’انڈیا‘ کی دراڑبڑی ہو گئی تو : پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

میں اس انڈیا کی بات نہیں کر رہا جو پوری دنیا میں ایک ملک کے طور پر پہچانا جا تا ہے بلکہ 2023 میں قائم ہوا وہ محاذ،جسے ’انڈیا‘ کا نام دیا گیا۔سنا ہے یہ نام راہل گاندھی کے ذہن کی اپج ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نام ترنمول کانگریس کی سپریمو ممتا بنر جی نے دیا تھا۔دراصل بنگلورو میں 18 جولائی2023 میں2024 کے عام انتخابات کے لیے محاذ قائم ہوا۔جس میں شروع میں28پارٹیاں تھیں، بعد میں 37 پارٹیوں نے ایک ساتھ مل کر مشترکہ اتحاد بنایا۔ اس کے مقاصد میںاین ڈی اے کو ہرانا اور عوام کو موجودہ حکومت کے خلاف بیدار کرنا تھا۔ساتھ ہی مرکزی سرکار کی غلط پالیسیوں کو بے نقاب کرنا تھا۔ شروع میں نتیش کمار (وزیراعلیٰ،بہار) اس مورچہ میں شامل تھے،بعد میں وہ این ڈی اے میں شامل ہو گئے۔

’انڈیا‘ اتنا اچھا اور خوبصورت نام تھا کہ بی جے پی کے لوگ بوکھلا گئے اور شروع میں اس نام کی مخالفت شروع کر دی۔کئی اخبارات نے تو ’انڈیا‘ لکھنے کے بجائے ’’آئی این ڈی آئی اے‘‘ لکھنا شروع کر دیا۔آج بھی کئی اخبارا ت اس طرح ’انڈیا‘ لکھتے ہیںجس کی فل فارم Indian National Developmental Inclusive Alliance (INDIA) ہے۔2024 میں ہوئے قومی الیکشن میں اس محاذ نے اچھی خاصی کامیابی حاصل کی۔اس محاذ نے 238سیٹیں جیتیں۔تسلیم کہ بی جے پی نے مرکز میں حکومت بنالی،مگر جو بی جے پی اس بار400پار کا نعرہ لگا رہی تھی،وہ 240 کے پار بھی نہیں جا سکی۔بی جے پی کو 273تعداد پوری کرنے کے لیے جنتا دل(یو) اور ٹی ڈی پی کو حکومت میں ملانا پڑا۔دوسری طرف ’انڈیا‘ کی شکل میں اس بار بی جے پی کو مضبوط حزب ِ اختلاف کا سامنا ہوا۔راہل گاندھی حزب ِ اختلاف کے لیڈر بنے۔کانگریس کو اس الیکشن میں ’سنجیونی ‘ ملی۔کانگریس پورے ہندوستان میں دوبارہ زندہ ہوگئی اور عوام کے لیے امید کی کرن ثابت ہوئی۔راہل گاندھی کی دو نوں یاترائوں،حزبِ اختلاف کا لیڈر بننے اور بعد میں پرینکا گاندھی کے وائناڈ سے ریکارڈ ووٹوں سے ایم پی بننے سے کانگریس کو کافی طاقت ملی ہے۔اب کا نگریس کی حالت پہلے جیسی نہیں رہی۔

پارلیمانی الیکشن کے بعد ہر یانہ،جموں وکشمیر،جھارکھنڈ اور مہا راشٹر میں اسمبلی انتخاب ہوئے۔جھارکھنڈ اور جموں وکشمیر میں ’انڈیا‘کی حکومت بنی،مگر ہریانہ اور مہاراشٹر میں این ڈی اے کی سر کار بنی،یعنی معاملہ نصف پر چھوٹا۔یہ ’انڈیا‘نہیں، این ڈی اے کی کامیابی ہے۔پورے ہندوستان میں ’انڈیا‘ کا شور تھا،ایسے میں دو ریاستوں میں این ڈی اے کی حکومت کا بننا،کمال ہی ہے۔بعض لوگوں کا مہاراشٹر اور ہریانہ کی این ڈی اے کی جیت پر بے ایمانی کرنے کا الزام ہے، جسے الیکشن کمیشن نے سرے سے خارج کر دیا ہے۔کل ملاکریہ ’انڈیا‘ محاذ کی ناکامی کی شروعات ہے۔

انڈیا سے پہلے نتیش کمار الگ ہوئے،بعد میں ترنمول کانگریس انڈیا سے الگ تو نہیں ہوئی مگر اس نے مغربی بنگال میں پارلیمانی الیکشن اکیلے اپنے دم پر لڑنے کا فیصلہ کیا اور پارلیمانی الیکشن میں اچھی خاصی کامیابی حاصل کی۔یہ ’انڈیا‘ میں دراڑ پیدا ہونے کی شروعات تھی۔بعد میں ترنمول کانگریس کے مضبوط ساتھ اور ممتابنر جی کے کردار نے ڈیمیج کنٹرول کیا۔راہل گانڈھی کی عوامی مقبولیت اور پرینکا گاندھی کے عملی سیاست میں داخلے نے بھی اس دراڑکو کم کیا۔اب دہلی میں فروری میں اسمبلی انتخابا ت ہو نے ہیں،جہاں عام آدمی پارٹی کی کئی بار سے حکومت ہے۔یوں بھی عام آدمی پارٹی،انڈیا کا بنیادی اور مضبوط ستون ہے، مگر عام آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی الیکشن خود اکیلے اپنے دم پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ عام آدمی پارٹی کا ایک بڑا قدم ہے،جو اس کے لیے خودکشی بھی ہوسکتا ہے۔یہ ایک بڑا رسک ہے۔بلکہ دوسرے الفاظ میں یہ عام آدمی پارٹی اور اروندکجریوال کے لیے ایک جوا بھی ہوسکتا ہے۔دہلی میں کانگریس کا ساتھ چھوڑنا بہت دل گردے کی بات ہے۔لیکن اروند کجریوال نے یہ اہم قدم اُٹھالیا ہے۔یہ قدم ان کو اکثریت بھی دلا سکتا ہے اور نہیںبھی۔مگر کجریوال نے انڈیا میں از سر نو دراڑ ڈالنے کی شروعات کی ہے۔عجیب ماحول اور لوگوں کی سوچ ہے کہ کوئی بھی کجریوال کو انڈیا میں پھوٹ ڈالنے کا ملزم نہیں بتارہا بلکہ اس کے برعکس اس کا ذمہ کانگریس کے اوپر منڈھ رہے ہیں۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کو چھوڑ کر تمام وہ پارٹیاں جو ’انڈیا‘ کا حصہ ہیں،وہ سب مخمصے میں ہیں کہ وہ کدھر جائیں؟آیا کانگریس کی طرف یا عام آدمی پارٹی کی طرف؟ کئی پارٹیوں نے کجریوال کی حمایت کااعلان کر دیا ہے۔

ایسے میں جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ عمرعبد اللہ نے بھی زبان کھولی ہے۔انہوںنے ’انڈیا‘ میں اتحادنہ ہونے کی بات کی ہے۔انہوں دہلی میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی دونوں کے الیکشن لڑنے کی بات اٹھائی ہے۔انہوں نے ’انڈیا‘ کے کسی کے کنوینر نہ ہونے کی بھی بات کی ہے۔اس میں کانگریس کا قصور کہاں ہے؟ کیا کانگریس کو دہلی میں الیکشن نہیں لڑنا چاہیے ؟اس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ کانگریس کے نہ لڑنے سے عام آدمی پارٹی دہلی میں زبردست جیت حاصل کرے گی؟ دراصل ’انڈیا‘ میں عام آدمی پارٹی، کانگریس کے بعد واحد سیاسی پارٹی ہے جو نیشنل ہے،جس کی حکومت دہلی اور پنجاب میں ہے اور جو کانگریس کے مقابل آنے کی قوت رکھتی ہے۔ساتھ ہی عام آدمی پارٹی والے اروند کجریوال میں مستقبل کا وزیراعظم بھی دیکھتے ہیں۔ ایسے میں عام آدمی پارٹی کو کانگریس ہی سے مقابلہ لگتا ہے۔ دہلی یوں بھی عام آدمی پارٹی کا میدانِ عمل ہے۔ان سب اسباب سے عام آدمی پارٹی نے اکیلے لڑنے کا رسک لیا۔ رسک لینے والا ہی آگے بڑھتا ہے۔

دہلی میں کانگریس کی حکومت رہی ہے مگر گزشتہ برسوں میں دہلی میں کانگریس حاشیے پر آگئی تھی۔اس کی زمینی صورت حال بھی وہ نہیں رہی،اسی لیے عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کا تن تنہا مقابلہ کرنا مناسب جانا۔یہی معاملہ ہریانہ الیکشن میں بھی تھا۔عام آدمی پارٹی نے سوچاتھا کہ وہ اکیلے اپنے دم پر الیکشن میں اچھا مقابلہ کرسکتی ہے،مگر رزلٹ نے کچھ اور ہی کہانی سنائی۔ہریانہ میں بھی عام آدمی پارٹی اور کانگریس مل کر لڑتے تو نتائج ایسے نہ ہوتے۔اب ادھر جب سے راہل گاندھی کی یاترا ئیں ہوئی ہیں،بہت کچھ بدل گیا ہے۔عوام کا ایک بڑا حصہ اب کانگریس کو پھر پسند کر نے لگا ہے۔ہوسکتا ہے کانگریس دہلی میں10-12 سیٹیں ہی لا پائے مگر دہلی میں اپنی موجودگی ضرور درج کرائے گی اور یہ مستقبل میں عام آدمی پارٹی کے لیے پریشانی کا سبب ہو سکتی ہے۔وزیراعظم بننے کا خواب تو ممتابنر جی کی بھی آنکھوں میں ہے۔

یوں بھی دہلی الیکشن میں ترنمول کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے عام آدمی پارٹی کو اپنی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ سماج وادی کی بات توکچھ حد تک سمجھ میں آتی بھی ہے لیکن ترنمول کانگریس دہلی میں اپنا کیا اثر رکھتی ہے؟ کل ملا کر انڈیا میں دراڑ گہری ہوتی جارہی ہے۔کانگریس اسے بھرنے کی حتی الامکان کو شش کر رہی ہے۔مگر یہ صرف کانگریس کی ذمہ داری تھوڑی ہے۔یہ ’انڈیا‘ اتحاد کے ہر ممبر کی ذمہ داری ہے۔ملک میں ایک مضبوط اور اچھی اپوزیشن ہو،ورنہ بی جے پی کے بے لگام گھوڑے پر لگام کون لگائے گا؟یوں بھی دہلی میں بی جے پی،عام آدمی پارٹی کو آسانی سے جیتنے نہیں دے گی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے،وہاں وہ زیادہ اوپر نیچے نہیں کر پاتی ہے۔

ان حالات میں ’انڈیا‘ میں اختلافات کو دور کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔پہلے تو کوئی اختلاف نہ ہو، دراڑ نہ آئے اور اگر کوئی دراڑ آبھی جائے تو اس کو پاٹنا سب کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے اپنے ذاتی اور پارٹی سطح کے مفاد چھوڑنے پڑیں گے،قربانی دینی ہوگی تبھی ملک کو بی جے پی کے مقابل ایک اتحاد مل سکے گا،ورنہ سب نقصان میں رہیں گے۔ کیا کانگریس، عام آدمی پارٹی، ترنمول کانگریس، سماج وادی پارٹی،آر جے ڈی،سب کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گااور ملک بی جے پی کا متبادل کھو دے گا۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS