صبیح احمد
کہاوت مشہور ہے کہ جس ندی میں جتنا زیادہ تلاطم ہوتا ہے وہ اتنی ہی جلدی خشک ہو جاتی ہے۔ یہ کہاوت 2014 کے پارلیمانی اور دہلی اسمبلی انتخابات کے ہیروز بالترتیب ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اور دہلی کے سابق وزیراعلیٰ اروند کجریوال پر صحیح صادق ہوتی نظر آ رہی ہے۔ دونوں رہنمائوں کی ڈھلان اب صاف دکھائی دینے لگی ہے۔ حالیہ عام انتخابات کے نتائج سے واضح عندیہ ملتا ہے کہ مودی کی مقبولیت میں اچانک ٹھیک اسی طرح گراوٹ شروع ہو گئی ہے جس طرح یکدم اچانک پنکھ لگ گئے تھے۔ گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں واضح اکثریت سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی مودی کی پارٹی بی جے پی کو حالیہ الیکشن میں اتنی بھی سیٹیں نصیب نہیں ہوسکیں کہ اپنے دم پر حکومت بنا سکے۔ حکومت سازی کے لیے ایک نہیں، 2 بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا۔ جہاں تک کرپشن کے نام پر ’انا تحریک‘کی کوکھ سے جنم لینے والی عام آدمی پارٹی اور اس کے روح رواں کجرایوال کا سوال ہے، آئندہ ماہ ہونے والے دہلی اسمبلی انتخابات میں پتہ لگ جائے گا کہ ان کے دن پورے ہوچکے ہیں یا کچھ دن اور لگیں گے۔
وزیراعظم نریندر مودی کا سیاسی عروج غیرمعمولی تھا۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک وزیراعلیٰ سے سیدھے ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ عوام نے انہیں اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا کہ باقی تمام قد آور سیاست داں بونے دکھائی دینے لگے۔ صرف اپوزیشن میں ہی نہیں، خود ان کی اپنی پارٹی میں بھی کوئی بھی قد آور لیڈر ان کے سامنے ٹکنے کے قابل نہیں رہا۔ یہ سب یونہی نہیں ہوا۔ مودی نے ملک کے نوجوان طبقہ کی بے چینی اور امنگوں کو بر وقت سمجھا۔ انہوں نے خود کو اس طرح ترقی، خوشحالی اور تبدیلی کا مسیحا بنا کر پیش کیا کہ جیسے ان کے وزیراعظم بنتے ہی ملک کی تقدیر بدل جائے گی اور ہندوستان میں ترقی کا ایک انقلاب آجائے گا، ہر طرف دودھ اور شہد کی ندیاں بہنے لگیں گی وغیرہ وغیرہ، لیکن کیا ایک دہائی بعد ایسا کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے؟ دونوں رہنما ’غیرمعمولی‘ تبدیلی، ترقی اور نئے طرز کی سیاست کے دعوؤں کے سہارے اچانک فرش سے عرش پر آگئے تھے۔ مودی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ کی کرسی سے سیدھے ملک کے مسند اقتدار پر فائز ہوگئے اور اروند کجریوال انا ہزارے کی تحریک کی سیڑھیوں کے سہارے ایک این جی او کو سیاسی پارٹی میں بدل کر ملک کی راجدھانی دہلی کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ دونوں ہی رہنمائوں نے ملک کی آزادی سے لے کر آج تک ایک ہی طرز کی سیاست سے اوب جانے والے عوام کو تبدیلی اور اقتدار میں آتے ہی ان کی تمنائوں کی تکمیل کے اس نئے انداز سے خواب دکھائے کہ سادہ لوح ووٹروں کے پاس ان پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں رہا۔ درحقیقت نریندر مودی اور اروند کجریوال کا کرشماتی سیاسی عروج ہندوستان میں ’غیر معمولی تبدیلی‘ کی عوام کی بے چین تمنائوں کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کے وعدوں کے دام فریب میں آسانی سے آ گئے۔ لیکن کیا عوامی امنگوں کے مطابق کام ہورہا ہے؟
گزشتہ تقریباً ایک ڈیڑھ دہائی میں کرپشن اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگیا ہے؟ غربت اور مہنگائی پر لگام کی سمت میں کوئی پیش رفت دکھائی دے رہی ہے؟ سماجی انصاف اور ہم آہنگی و خوشحالی کے لیے اقدام کیے گئے یا کیے جا رہے ہیں؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سماجی ہم آہنگی کو تار تار کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ سماج میں انتشار اور خلیج کا دائرہ دن بہ دن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ تمام برائیوں پر پردہ ڈال کر انہیں نئے سرے سے پیش کر کے عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ بے روزگاری پر ’ریوڑی‘ کا ملمع چڑھا کر لوگوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ یعنی روزگار کی ضرورت نہیں ہے۔ مفت کی ریوڑی تو مل ہی رہی ہے، روزگار کی کیا ضرورت ہے۔ روزگار کے وعدے کی تکمیل کا یہ نیا طریقہ ایجاد کیا گیا ہے۔ اور اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ کیونکہ یہ طریقہ سبھی کو راس آ رہا ہے۔ الیکشن آتے ہی ناقابل تکمیل وعدوں کی لائن لگ جاتی ہے۔ کاش! ہمارے سیاست دانوں کو عوام کی جائز تمنائوں اور امنگوں کا ادراک ہو جائے۔
کچھ سالوں قبل ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جو بظاہر ایک ووٹر کی اپنی ہی غلطی کا اعتراف تھا۔ ویڈیو میں اترپردیش کے بلند شہر کا ایک ووٹر اپنی اس انگلی کو دکھاتے ہوئے نظر آتا ہے جسے اس نے خود کاٹ ڈالی ہے کیونکہ وہ عام انتخابات کے دوسرے مرحلہ کی پولنگ کے دوران غلطی سے اس پارٹی یا امیدوار کو ووٹ نہیں دے سکا جسے وہ ووٹ ڈالنا چاہتا تھا بلکہ اس کا ووٹ ایک ایسی پارٹی کے امیدوار کے حق میں چلا گیا جسے وہ قطعی پسند نہیں کرتا یا وہ اسے ووٹ ڈالنا نہیں چاہتا تھا۔ ویڈیو میں ووٹر کا کہنا ہے کہ یہ احساس ہونے کے بعد کہ اس نے ’غلط‘ پارٹی کو ووٹ دے دیا ہے، اپنی انگلی کاٹ لی۔ اس ووٹر کا یہ ویڈیو صرف اس کی ذاتی غلطی کا اعتراف ہی نہیں ہے۔ اس میں 2 اہم پیغامات پوشیدہ ہیں جو جمہوری نظام میں بہت کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔
اول، ووٹ کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ایک ووٹ سے حکومت تبدیل ہوسکتی ہے، ملک کی قسمت کا فیصلہ ہو سکتا ہے اور دوسرا پیغام یہ ہے کہ موجودہ انتخابی ماحول میں ملک کے عام لوگوں میں برسراقتدار پارٹی کی طرز حکمرانی اور پالیسیوں کے حوالے سے کس طرح کی ’شدید رائے‘ عام ہے۔ ووٹ ہر شہری کے لیے اظہار رائے کی آزادی کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ ہندوستان جیسے بڑے اور تکثیری ملک میں مختلف خطے مختلف مسائل اور ترجیحات کے حامل ہوتے ہیں۔ ووٹنگ کے عمل سے ہر شہری کو ملک کے امور پر اپنی رائے رکھنے کا موقع ملتا ہے کہ کیا اچھا ہوسکتا ہے اور کیا برا ہے۔ اس کے علاوہ ووٹ ڈالنا اتنا ہی فرض اور اتنی ہی بڑی ذمہ داری ہے جتنا کہ یہ آئینی حق ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کی پوری عمارت ہی ووٹ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے۔ اگر ملک کے شہری ووٹ ڈالنے کی اس بڑی ذمہ داری کو ٹھیک سے نہیں نبھاتے ہیں تو ہماری جمہوری ری پبلک کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ بہرحال اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حالیہ جمہوری تجربات حوصلہ افزا نہیں رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہندوستان بے لگام کرپشن، غیر یقینی اقتصادی صورتحال اور غیر واضح خارجہ پالیسی جیسے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ ملک کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم صحیح فیصلہ کرتے ہوئے امیدواروں میں سے بہتر کا انتخاب کریں۔
مذکورہ ویڈیو کے پیغام کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اگر ایک ووٹ غلطی سے کسی غیر پسندیدہ پارٹی یا امیدوار کو چلا گیا تو اس کے ردعمل میں ووٹر نے اپنی وہ انگلی ہی کاٹ ڈالی جس پر ووٹ ڈالنے کے بعد نہ مٹنے والی روشنائی لگائی جاتی ہے۔ اسے برسراقتدار حکمرانوں سے بیزاری کی انتہا ہی کہی جا سکتی ہے۔ یہ بیزاری یونہی نہیں ہے۔ لوگوں نے سابقہ حکومت سے نجات پانے کے لیے ایک نئی حکومت کو موقع دیا تھا اور دل کھول کر اس کی حمایت کی تھی۔ اس پر مکمل اعتماد کیا تھا۔ نئی حکومت کے دعویداروں کے وعدوں پر آنکھ موند کر بھروسہ کیا تھا لیکن مایوسی کے سوائے انہیں کچھ نہیں ملا۔ جن حکمرانوں سے نجات پانے کے لیے لوگوں نے ان نئے حکمرانوں پر یقین کیا تھا ، یہ ان سے بھی زیادہ ناکارہ اور نالائق ثابت ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی ناراضگی اپنی انتہا کو پہنچنے لگی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارا نظام جمہوری ہے اور ہمیں غلط کو صحیح کرنے کے بھرپور مواقع میسر ہیں۔ فی الحال یہ موقع ہمارے پاس ہے جس کا فائدہ ضرور اٹھایا جانا چاہیے۔