ایم اے کنول جعفری
روس 3جولائی کو امارت اسلامیہ افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی ’رائٹر‘ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے لیے روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے سرکاری خبررساں ایجنسی ’ریانووستی‘ کو بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے وزیر خارجہ مولوی امیر احمد متقی کی تجویز پر افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا۔ کابل سے نئے سفیرگل حسن کی اسناد قبول کرنے کے بعد جاری بیان میں روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس اقدام سے دونوں ممالک کے درمیان مثبت تعلقات،باہمی احترام اور تعمیری رابطوں کا نیا دور شروع ہوگا اور مختلف شعبوں میں تعمیری دو طرفہ تعاون کے فروغ کو تحریک ملے گی۔طالبان حکومت نے روس کے اس قدم کو جرأت مندانہ فیصلہ قرار دیا۔ یہ فیصلہ دوسرے ممالک کے لیے مثال بنے گا۔ یہ نہ صرف روس اور افغانستان کے مستحکم تعلقات، بلکہ دنیا کے بدلتے حالات کا بھی اشارہ ہے۔ اس موقع پر روسی سفیر ومتری ژرنوف کی افغانی وزیرخارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی تصاویربھی شیئر کی گئیں۔
تقریباً 4برس قبل امریکہ سمیت تمام غیرملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے دوران طالبان 15اگست 2021 میں اس وقت اقتدارمیں آئے،جب امریکی قیادت میں اتحادی افواج 20سال سے چلی آ رہی جنگ کواچانک ختم کرکے افراتفری کے عالم میں افغانستان سے نکل کر اپنے ملک واپس چلی گئیں۔ واضح ہو کہ طالبان کی بنیاد 1994 میں افغانستان کے شہر قندھار میںرکھی گئی تھی۔ یہ تنظیم ان دھڑوں میں شامل تھی،جو1989میں سوویت افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں اقتدار کے لیے خانہ جنگی میں شامل تھے۔طالبان کے زیادہ تر ارکان وہی مجاہدین تھے، جنہوں نے امریکہ کی مدد سے سوویت یونین کے خلاف 9برس تک جنگ لڑی اور پسپائی پر مجبور کیا۔اس تعاون کی بنا پر شروع میں طالبان کو امریکہ کی حمایت بھی حاصل رہی۔ تاہم 1990 کی دہائی کے آخر تک طالبان کی تصویر بدلنا شروع ہو گئی۔ 1999 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے ایک قرارداد منظور کرکے کہاکہ طالبان دنیا بھر میں دہشت گرد تنظیموں کو پناہ اور تربیت فراہم کر رہے ہیں۔اس کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اقوام متحدہ کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے طالبان پر پابندی کا اعلان کیا۔ 2003میں روس کی عدالت عظمیٰ نے باضابطہ طور پر طالبان کو دہشت گرد تنظیم قراردے دیا۔ افغان وزیر خارجہ کے مطابق روس کا یہ اقدام دوسرے ممالک کے لیے مثال بنے گا اور طالبانی حکومت کو تسلیم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ روس کا یہ اقدام طالبان انتظامیہ کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے،جو عالمی سطح پر اپنی تنہائی ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ روس اُن ممالک میں سے ایک تھا،جس نے طالبان کی حکومت قائم ہونے کے باوجود اپنا سفارت خانہ بند نہیں کیا تھا۔ چین، متحدہ عرب امارات، ایران، ازبکستان اور پاکستان وغیرہ نے اپنے سفیروں کو تعینات کر رکھا ہے،لیکن ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔
تاہم اسے طالبان کو تسلیم کرنے کی جانب ایک قدم تصور کیا جارہا ہے۔حالاں کہ گزشتہ دنوں پاکستان نے کابل میں اپنے سفیر کو ’ اَپ گریڈ‘ کیا،لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد کابل کو تسلیم کرنے میں کیا قدم اُٹھاتاہے۔وہ اس بابت روس کی تقلید کرتا ہے یا مغربی ممالک کے اقدام کا انتظار کرتا ہے! جب ایک ملک دوسرے ملک کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے تو وہ اسے ایک آزاد مملکت مانتا ہے۔یعنی اس ملک کی اپنی سرکاراوراپنی سرحدہے اور وہ دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے رشتے قائم کر سکتا ہے۔ تسلیم کیے جانے کا یہ عمل بین الاقوامی قوانین1933کی مونٹیویڈیو معاہدے پر مبنی ہے۔اس کے لیے مستقل آبادی، سرحد، حکومت اور غیرممالک کے ساتھ تعلقات بنانے کی صلاحیت جیسی4شرائط ہیں۔تسلیم کا اعلان ملک کو قانونی حیثیت دیتا ہے،بین الاقوامی اداروں میں جگہ دیتا ہے اور دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت و تعلقات استوار کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اپریل 2025 میں روس کی عدالت عظمیٰ نے تقریباً20برس کے بعد افغان طالبان پر عائد پابندی کو معطل کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد تنظیم کی فہرست سے نکال دیا۔ اسے مبصرین نے عالمی سیاست کے لیے بڑی اہمیت کا حامل قرار دیا۔روس ہی وہ پہلا ملک تھا،جس نے 2022 میں طالبان حکومت کے ساتھ اقتصادی معاہدہ کیا تھا اور افغانستان کو تیل، گیس اور گیہوں بھیجنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کیا تھا۔روس کی وزارت خارجہ کے مطابق روسی حکومت افغانستان کے ساتھ انرجی، ٹرانسپورٹ، زراعت اور انفرااسٹرکچرکے شعبوں میں کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔روسی حکومت دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جنگ میں افغانستان کی مدد جاری رکھے گی۔ غورطلب ہے کہ گزشتہ برس جولائی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طالبان کو اپنا اتحادی قراد دیا تھا۔ دوسری جانب امریکہ نے افغانستان کے مرکزی بینک کے اَربوں ڈالر منجمد کر رکھے ہیں اور طالبان کے چند اعلیٰ رہنماؤں پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں،جس کے نتیجے میں افغانستان کا بینکاری نظام عالمی مالیاتی نظام سے بڑی حد تک کٹ چکا ہے۔
غورطلب ہے کہ طالبان نے 1996 سے 2001کے دوران افغانستان پر حکومت کی تھی۔اس وقت اسے صرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان نے تسلیم کیا تھا،جب کہ چین سمیت کئی ممالک نے امارت اسلامیہ افغانستان کو سرکاری طور پر تسلیم کیے بغیر طالبان کے سفیروں کو اپنے یہاںسفارتی کام کاج کرنے کی اجازت دی تھی۔ اگست 2021 میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار میں آنے والے افغان طالبان کی حکومت کو افغان شہریوں کی آزادی پر قدغن لگانے کی بنا پر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔کئی دیگر ممالک طالبان حکومت کو اس کے انتہائی سخت شرعی قوانین اور خواتین کی تعلیم کی پابندی جیسے معاملات کی بنا پر تسلیم کرنے میں پس و پیش کر رہے ہیں۔تاہم روس کی طرح چین نے بھی عبوری افغان انتظامیہ کے ساتھ محدود سفارتی تعلقات کو فروغ دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔گزشتہ دو برسوں میں افغانی وزرا کو چین اور وسطی ایشیا کے فورمز میں شرکت کی دعوت دی جا چکی ہے۔دوسری جانب کئی افراد نے روس کے افغانستان کے تسلیم کرنے کی سخت الفاظ میں تنقید کی۔ سابق افغان سیاست داں فوزیہ کوفی کہتی ہیں کہ کسی بھی ملک کی جانب سے طالبان کے ساتھ صرف تعلقات بحال کر لینے سے امن و امان کی فضائیں ہموار نہیں ہوں گی،بلکہ اس سے طالبان کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی۔اتنا ہی نہیں اس اقدام سے نہ صرف افغانستان کے عوام غیر محفوظ ہوسکتے ہیں،بلکہ عالمی سیکورٹی پر بھی خطرے کے بادل منڈلا سکتے ہیں۔ اُدھر افغانی خواتین کے سیاسی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات خواتین مخالف، آمرانہ اور بنیادی حقوق سلب کرنے والی حکومت کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہے،جب کہ افغانستان کی پارلیمنٹ کی سابق رکن اور طالبان کی ناقد مریم سلیمان خلیل کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اس بات کا اشارہ ہے کہ اسٹرٹیجک مفادات ہمیشہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون سے بالاتر رہیں گے۔ اس بابت طالبان حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ افغانستان کے کلچر اور شرعی قوانین کے تحت عورتوں کے حقوق کا احترام کرتی ہے۔دوسری جانب یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیںہے کہ 2021 سے ملک بھر میں12برس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے اور خواتین کے ذریعہ سرکاری اداروں اورپرائیویٹ کمپنیوں میںملازمت کرنے پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ کسی خاتون کے محر م کے بغیرزیادہ دُور تک تنہا سفر کرنے پر بھی پابندی ہے۔اس کے باوجود یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا کہ چین طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کب کرتا ہے؟
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]