کہاں کھلے گا کمل، کہاں زور دکھائے گا پنجہ؟

0

مراق مرزا

سیاست کوئی شطرنج یاچوسر کا کھیل نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا خطرناک کھیل ہے جس میں تخت اقتدار کے لیے غریب عوام کو نظرانداز کرنا پڑتا ہے۔ سیاسی کھیل کی یہ صدیوں پرانی پرمپرا ہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ اس کھیل میں میڈیا بھی حصہ دار بن چکا ہے، اس لیے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کس پارٹی کا پلڑا بھاری رہے گا اور ہوا کا رخ کس کے حق میں ہے، اس کی تشہیر میں میڈیا کا رول ناقابل فہم نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ دو ایک چناؤ ہار جانے سے بی جے پی کے وجے رتھ کی رفتار پر کوئی اثرنہیں پڑنے والا ہے۔ دیش کی جتنا موجودہ حکومت کے9 برسوں کے کام کاج سے بہت خوش اور مطمئن ہے، چنانچہ تلنگانہ کو چھوڑ کر تین ریاستوں میں جیت تو بی جے پی کی ہی ہوگی لیکن بی جے پی کی ہی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے ترجمان ’آرگنائز‘ر میگزین میں چھپے مضمون میں کہاگیا ہے کہ اکیلے مودی کے نام پر اب چناؤ نہیں جیتے جا سکتے۔ گویا مودی کے نام کا جادو اب کمزور پڑنے لگا ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں یوپی میں بی جے پی کتنی سیٹیں جیت سکتی ہے اور کتنی سیٹوں پر وہ کمزور نظر آ رہی ہے، اس بات کا اشارہ بھی کیاگیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ 80 میں سے 40 سیٹیں بی جے پی جیت سکتی ہے جبکہ دیگر 40 سیٹوں پر اس کی جیت یقینی نہیں ہے۔ اگرچہ دلّی میونسپل الیکشن، ہماچل پردیش اور کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج سے یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ ملک کی سیاست دھیرے دھیرے محور بدل رہی ہے اور ہوا نے اپنا رخ اہل اقتدار کی جانب سے موڑنا شروع کر دیا ہے۔ باآنکہ بی جے پی کے بڑے لیڈروں کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی ہار آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ وہ اپنی ہار کے درد یا زخم کو چہرے پر عیاں نہیں ہونے دیتے اور فوراً کسی دوسری ریاست میں متوقع انتخاب میںجیت کا ڈنکا اتنے زور شور سے بجانے لگتے ہیں کہ ان کی ہار کی خبر اس شوروغل میں دب جاتی ہے مگر اب منظرکچھ اور اشارے دے رہاہے۔ گزشتہ 9 برسوں سے مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے۔ اس دوران ملک میں 2014 میں جو بچے 10-12 سال کے تھے، اب وہ 20-22 برس کے ہوچکے ہیں یعنی ایک پوری نسل اب جوان ہو چکی ہے اور یہ آج کی نسل ہے جو سیاست کی چال بازیوں اور مکاریوں کو خوب سمجھتی ہے۔ کھوکھلے اور جھوٹے وعدے اس نسل کو متاثر نہیں کرسکتے۔ اس نئی نسل کے اپنے مسائل اور اپنی ترجیحات ہیں۔ کرناٹک میں بی جے پی کی عبرت ناک ہار اس بات کا اشارہ ہے کہ اس نسل کی مذہبی نعروں میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ ملک میں کروڑوں نوجوان بے روزگار ہیں، نیتاؤں کو یہ سوچنا چاہیے کہ انہیں روزگار کیسے مہیاکریں۔ اب سوال یہ ہے کہ کرناٹک کی ہار سے کیا بی جے پی کوئی سبق لے گی؟ دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ جو لوگ اقتدار کی بڑی بڑی کرسیوں پربراجمان ہوجاتے ہیں، غرور ان کے سروں پر تاج بن کر سوار ہو جاتا ہے اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ امر ہیں، اجر ہیں، ناقابل تسخیر ہیں۔ تخت حکمرانی ان سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ اس فکر کے آتے ہی ان کے زوال کی ابتدا ہونے لگتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی ہر اعتبار سے بے حد مضبوط پارٹی ہے اور وزیراعظم نریندر مودی کا کرشمہ پوری طرح ختم نہیں ہواہے۔ انتخابات جیتنے کی قوت اب بھی ان کے اندر موجود ہے۔ ان پر یقین رکھنے اور ان کی حمایت میں جھنڈا اٹھا کر مودی مودی کی صدا بلند کرنے والے آج بھی کروڑوں لوگ موجود ہیں مگر وقت کے ساتھ حالات بدلتے ہیں۔ جیتنے کی بھرپور قوت ہونے کے باوجود بی جے پی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔
انتخابی ایشوز:ٹی وی اسٹوڈیوز میں انتخابی ایشوز پر اکثر بحثیں ہوتی ہیں اور زیادہ تر بحثیں بے معنی ہوتی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی کے پاس ہندوتو کا ماسٹر کارڈ ہے۔ اس کا مقابلہ کوئی بھی اپوزیشن پارٹی نہیں کر سکتی۔ اب ٹی وی اسٹوڈیوز کے ان زیادہ پڑھے لکھے اینکروں کو کون سمجھائے کہ مغربی بنگال، پنجاب، ہماچل، بہار، دلّی اور کرناٹک میں یہ زعفرانی کارڈ ناکام ثابت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ریاستوں میں ہوئے ضمنی انتخابات اور پنچایتی الیکشن میں بھی عوام نے اس کارڈ کو رد کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ذات پات اور مندر-مسجد کے ایشوز انتخابی تشہیر سے غائب رہیں گے۔ ہرچند کہ انتخابی ریلیوں میں دھرم، مذہب سے منسوب نعرے ضرور سنائی دیںگے، تاہم مہنگائی، بے روزگاری، سرکاری محکموں سے جڑی بدعنوانیوں اور خواتین کے تحفظ سے وابستہ مسائل بڑے انتخابی ایشوز ہوں گے۔ نسلی تشدد کی آگ میں منی پور جلتا رہا، انسانی لاشیں گرتی رہیں، اس خونیں تشدد پر قابو پانے میں ریاستی اور مرکزی دونوں سرکاریں ناکام رہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کی انتخابی تشہیر میں اس کا ذکر بھی پرزور طریقے سے ہوگا۔ درج بالا تمام ایشوز سے الگ کانگریس نے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے کے طرز پر مدھیہ پردیش میں نرم ہندوتو کا راستہ اپنا لیاہے۔ بجرنگ سینا نام کے ایک دل کی کانگریس میں شمولیت ہوگئی ہے اور حال ہی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کانگریس کے بڑے لیڈر اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے کہا ہے کہ اگر ان کے پاس بجرنگ دل ہے تو ہمارے پاس بجرنگ سینا ہے۔ پرینکا گاندھی نے جبل پور کے نرمدا گھاٹ پر کمل ناتھ کے ہمراہ پوجا ارچنا کرکے انتخابی مہم کا آغاز کر دیاہے۔ اگرچہ بی جے پی کے لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مدھیہ پردیش میں جیت انہی کی ہوگی لیکن ماحول کا اشارہ کچھ اور ہی ہے۔ پارٹی میں اندرونی رسہ کشی بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ کی کرسی پرجیوترادتیہ سندھیا کی بھی نظر ہے ہرچند کہ ان کی پوزیشن ایسی نہیں ہے کہ وہ اپنے دم پر انتخابات میں کامیابی دلا سکیں۔ چھتیس گڑھ کی بات کریں تو وہاں بھی بی جے پی کے پاس کوئی قابل اعتبار چہرہ نہیں ہے۔ رمن سنگھ پر داؤ کھیلا نہیںجا سکتا ۔ کہا جا رہا ہے کہ عوام موجودہ وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل کے پانچ سال کے گورننس سے مطمئن ہیں۔ راجستھان میں اگر سچن پائلٹ کانگریس کے لیے مشکلیں کھڑی کرتے دکھائی دے رہے ہیں تووسندھراراجے فیکٹربی جے پی کے لیے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔ دوسری طرف کرناٹک کی جیت نے کانگریس کے اندر حد سے زیادہ جوش بھر دیاہے۔ بڑے لیڈران سے لے کر بوتھ لیول کے ورکرس بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ تینوںریاستوں میں سرکار کانگریس کی ہی بنے گی۔
تلنگانہ میں بی جے پی تیسرے نمبر کی پارٹی ہے۔ وہاں مقابلہ کانگریس اور بی آر ایس کے درمیان ہے۔ امکان ہے کہ سرکار بی آرایس کی ہی بنے گی۔ مہاراشٹرمیں ادھوٹھاکرے کی سرکار گرائے جانے کے بعد مراٹھی عوام پوری طرح ادھوٹھاکرے کی شیوسینا کے ساتھ ہیں۔ این سی پی کے اجیت پوار بغاوت کے راستے پر چل پڑے تھے لیکن شرد پوار نے ایسی چال چلی کہ اجیت کے پر اکھڑ گئے۔ 23 جون کو پٹنہ میں ہونے والی اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ پر بھی بی جے پی میں اضطرابی کیفیت پائی جا رہی ہے۔ کئی ریاستوں میں گورنر کے عہدے پر فائز رہے بی جے پی کے اپنے نیتا ستیہ پال ملک پرزور اندازمیں کہہ رہے ہیں کہ 2024 میں مودی سرکار کو اقتدار سے باہرکریں گے۔ اس کے علاوہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعد راہل گاندھی بھی بی جے پی کے لیے ایک بڑی چنوتی بن گئے ہیں۔ اس یاترا کے بعد وہ ایک نئے انداز میں ابھرے ہیں۔ اب لوگ انہیں سنجیدگی سے سن رہے ہیں اور ان کی باتوں کو سمجھ رہے ہیں۔ تبھی تو وہ بولتے امریکہ میں ہیں اور اثر دلّی میں ہوتاہے۔ سیاست دھیرے دھیرے ایک محور سے اترکر دوسرے پرمنتقل ہو رہی ہے۔ ہوا کارخ بدل رہا ہے اور سیاسی منظر میں بھی بتدریج تبدیلی آ رہی ہے۔
2024کا سیاسی موسم :2024 بدلاؤ کا سال ہو سکتا ہے۔ مار جب پیٹ پر پڑتی ہے تو انسان دھرم اور مذہب کی مالاجپنا بھول جاتا ہے۔ دلّی، ممبئی، کولکاتا، چنئی، بنگلورو اور حیدرآباد جیسے بڑے شہروں میںغربت کی شدت دکھائی نہیں دیتی لیکن ہندوستان کے دیگرچھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اور قریوں میں معاشی حالات قابل رحم ہیں۔ نہ کاروبار ہے، نہ روزگار اور مہنگائی کے ڈائناسور نے عام لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کرناٹک میںمذہبی نعرہ الٹا پڑگیا۔ تلنگانہ کو چھوڑکر راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے انتخابی نتائج سے یہ واضح ہوجائے گا کہ 2024 میں دلّی کے تخت کے لیے تاج پوشی کس کی ہوگی، تاہم متذکرہ تینوں ریاستیں اگر بی جے پی ہار گئی تو 2024 میں کانگریس بہت بڑی طاقت بن کر ابھرے گی اور بی جے پی مخالف سبھی پارٹیاں اس کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہو جائیں گی اور امکان ہے کہ لوک سبھا انتخابات کانگریس کی قیادت میں لڑیں جائیں گے۔ سیاست میں موسم یکساں نہیں رہتا۔ بدلاؤ کی صدا کبھی بھی بلند ہو سکتی ہے۔ انتخابی جمہوریت میں ووٹ دینے کا حق ہی عوام کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ لوگ ملک کے موجودہ حالات سے بیزار ہیں۔ 2024 میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مذہبی نعروں کی گونج میںعام لوگوں کی ضرورتیں گم ہو جائیں گی یا ووٹ کی چوٹ سے فسطائیت کا خاتمہ ہوگا اور ملک کی سیاست کو دوسرا محور ملے گا۔ نفرت کی دکانوں پر تالے لگ جائیں گے اور فضا محبت کی خوشبوؤں سے معطر ہو جائے گی۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS