عبدالماجد نظامی
جس طرح مکان کی اہمیت مکین کی وجہ سے ہوتی ہے، اسی طرح کسی بھی ملک کا اصل مقام و مرتبہ وہاں کے لوگوں کی وجہ سے ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ زمین، پہاڑ، ندیاں، جنگلات و سبزہ زار سب کچھ بس اس لیے معتبر ہیں کیونکہ ان کا وجود انسانی بقاء کے ساتھ مربوط ہے۔ اگر انسانی زندگیاں ہی تباہ ہوجائیں تو پھر ان تمام چیزوں کی رونق اور ان کا حسن و جمال غارت اور بے قیمت ہوجائے گا۔ خدا نے یہ پوری کائنات کا وسیع نظام ہی اس لیے پھیلایا ہے تاکہ حضرت انسان کو یہاں قرار آئے اور اپنے خالق کا شکر گزار ہوکر مزید نعمتوں سے متمتع ہونے کا حق دار خود کو بنائے۔ اب یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک طرف تو اتنا شاندار مقصد تخلیق کون و حیات ہے اور دوسری طرف اسی بنی نوع انسان کو بے حیثیت و بے قیمت بلکہ ذلیل بنانے کی کوششیں وہ طبقہ کرتا ہے جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ان کی حفاظت کرے اور ان کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ ہم اپنے ملک عزیز ہندوستان میں شب و روز اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ نہایت قیمتی اور خوبصورت ہندوستانی زندگیاں تباہ کی جا رہی ہیں۔ کبھی سیاسی لیڈران سماج میں نفرت کا زہر گھول دیتے ہیں اور آپسی عداوت کے شعلہ اس حد تک بڑھا دیتے ہیں کہ مذہب و کلچر اور علاقائیت و سطحیت کے الگ الگ ناموں پر ایک ہندوستانی دوسرے ہندوستانی کا ایسا دشمن بن جاتا ہے کہ خونخوار درندے بھی ان کی حرکتوں کو دیکھ کر شرما جائیں۔ اسی درندگی میں گھروں کو نذر آتش کر دینا، عزت و آبرو کو تار تار کرنا اور زندگی کے تمام وسائل سے اپنے ہی ملک کے لوگوں کو محروم کردینا ان درندہ صفت انسانوں کے لیے عام بات بن جاتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اقتدار میں موجود طبقہ جو تمام طرح کی آسائشوں اور لذتوں میں عوام کے ذریعہ عطا کردہ پاور کے بل بوتے پر مگن ہوتا ہے، وہ کمزور طبقوں کا سہارا بننے اور انہیں بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرانے کے بجائے اپنی تنگ نظری اور بے غیرتی کا ثبوت دیتے ہوئے اسٹیٹ ذرائع مثلاً پولیس، نوکر شاہی اور عدلیہ تک کا غیردستوری ڈھنگ سے استعمال کرکے ہنستی کھیلتی زندگیوں کو پل بھر میں تباہ کر دیتا ہے تاکہ اس خاص طبقہ کو خوش کیا جاسکے جس کو پہلے نفرت کی غذا سے بلوان بنایا گیا ہے اور اب ہر وقت خوں ریزی و تشدد کے بغیر اس کا باقی رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ سیاسی قائدین سے مطلوب تو یہ تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو عوامی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھ نبھائیں اور انسانی کمزوریوں کی بناء پر اگر سماجی انتشار و ناچاقی کا کوئی دروازہ کھلتا ہے تو اس کو فوراً بند کریں تاکہ اعلیٰ انسانی قدروں کو پروان چڑھنے کا موقع ملے اور محبت و یکجہتی کی فضا قائم ہو۔ اس کے برعکس ارباب اقتدار کی عادت بن چکی ہے کہ وہ چنگاری کو شعلہ میں بدل دیتے ہیں اور ہر روز کہیں نہ کہیں اس شعلہ کا شکار ہندوستانیوں کا وجود ہوتا رہتا ہے۔ ہاتھرس میں دھرم کے جعلی ٹھیکہ داروں کی وجہ سے جو موت ہوئی، اس کا ذمہ دار بھی وہی سیاسی نظام ہے جس نے ملک کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصہ کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ جب ان بیکسوں اور مجبوروں کے سامنے تمام دروازے بند نظر آتے ہیں اور ایسے وقت میں اگر دھرم اور مذہب کے نام پر کوئی نیم خواندہ یا ڈھونگی اٹھ کھڑا ہوتا ہے جو ان کے دکھی دل و دماغ کو راحت کی امید دلا دیتا ہے تو یہ مغموم و نڈھال لوگ جذبات کے سمندر میں غرق ہوجاتے ہیں اور انجام کی پروا کیے بغیر ہی اصلی و نقلی کا فرق سمجھے بغیر خود کو باباؤں اور پیروں و فقیروں کے حوالہ کر دیتے ہیں۔ اگر ملک کے قائدین نے اپنی دستوری ذمہ داری نبھائی ہوتی، ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام کیا ہوتا، ان کے جسمانی و نفسیاتی علاج کے لیے معتبر ادارے قائم کیے ہوتے، ان کے تعلیم یافتہ بچوں کے روزگار کے لیے فکر مند ہو کر ان کا مناسب انتظام کیا ہوتا تو آج وہ تمام 100 سے زائد انسانی زندگیاں ہنس کھیل رہی ہوتیں جو بھگدڑ میں پسپا ہوکر ختم ہوگئیں۔ یہ مصیبت کے ستائے لوگ موت مانگنے کے لیے نہیں گئے تھے بلکہ وہ اپنی زندگی کو خوبصورت بنانے کا خواب اپنی معصوم آنکھوں میں سمائے ہوئے تھے اور ان خوابوں کی تعبیر ہی ڈھونڈنے کے لیے ایسے در پر چلے گئے تھے، جہاں ان کے پورا ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی لیکن چونکہ ہمارے ملک کے نظام میں گھن لگ گیا ہے اور اسی لیے لوگ اس کی طرف توجہ کرنے کے بجائے سراب کی طرف بڑھ جاتے ہیں جو دریا جیسی تصویر ان کے سامنے پیش کرتا ہے اور آخر کار بے دم ہوکر ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف ہاتھرس جیسے مذہبی جلسوں کے ہجوم اور وہاں پھیلی افراتفری کا شکار ہونے تک محدود نہیں ہے۔ کوٹہ اور دیگر تعلیمی دکانوں میں کم عمر اور نوجوان بچے اور بچیوں کی خود کشی کے لیے بھی یہی نظام ذمہ دار ہے۔ قدرتی آفات اس ملک میں ہر سال آتی ہیں لیکن ان کی روک تھام کے لیے کوئی پلاننگ نہیں کی جاتی جس کے نتیجہ میں بیشمار انسانی زندگیاں تباہ ہوتی ہیں، اس کے لیے بھی ہمارے ناکام سیاسی قائدین اور بے حس نوکر شاہوں کا عمل ہی ذمہ دار ہے۔ ان دنوں شمال مشرقی حصے بالخصوص آسام وغیرہ میں جو مسائل ہیں، ان کے لیے صرف ارباب اقتدار کی پالیسیوں کو ہی ذمہ دار مانا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ اسپتالوں، اسکولوں، انٹرٹینمینٹ کے مقامات اور فیکٹریوں میں جو آگ زنی کے واقعات پیش آتے ہیں، ان کے لیے سیدھے طور پر نوکروں اور افسر شاہوں کی لاپروائی بلکہ ان کا کرپشن زدہ مزاج اور طرز عمل ذمہ دار ہے۔ آئے دن گرتے پلوں، غیر مناسب سڑکوں، گھٹیا مواد سے بنی عمارتوں کے از خود زمیں بوس ہونے اور ہورڈنگس کے گرنے کی وجہ سے جو اموات ہوتی ہیں، ان کے لیے بھی ملک کی سیاسی قیادت اور نوکرشاہوں کا نکما پن ہی ذمہ دار ہے۔ جب تک ان تمام لوگوں کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی اور عوام کے سامنے ان کو بے نقاب نہیں کیا جاتا تب تک ان قیمتی ہندوستانی زندگیوں کے ضیاع کو روک پانا ناممکن ہوگا۔ اگر ان دو طبقوں کو ٹھیک کرلیاگیا تو اہل ثروت کے بے لگام اور اوباش شہزادوں کو راہ پر لانا آسان ہوجائے گا کیونکہ اہل ثروت کا غرور دراصل ایک کھوکھلے اور کرپشن زدہ سسٹم کے اندر ہی پروان چڑھتا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]