بھوک سے دم توڑتے بچوں کی فکر ہم کب کریں گے؟

0

اے آر سندھو
(مترجم: محمد صغیرحسین)

لاک ڈاؤن کے چوتھے مہینے یونیسیف (United Nations Children's Fund) نے ہندوستان کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ملک نے تالابندی سے زور پکڑنے والی بھوک اور نقص تغذیے کے مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہ کی اور غیرمراعات یافتہ بچوں کی معقول اور غذائیت سے بھرپور خوراک کا مناسب انتظام نہ کیا تو پانچ سال سے کم عمر کے تین لاکھ سے زیادہ بچے اگلے چھ ماہ میں لقمۂ اجل ہوجائیں گے اور اس سال مرنے والے بچوں کی تعداد بڑھ کر 12-13 لاکھ پہنچ جائے گی۔
کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل بھی صورت حال بہت تشویشناک تھی۔ 2018میں، یونیسیف کے مطابق چھ سال سے کم عمر کے بچوں کی ایک تشویشناک تعداد تقریباً 8.8لاکھ بچے ہندوستان میں مرگئے تھے۔ ہمارے تقریباً آدھے بچے ناکافی وزن کے شکار ہیں۔ 45فیصد بچے ٹھٹھر گئے ہیں۔ 20فیصد بچے اپنی مطلوبہ لمبائی سے پست رہ گئے ہیں، 75فیصد بچے قلت الدم(anaemia) سے متاثر ہوتے ہیں اور 57فیصد بچوں میں وٹامن اے کی کمی پائی گئی۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ دنیا بھر میں ناقص تغذیے کے شکار بچوں کی آدھی تعداد ہندوستان میں رہتی ہے۔
ہندوستانی بچوں میں نقص تغذیہ کی شرح چین کے مقابلے میں پانچ گنا اور افریقی صحرائے اعظم کے جنوبی علاقے کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ یہ اعدادوشمار عالمی بینک کی رپورٹ سے ماخوذ ہیں۔ یونیسیف کے 2019کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان میں 80فیصد کمسن بچے سوئِ تغذیہ سے متاثر ہیں۔ اس میں ایک یا ایک سے زیادہ غذائیت کے عناصر مثلاً آئرن، فولیٹ، زنک، وٹامنA، وٹامن B12اوروٹامنDکی کمی بھی شامل ہے۔
وزارت برائے ترقی خواتین و اطفال کے آئی سی ڈی ایس (Integrated Child Development Services) کے مشن دستاویز کے مطابق ہندوستان میں ہر سال2.5کروڑ بچے پیدا ہوتے ہیں، جس میں صرف1.75کروڑ بچے ہی زندہ باقی رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر سال چھ ماہ کی عمر کو پہنچتے پہنچتے 80,00,000بچے مرجاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہندوستان میں ہر سال ہر روز اوسطاً 21,917 بچے مرجاتے ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر میں 68فیصد بچوں کی موت کا سبب تولیدی یا سوئِ تغذیہ ہوتا ہے۔
کووڈ-19 تالابندیوں کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ بڑے پیمانے پر روزگار اور آمدنی کا نقصان ہوا، اسکول بند ہوئے جس کے نتیجے میں مڈڈے میل MDMS) معطل ہوئے، آنگن واڑیاں جو گرم کھانے بچوں کو دیا کرتی تھیں بند ہوئیں، عوامی تقسیم کا نظام (Public Distrubution Sysytem/PDS) تہہ و بالا ہوا، اور آخری پانچ مہینوں کے دوران بلامعاوضہ راشن کی جن اسکیموں کا اعلان کیا گیا تھا، اُن کا ناقص نفاذ دیکھنے کو ملا۔ ان تمام امور سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارا ملک شدید غربت اور بھوک سے دوچار ہے۔ پہلے سے ہی عوام خاص طور پر بچے اور عورتیں سنگین سوئِ تغذیہ کا شکار ہیں۔ ملک کی مذکورہ بالا صورت حال اس تشویشناک حالت کو مزید ابتر کردے گی۔
یونیسیف نے تخمینہ لگایا ہے کہ ہندوستان سمیت جنوب ایشیائی ملکوں کے 12کروڑ بچے، کووڈ-19بحران کی وجہ سے اگلے چھ ماہ کے اندر غربت و افلاس کے شکار ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس خطے میں اس طرح کے بچوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 36کروڑ ہوجائے گی۔ یونیسیف نے متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے: ’’بدترین صورت حال کے پیش نظر، اگر طب و صحت کی سہولتوں میں 45فیصد کمی آتی ہے تو پانچ سال سے کم عمر بچوں کی موت میں ہر ماہ 44.7 فیصد کا اضافہ ہوجائے گا اور تولیدی مراحل میں مرنے والے بچوں کی تعداد میں 38.6 فیصد کا اضافہ ہوجائے گا۔‘‘
سوئِ تغذیہ کے مسئلے پر گزشتہ دو دہائیوں میں، متعدد مذاکرات ومباحثات کے علاوہ کئی قانونی اقدامات مثلاً حق غذا پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، کیے گئے۔ لیکن مختلف حکومتوں کے ذریعہ وضع کی گئیں اسکیمیں اور اہداف ناکافی ثابت ہوئے۔ اس بحران سے نبردآزما ہونے والی ممتاز و نمایاں ICDSاسکیم کو فنڈ سے محروم رکھا گیا۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس اسکیم کو وسیع تر کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔ گزشتہ چند سالوں میں فنڈ کی تقسیم کا طرز تبدیل ہوکر 60:40ہوگیا ہے جس کے سبب ریاستوں پر مالی بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ریاستوں کے فنڈ کی کمی نے صورت حال کو اور خراب کردیا ہے۔ مزید یہ کہ بجٹ میں بھاری کٹوتیاں کی گئیں۔ گلوبل ہنگرانڈیکس 2019کے مطابق، ان تمام عوامل کے نتیجے میں ہندوستانی بچوں میں اپنے قد و قامت کے لحاظ سے دبلے پتلے رہ جانے کا آزار جہاں 2008-2012 میں 16.5 فیصد تھا، وہیں 2014-2018میں بڑھ کر 20.8 فیصد ہوگیا۔
’’پوشن مشن‘‘ جس کے بارے میں خوب شور و غلغلہ ہوا، محض آنگن واڑی کارکنان پر پولیس کا پہرہ ثابت ہوا۔ یہ بات یاد رہے کہ غیرآئی سی ڈی ایس کاموں کی وجہ سے یہ کارکنان پہلے سے ہی بوجھل ہیں۔ دوسری اسکیموں مثلاً مڈڈے میل اسکیم اور قومی صحت مشن کی حالت بھی یکساں ہے۔ سردست، تشویشناک صورت حال کے باوجود، اعلان شدہ پیکیجز، سوئِ تغذیہ کے مسائل سے بحث نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ کمیونٹی سطح پر سوئِ تغذیہ سے نبردآزمائی کی کوئی جامع قومی رہنما ہدایات نہیں ہیں۔
قیمتی زندگیوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ حکومت، ہندوستان کے ہر شہری کے حق خوراک/تغذیہ کو تسلیم کرنے، انفرااسٹرکچر کی کوالٹی کو بہتر بنانے اور آئی سی ڈی ایس، مڈڈے میل اسکیم جیسی غذائی خدمات کی اسکیموں کو چاق چوبند کرنے اور ان اسکیموں کو دی جانے والی مالی امداد میں اضافہ کرنے کے لیے سیاسی قوت ارادی کا مظاہرہ کرے تاکہ سماج کے اُن لوگوں کو بھی فائدہ پہنچے جو خطرات کی زد میں ہیں اور حاشئے پر کھڑے ہوئے ہیں۔
وبا نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حفظان صحت سے وابستہ لاکھوں سماجی کارکن خواتین، مثلاً آنگن واڑی کارکنان اور معاونین، آشاکارکنان اور مڈڈے میل اسکیم کارکنان، سماج اور پالیسی سازوں کے درمیان ایک اہم ربط ہے۔ اُن کے کاموں کو منضبط کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ پینتالیسویں انڈین لیبر کانفرنس کی سفارشات کے مطابق انہیں کم ازکم تنخواہ اور سماجی تحفظ فراہم کیا جائے۔ وگرنہ ہم پھر کس سے توقع کریں گے کہ وہ ’میک ان انڈیا‘ منصوبوں میں رنگ بھرے؟ ہمارے ملک کے ناتواں، ٹھٹھرے ہوئے، قلت الدم(Anaemia) کے شکار اور ذہنی طور پر ناپختہ نوجوان جو عہدطفلی میں کسی طرح بچ گئے، ایک مضبوط ملک کی تعمیر نہیں کرسکتے۔ اس حقیقت سے آشنا ہونے کے لیے کہ ہمارے بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں، ہمیں اور کتنی اموات کا انتظار کرنا ہوگا؟
(بشکریہ: دی پائنیر)
(مضمون نگار All India Federation of Anganwadi Workers and Helpersکی جنرل سکریٹری ہیں۔ 
وہ CITUکی قومی سکریٹری بھی ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS