غزہ جنگ کب ختم ہوگی؟

0

اب غزہ جنگ میں زیادہ شدت آنے کا اندیشہ ہے۔ یہ اندیشہ اس لیے نہیں ہے کہ حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے تیز کر دیے جائیں گے، حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے ادھر کوئی بڑے حملوں کی خبر نہیں آئی ہے، اہل غزہ کی جنگ ختم کرنے کی خواہشیں بھی ختم نہیں ہوئی ہیں، البتہ ایران کے خلاف اسرائیل نے جو جنگ بڑے طمطراق سے شروع کی تھی، وہ جنگ ضرور ختم ہو گئی ہے لیکن یہ جنگ اس طرح ختم نہیں ہوئی ہے کہ اسرائیل کی طاقت کا بھرم رہ جاتا، اسے جیتا ہوا مانا جاتا، کیونکہ ایران کی طرف سے جنگ بندی کا راگ الاپا نہیں گیا تھا۔ وہ اسرائیلی حملوں کا مسلسل اور مؤثر انداز میں جواب دے رہا تھا۔ جنگ بندی کی آواز پہلے اسرائیل سے اٹھی۔

امریکہ نے جنگ بندی کی کوشش کی اور جنگ بندی ہوئی۔ اسی لیے ایسا لگتا ہے کہ جھینپ مٹانے کے لیے اب اسرائیل غزہ پر زیادہ بڑے اور تیز حملے کرے گا، کیونکہ ایران سے وہ توقع کے مطابق جنگ نہیں لڑ سکا۔
اسرائیل اکثر ایران کو متنبہ کیا کرتا تھا۔ عام خیال تھا کہ اسرائیل کے حملوں کا جواب ایران کے لیے دینا مشکل ہوگا۔ اسرائیل کا ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی ممالک تو دیں گے ہی، مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی دیں گے لیکن حالیہ 12 روزہ اسرائیل-ایران جنگ میں اسرائیل کی طاقت کا بھرم بڑی حد تک ٹوگٹ گیا۔ کئی یوروپی لیڈروں نے بیانات کی حد تک تو اسرائیل کا ساتھ دیامگر ان کے ملکوں نے عملی طور پر اسرائیل کا ساتھ نہیں دیا۔ مشرق وسطیٰ کے ملکوں نے بھی ایران کے خلاف جاکر اسرائیل کا ساتھ کھل کر نہیں دیا۔ اسرائیل کسی حد تک تنہا پڑا۔ امریکہ کا ساتھ اسے حاصل رہا۔ امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ دینے کے لیے ہی ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کیے۔

ان حملوں کے باوجود ایران گھبرایا نہیں، ڈرا نہیں۔ اس نے قطر میں امریکہ کے ایئربیس پر حملہ کرکے یہ اشارہ دے دیا کہ اگر اس نے اسرائیل کا ساتھ دینے کے لیے پھر اس پر حملہ کیا تو مشرق وسطیٰ کے اس کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ٹرمپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ روس اور چین، ایران کے ساتھ ہیں۔ ضرورت کے وقت میں شمالی کوریا اس جنگ میں زیادہ سرگرمی دکھانے لگے گا۔ یہ جنگ کچھ اور بڑھ جائے گی، اس لیے انہوں نے امریکہ کے قطری ایئر بیس پر ایرانی حملوں کا جواب دینے کے بجائے اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بندی کرانے کی جدوجہد کی۔ اس میں انہیں کامیابی مل گئی۔ اب بحث کا یہ الگ موضوع ہے کہ یہ جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟ اور کیا ٹرمپ نے جس طرح اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بندی کرادی، اسی طرح غزہ جنگ بھی ختم کرائیں گے؟ ویسے فی الوقت ایسا لگتا نہیں کہ ٹرمپ غزہ جنگ ختم کرانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے، کیونکہ ’غزہ پلان‘ انہیں کی طرف سے پیش کیا گیا تھا اور اس پلان کے مطابق، اہل غزہ کو مصر اور اردن میں بسایا جانا تھا تاکہ غزہ کو ساحلی تفریح گاہ بنایا جا سکے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ایسا ہو جانے کی صورت میں غزہ سے بحیرۂ روم تک بن گوریون نہر نکالنا آسان ہوجائے گا۔ اس سے مصر کی اقتصادی کمر ٹوٹ جائے گی۔

وہ اسرائیل کے سامنے ایسی طاقت نہیں رہ جائے گاکہ اس کی باتیں ماننے پر اسے مجبور ہونا پڑے۔ اس سے اسرائیل کا خطے میں رعب و داب اور بڑھ جائے گا لیکن ایسا لگتا ہے کہ عرب ممالک ٹرمپ کے ’غزہ پلان‘ کو سمجھ رہے ہیں۔ اسی لیے ان کی طرف سے اس پلان میں دلچسپی نہیں دکھائی گئی ہے اور ٹرمپ نے بھی غالباً حالات کو سمجھ لیا ہے، اس لیے وہ غزہ جنگ روکنے کے لیے اسرائیل پرزیادہ دباؤ نہیں بنا رہے ہیں، ورنہ وہ اگر اسرائیل پر سنجیدگی سے دباؤ بناتے، اسے غزہ جنگ ختم کرنے کے لیے پرزور لہجے میں کہتے تو ایسا نہیں ہے کہ یہ جنگ ختم نہیں ہوتی۔

اگر اسرائیل اور ایران کے مابین وہ جنگ بندی کرا سکتے ہیں جبکہ فیصلہ دونوں کو لینا تھا تو پھر غزہ جنگ ختم کرانا ان کے لیے کون سی بڑی بات ہوگی مگر ایسا لگتا ہے کہ ان کے ذہن سے آج بھی ’غزہ پلان‘ نکلا نہیں ہے۔ یہ بھی لگتا ہے کہ اسرائیل ان کے پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہی فوجی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے لیکن سچ یہ بھی ہے کہ اتنی قربانی دینے کے باوجود اہل غزہ نے کہیں جاکر بس جانے میں دلچسپی نہیں دکھائی ہے تو ایسا نہیں ہے کہ وہ آئندہ دلچسپی دکھانے لگیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ ٹرمپ غزہ جنگ ختم کرائیں تاکہ دنیا کو بھی یہ لگے کہ انہیں امن کا نوبل پرائز ملنا چاہیے۔ وہ اس پرائز کے حقدار ہیں، کیونکہ انہیں امن عزیز ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS