
مہاراشٹر کا سیاسی کھیل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ فی الحال اس کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ کم از کم آئندہ سال کے لوک سبھا انتخابات سے قبل تک تو قطعی نہیں۔ بی جے پی اس وقت تک ریاست کے سیاسی کھلاڑیوں کو تاش کے پتوں کی طرح پھینٹتے رہے گی کیونکہ مقامی سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کے اندر انتشار ہی اس کے مفاد میںہے۔ ریاست میں جتنی سیاسی غیریقینی کی صورتحال ہوگی، بی جے پی کو ریاست میں خود کو مضبوط کرنے میں اتنی ہی مدد ملے گی۔ یہ صورتحال پیدا کردی گئی ہے اور بی جے پی اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے جیسے قدآور لیڈروں کو کف افسوس ملنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ وہ ان ناساز گار حالات سے خود کو باہر نکالنے میں کس حد تک کامیاب ہوپاتے ہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اب یہ خبر آ رہی ہے کہ شندے کابینہ کے 4 وزرا کی چھٹی ہونے والی ہے۔ یہ چاروں بی جے پی کے کوٹے کے وزرا بتائے جا رہے ہیں۔ دراصل مہاراشٹر سرکار میں اجیت پوار گروپ کے این سی پی ارکان اسمبلی کی شمولیت کے بعد شندے کابینہ میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ این سی پی سے آنے والے نئے وزرا کو ایڈجسٹ بھی تو کرنا ہے۔
مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ہوا اور ہو رہا ہے، اس سے ملک میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ اپوزیشن اتحاد پر بھی اس کا اثر پڑنے کا خدشہ ظاہر کیاجا رہا ہے۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا این سی پی میں پھوٹ اور اجیت پوار کیمپ کے بی جے پی کے ساتھ جانے سے اپوزیشن اتحاد پر کوئی اثر پڑے گا؟ این سی پی میں پھوٹ کا فائدہ کس کو ہوگا؟ اس سے بی جے پی کو کیا ملا اور کیاملنے والا ہے؟ مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) کا مستقبل کیا ہے؟ اس طرح کے کئی سوالات لوگوں کے ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں۔ اکثر کانگریس پارٹی کے خلاف خاندان پرستی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ حالانکہ مخالفین کے اس الزام میں کتنا دم ہے، ایک الگ موضوع ہے لیکن جہاں تک سیاسی خاندان پرستی یا نسل پرستی کا سوال ہے، یہ صرف کانگریس تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہندوستان کی تمام علاقائی جماعتوں میں بھی کہیں نہ کہیں خاندان پرستی کا غلبہ ہے۔کہا جا رہا ہے کہ بالادستی کی لڑائی ہمیشہ سیاسی خاندان میں ہوتی ہے، اس لیے یہ علاقائی جماعتوں میں تقسیم کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ مہاراشٹر کے اندر شیوسینا اور پھر این سی پی میں پھوٹ کو بھی اس کی بڑی مثال کے طور پر پیش کیا جارہاہے۔ حالانکہ یہ واحد وجہ نہیں ہے۔ یہ سیاسی ہلچل اور افراتفری کا ماحول 2024 کے لوک سبھا اور پھر مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر پیدا کیاجا رہا ہے۔
دیکھا جائے تو کوئی بھی سیاسی پارٹی خاندان پرستی سے اپنے آپ کو پاک ثابت نہیں کر سکتی۔ بی جے پی میں بھی بہت اقربا پروری ہے۔ نچلی سطح سے لے کر مرکزی لیڈروں اور وزرا تک میں اس کی مثالیں مل جائیں گی۔ بی جے پی نے ہمیشہ خاندانی سیاسی پارٹیوں کا ساتھ دیا ہے اور ان کی پشت پناہی کی ہے۔ اکالی دل سے لے کر شیوسینا اور اب این سی پی تک بہت سی ایسی مثالیں ہیں۔ ایسے میں این سی پی کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے لیے خاندان پرستی کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ درحقیقت 2024 میں 2-3 ریاستوں میں بی جے پی کے لیے مشکلات پیدا ہوتی نظر آرہی ہیں۔ مہاراشٹر اور بہار ان میں اہم ہیں۔ مہاراشٹر میں شیوسینا اور این سی پی کی گرفت کافی مضبوط رہی ہے اور فی الحال یہ دونوں ہی پارٹیاں بی جے پی کو گھاس ڈالنے کو تیار نہیں ہیں۔ دونوں کو توڑ کر بی جے پی نے اپنی مشکلات کو بہت حد تک کم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ پہلے شیوسینا کے ساتھ تجربہ کیا اور اس میں جب کامیاب ہوگئی تو این سی پی کے ساتھ بھی یہ تجربہ دہرا دیا گیا۔ یہ سب 2024 کواپنے حق میں کرنے کی حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے۔ حالانکہ اعداد و شمار کے مطابق مہاراشٹر کی ایکناتھ شندے حکومت اپنی عددی طاقت کے حساب سے مضبوط ہوئی ہے لیکن این سی پی کے شامل ہونے سے بی جے پی اور شیوسینا اتحاد کے درمیان اندرونی کشمکش مزید بڑھ گئی ہے۔ یہ کسی بھی حکومت کے لیے پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے۔ اس سے حکومت کے کام کاج پر بھی اثر پڑتا ہے۔ فی الحال تو حکومت اوپر سے مضبوط ضرور نظر آ رہی ہے لیکن اندر سے کمزور ہے۔ این سی پی اور شیوسینا میں بغاوت کا اثر بی جے پی پر بھی پڑسکتا ہے۔ کرناٹک اس کی بہترین مثال ہے۔ کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی ایس کے باغی ارکان اسمبلی جو بی جے پی میں شامل ہوئے تھے، وہ تمام انتخابات ہار گئے۔ ایسے میں اگر انتخابات تک کوئی بڑا الٹ پھیر نہیں ہوتا ہے تو کرناٹک کی طرح مہاراشٹر میں بھی باغی ارکان اسمبلی کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
اجیت پوار اور شرد پوار کا رشتہ سیاسی کے ساتھ ساتھ خاندانی بھی ہے۔ شرد پوار ہی اجیت پوار کو سیاست میں لائے۔ اسے بیٹے کی طرح آگے بڑھایا، لیکن اجیت اولوالعزم نکلا۔ شرد پوار نے اجیت پوار کے ارادوں کو بھانپ لیا تھا۔ شاید انہوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اگر اجیت کو صدر بنایا گیا تو وہ پوری پارٹی کو اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔ سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے مفاد پرستی اور خود غرضی بہت اہم ہوتی ہے۔ خود شردپوار کا کریئر بھی دھوکہ اور خودغرضی کی بنیاد پر ہی آگے بڑھا ہے۔ شرد پوار نے ہمیشہ اسی طرح کی سیاست کی ہے۔ انہوں نے کبھی اخلاقی بنیاد پر سیاست نہیں کی۔ ایسے میں اخلاقیات کی بات کرنا بے معنی ہے۔ بی جے پی کو این سی پی کی ضرورت بھی تھی کیونکہ شندے گروپ کی قیادت والی شیوسینا کے ساتھ اتحاد کے بعد بہت کچھ بدل گیا ہے۔ بی جے پی کے سروے کے مطابق ایکناتھ شندے کے ساتھ جانے سے بی جے پی کو نقصان ہو رہا ہے۔ ایسے میں بی جے پی شندے کا متبادل چاہتی تھی۔ اجیت پوار کی آمد جہاں ایکناتھ شندے کے لیے ایک پیغام ہے، وہیں دوسری طرف بی جے پی نے شرد پوار پر نکیل کسنے کی بھی کوشش کی ہے۔
مہاراشٹر کی سیاست میں مداخلت کرکے امت شاہ نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ دہلی سے فیصلہ کریں گے کہ مہاراشٹر میں کیا ہوگا؟ لیکن مہاراشٹر کے لوگ اسے کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ عوام نہیں چاہیں گے کہ دہلی میں بیٹھا کوئی مہاراشٹر کو چلائے۔ مہاراشٹر میں پہلے شیو سینا اور پھر این سی پی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی وجہ سے بی جے پی کو نقصان اٹھانا پڑے گا اور اب بھی نقصان ہو رہا ہے۔ شیوسینا میں تقسیم کے بعد سے ریاست میں اب تک بی جے پی ایک بھی الیکشن نہیں جیت سکی ہے۔ جب مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے تو دائیں بازو کی تنظیم مضبوط ہوتی نظر آئی تھی۔ شیو سینا اور بی جے پی نے جیت حاصل کی تھی۔ لیکن دائیں بازو کی شیوسینا نے این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنالی۔ اب بی جے پی نے بھی این سی پی کی مدد لی ہے۔ ایسے میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ دائیں بازو کی سوچ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اس پورے سیاسی کھیل میں اگر شکست ہوئی ہے تو یہ دائیں بازو کے نظریہ کی ہوئی ہے۔ بہرحال موجودہ سیاسی صورتحال میں بی جے پی مخالف ووٹروں کے سامنے متبادل کے طور پر صرف اور صرف کانگریس ہی ابھری ہے۔ اب کانگریس کے لیے امکانات بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔
[email protected]