جب لوگ الجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو…

0

عمیر کوٹی ندوی
بلاوجہ کی بحثیں اور باتیں اس وقت درپیش فتنوں اور مسائل میں سے ایک ہیں۔ ہر روز اور ہر وقت کیا ایک وقت میں کئی کئی باتیں اور بحثیں میڈیا اور سیاست میں اٹھتی ہیں۔ پوری شدت اور قوت کے ساتھ اٹھتی اور اٹھائی جاتی ہیں۔ چاہا جاتا ہے کہ یہ زور وشور سے سماج میں گردش کریں۔ بعض مواقع خاص طور پرمفادات کی سیاست جب زور مار رہی ہو تو ایسے موقع پر اس طرح کی باتیں زیادہ کثرت سے سامنے آتی ہیں۔ عام طور پر لوگ اس میں پھنس جاتے ہیں، گرما گرم بحث کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور پھر ان کا حاصل وہی ہوتا ہے جو ان بحثوں کے پس پردہ عناصر چاہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں زیادہ تر بحثیں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے ارد گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جب بحث برائے بحث ہو تو پھر اس کے لئے ایشوز کا انتخاب مسئلہ نہیں ہوتا ہے۔ کٹ ہجتی کے لئے کبھی بھی کسی بھی مسئلہ کو بحث کا موضوع بنا دیا جاتا ہے۔ اس وقت تو نہ جانے کیسے کیسے معاملے اور مسائل اٹھائے جارہے ہیں اور ان پر بحث کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔ اس کے تحت جو طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے وہ اس کا حاصل ہوتا ہے۔
بے فائدہ یا جان بوجھ کر چھیڑی گئی بحث میں الجھ جانا عقلمندی نہیں ہے۔ اس کے باوجود مسلمان بھی اس میں پھنستے نظر آتے رہے ہیں۔ اس سبب انہوں نے اپنا بہت نقصان کیا ہے۔ بحث میں الجھ جانے کے نتیجہ میں سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ مسلمان اپنے فرائض، ذمہ داریوں سے غافل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کردار کو کھوتے چلے گئے۔ سیاست اور صحافت کی ’توتو میں میں‘ میں اس کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
جہاں مسلمانوں کو اشتعال دلایا گیا اور پھر ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اور باتوں کو مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برسوں سے چھوٹے چھوٹے مسائل جن پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حقیقت میں ان کی مسلمانوں کے لئے مذہبی اور سماجی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ آج تک مسلمانوں کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے ہی زندہ ہیں۔ ان میں سے بہت سے مسائل کو صرف مسلمانوں کو چڑانے کے لئے اٹھایا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے پاس کائنات کو بنانے والی ہستی اللہ کی یہ تعلیم موجود ہے کہ’’جب جاہل لوگ ان ( بحث و مباحثہ میں الجھانے کی کوشش کرتے ہوئے رحمٰن کے بندوں ) کے منہ کو آتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام‘‘(الفرقان: 63)۔
مسلمانوں کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سب کچھ جان کر بھی لوگ جہالت کی روش اختیار کرتے ہیں۔ انتشار، بدامنی، فتنہ وفساد کے لئے بحث ومباحثہ شروع کردیتے ہیں۔ اس لئے یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ صورتحال ترکی بہ ترکی جواب دینے سے قابو میں نہیں آتی ہے۔ بات دلائل پر دلائل دینے، زبان پر تالا لگا دینے والا جواب دینے اور لاجواب کردینے کی کوشش سے نہیں بنتی ہے۔ اس طرح کی کسی بھی کوشش کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح منفی اور نقصاندہ ہی نکلتا ہے۔ ایسا اس وقت زیادہ وضاحت کے ساتھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسلام صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ صورتحال قابو میں آتی ہے خود کو بحث ومباحثہ اور ٹکراؤ سے بچانے کی آخری حد تک کوشش کرنے سے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کی یہ شان بتائی گئی ہے کہ ’’جب کوئی فضول اوربے مقصد بات سنتے ہیں تو کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں، تم پرسلام ہو! ہم جاہلوں سے اْلجھنا نہیں چاہتے‘‘(القصص:55)۔ اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ ’’ان سے منہ پھیر لیں اور کہہ دیں : اچھا جی سلام‘‘( الزخرف:89)۔ صاف صاف کہا گیا ہے کہ ’’جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں کے پا س سے ہٹ ہوجاؤ ‘‘(الانعام:68)۔
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ’’ ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے‘‘(الانعام: 70)۔ ایک مسلمان کی شان یہ نہیں ہے کہ ہر معاملہ میں الجھ جائے۔ جواب دینے، اعتراض کرنے لگے۔ گرم بحثی میں لگ جائے۔ اچھل جائے، چیخنے چلانے لگے۔ مظاہرے اور احتجاج کی راہ اختیار کرے۔ نبیؐ نے فرمایا کہ’’مومن بہت طعنے دینے والا ، بہت لعنت کرنے والا ، فحش گوئی کرنے والا ، بیہودہ بکنے والا نہیں ہوتا‘‘ (ترمذی: 1977)۔ مسلمان کی شان یہ ہے کہ برائی کا جواب بھی اچھے طریقے سے دیا جائے۔’’تم برائی کا جواب اچھے طریقے سے دو‘‘(فصلت:41)۔ اس طرز عمل کا نام بزدلی نہیں بلکہ دانش مندی ہے اور دانش مندی جہاں کہیں بھی ملے اس پر اہل ایمان کا اولین حق ہے۔ اس لئے کہ وہ اس کا گمشدہ مال ہے اور اس کا حق بنتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے گمے ہوئے مال کو حاصل کرے۔
رسولؐ نے فرمایا ’’حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے‘‘(ابن ماجہ: 4169)۔ برائی کے جواب میں اچھے طریقے کو اپنانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ’’اس کی وجہ سے وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے وہ بھی ایسا ہوجائے گا جیسے تمہارا مخلص دوست ہو‘‘(فصلت:41)۔
’ برائی کا جواب اچھے طریقے سے دو‘در اصل یہ ایک کردار ہے۔ ان لوگوں کا ہے جو اللہ والے ہیں۔ اللہ والے نفس کے بندے نہیں ہوتے۔ انہیں دنیوی زندگی دھوکہ میں ڈال کر نہیں رکھ پاتی ہے۔ ان کا کردار قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ خود بھی اس سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور دوسروں کوبھی اس کے ذریعہ سے نصیحت کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس لئے تاکہ کوئی شخص بھی شیطانی جال میں نہ پھنس جائے۔ دین کے ساتھ ہنسی مذاق کی لوگوں کی روش کو نظر انداز کرتے ہوئے بھی اہل ایمان انہیں یاد دہانی کراتے ہیں۔ انہیں ڈراتے ہیں کہ وہ جو کچھ برائیاں سمیٹ رہے ہیں ان کا وبال ان کی جان پر ہوگا۔ ’’اس (قرآن) کے ذریعہ سے نصیحت اور متنبہ بھی کرتے رہو تاکہ کوئی شخص اپنے کردار کے سبب وبال میں نہ پھنس جائے‘‘(الانعام: 70)۔ برائی کا کردار ان لوگوں کا ہے جو ’فائدہ‘ کے لئے جان بوجھ کر اپنے پیدا کرنے والے کی راہ کو گم کربیٹھے ہیں یا اس سے دور چلے گئے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں سامنے آنے کی ضرورت اس کردار کی ہے جو کائنات کو بنانے والی ہستی رحمٰن کے بندوں کا ہے۔
حالات کے تھپیڑوں سے سبق لے کر اہل ایمان کا کردار حرکت میں آتا ہوا نظر آنے لگا ہے، اس پر اللہ کا شکر ہے۔ اہل ایمان اس کردار کی طرف توجہ دینے لگے ہیں۔ اسی لئے اشتعال انگیزی کے تماشے اب پہلے جیسے نہیں دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی مفادات کے حصول کے لئے کی جارہی اشتعال انگیزی، شعبدہ بازی، ہنگامہ آرائی کے جواب میں مسلمانوں کی طرف سے خاموشی اور نظرانداز کرنے کی حکمت عملی واضح ہوتی جارہی ہے۔ ساتھ ساتھ سچ کو اچھے طریقے سے لوگوں کے سامنے لانے اور سچ پر جمنے کی فکربھی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ مثبت پیش رفت کی نشانی ہے۔ مسلمانوں کی اس سمجھ کو بتاتی ہے کہ کامیابی اور دنیا کی بھلائی اللہ کی چاہی ہوئی زندگی کو اپنانے اور تمام مسائل کا حل اللہ کی تعلیمات میں تلاش کرنے میں ہے۔ مسلمانوں کی اس حقیقت شناسی کو بھی بتاتی ہے کہ اسلام خود کو باقی رکھنے اور اپنے فائدے کو پیش کرنے کے لئے کسی دنیاوی نظام، نظریہ اور سہارے کا محتاج نہیں ہے۔ دنیا میں نہ جانے کتنے نظام اور نظریے آئے اور گئے۔ حالات پیش آئے، بدلتے رہے اور قیامت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ان سب کے درمیان اسلام پوری دنیا میں ہے اور ہمیشہ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہے گا۔ سچا اور اچھا کردار آخر سچا اور اچھا ہی ہوتا ہے اور لوگ ہمیشہ ایسے کردار کی قدر کرتے ہیں۔
([email protected])

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS