نظر ملا کر بات نہ کریں، دوحا میں طالبان سے ملاقات اور رابطے کا تجربہ

    0

    'میں کوئی قاتل نہیں ہوں لیکن آپ سے میرا تعارف ایسے ہی کروایا گیا ہے جیسے میں قاتل ہوں۔ میں سیاست پر بات نہیں کروں گا لیکن ہم آپ سب کے ساتھ وقت طے کر لیتے ہیں، چائے پر اور میں آپ لوگوں کو کچھ شاعری سناؤں گا۔' انھوں نے بڑے شائشتہ اور نرم انداز میں کہا۔
    مجھے طالبان کے ایک اہم رکن سے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ میں نے قطر کے دارالحکومت دوحا میں جنگجوؤں اورافغان حکومت کے درمیان تاریخی مذاکرات کے آخری دن ان سے رابطہ کیا۔
    میں ایئرپورٹ جانے کے لیے نکل رہی تھی کہ میں نے ہوٹل کی لابی میں طالبان کے وفد کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے دیکھا۔ مجھے یہ آخری موقع نظر آیا کہ میں وہ قیمتی معلومات حاصل کر لوں جس سے میں کوئی اچھی خبر بنا سکوں۔
    لیکن وہ دوحا شاعری سنانے کے لیے نہیں آئے تھے اور نہ ہی میں شاعری سننے کے لیے اتنی دور آئی تھی۔
    میں بات نہیں کروں گا
    بند کمروں میں ہونے والے مذاکرات کی خبر دینا ہمیشہ ہی مشکل ہوتی ہے اور بات چیت کا آغاز کوئی بہت امید افزا نہیں رہی۔ جب میں دوحا میں واقع اس پرتعیش شیرٹن ہوٹل پہنچی تو میں نے طالبان کے وفد کو دیکھا۔
    میں نے اپنا سامان رکھا اور ان سے بات کرنے کے لیے پہنچ گئی۔ اگر آپ لوگوں کو اچانک پکڑ لیں تو وہ غیر رسمی انداز میں بات کرتے ہوئے اتنے محتاط نہیں ہوتے اور اکثر یہ ہی طریقہ ہوتا ہے کہ آپ کو ایسے جملے مل جائیں جو آپ کو سوچ بچار اور احتیاط کے ساتھ تحریر کردہ پریس ریلیزوں میں نہ مل پائیں۔
    جیسے ہی میں کیمرہ ہاتھ میں اٹھائے طالبان وفد میں شامل ایک رکن کی طرف بڑھی تو انھوں نے فوراً ہی کہہ دیا کہ 'میں آپ سے بات نہیں کروں گا۔'
    میں یہ دیکھ کر کہ وہ مجھ سے بات کرنے میں پریشانی محسوس کر رہے ہیں، پیچھے ہٹ گئی۔ میں نے انھیں مسکرا کر سلام کیا اور کہا کہ میرے ساتھ جو مرد رپورٹر ہیں وہ آپ سے بات کریں گے میں تو صرف کیمرہ پکڑوں گی۔
    دوحا میں رپورٹنگ کے دوران جن مشکلات کا مجھے سامنا کرنا پڑ سکتا تھا ان کی سنگینی سامنے آنا شروع ہو گئی تھی۔
    نظر ملا کر بات نہ کرنا
    آخر کار میں اس رہنما سے بات کرنے میں کامیاب ہو گئی جو مجھ سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے لیکن پورے انٹرویو کے دوران جس میں وہ اور ان کے علاوہ طالبان کے کچھ اور رہنما بھی شامل تھے میں نے محسوس کیا کہ کچھ رہنما مجھے سے آنکھ ملا کر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں اور یہ بالکل واضح تھا کہ وہ عورتوں کی نسبت مردوں سے زیادہ آسانی سے بات کر رہے ہیں۔
    ان کا ایمان ہے کہ اگر کسی اجنبی خاتوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے تو یہ بد تہذیبی ہے اور گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ میں نے طالبان کے ایک سرکردہ ترجمان سے تین منٹ تک بات کی لیکن ایک مرتبہ بھی انہوں نے میری طرف نہیں دیکھا۔
    مجھے پورا یقین ہے کہ اگر وہ مجھے دوبارہ مل جائیں تو وہ مجھے پہچان نہیں سکیں گے اور یہ یاد نہیں کر سکیں گے کہ انھوں نے مجھے سے بات کی تھی۔
    لیکن یہ ساری باتیں میرے لیے کوئی حیرانی کی باعث نہیں تھیں۔ اپنے سامنے ان لوگوں کو دیکھنا جو سال ہا سال چھپ چھپ کر لڑتے رہے اور اب وہ آپ کے سوالوں کو جواب دینے کے لیے آپ کے سامنے موجود ہیں اس کا کچھ ماہ پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
    لہٰذا میں ایسی اور غیر متوقع باتوں کے لیے تیار تھی۔
    تاریخی واقعہ
    جب افغان حکومت کے نمائندے اور طالبان مہینوں تک جاری رہنے والی کشمکش کے بعد بالمشافہ مذاکرات کرنے کی تاریخ اور جگہ کے تعین پر تیار ہو گئے تو میری طرح بہت سے افغان اخبار نویسوں کو لگا کہ یہ بڑی پیش رفت ہے اور اس کی رپورٹنگ کرنا بڑی بات ہو گی۔
    کئی عشروں تک قتل و غارت گری اور خون خرابے کے بعد فریقین اس جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔ ہمارے سامنے نئی تاریخ رقم کی جا رہی تھی۔
    میں نے سنہ 2002 کے بعد سے بہت سے واقعات اور تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتے دیکھی ہیں جب طالبان کی حکومت کے بعد نئی حکومت بنی اور اس کو فوراً ہیں طالبان سے جنگ میں الجھنا پڑا۔ اب 18 سال کے بعد ایک دوسرے کے یہ دشمن مفاہمتی مذاکرات کے لیے اکھٹے ہو رہے ہیں۔
    لباس کیا ہونا چاہیے؟
    کابل کے ہوائی اڈے سے ہوائی جہاز میں دوحا کے لیے روانگی کے وقت سے میں بہت سے چیزوں کے بارے میں سوچ رہی تھی جن میں خواتین کے حقوق اور آزادیوں، آئین اور فریقین کے ایجنڈے میں دوسرے نکات کیا ہوں گے۔
    جب میں اپنے کام کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ مجھے کس سے بات کرنی چاہیے، کسی کا انٹرویو کرنا چاہیے اور سوال کیا پوچھے جانے چاہیں اس لمحے میرے ذہن میں ایک اور خیال آیا۔ میں نے اپنے آپ س سوال کیا کہ مجھے پہننا کیا چاہیے یا میرا لباس کیسا ہونا چاہیے۔
    اس سوال کا تعلق میری خود نمائی سے قطع نہیں تھا اور شاید یہ مرد اخبارنویسوں کے ذہنوں میں دور سے بھی نہیں گزرا ہوگا۔
    اس امر کے باوجود کہ میں سر سے پاؤں تک باپردہ کپڑے پہنے ہوئے تھی اور جو کپڑے عموماً میں دفتر جاتے ہوئے پہنتی ہوں اور جنہیں دوسری لڑکیاں کابل میں باہر نکلنے سے پہلے پہنتے وقت دوبارہ سوچیں گی بھی نہیں۔ لیکن ایک خاتوں رپورٹر ہونے کے ناطے میں خواتین کے حقوق اور آزادیوں کے بارے میں طالبان کے سخت قوانین سے واقف تھی۔
    میں طالبان کی اعلیٰ ترین قیادت کے انٹرویو کرنے جا رہی تھی اور تین دن کے ان مذاکرات میں ان سے براہ راست ملاقاتیں کرنے والی تھی۔ اٹھارہ سال پہلے میں اس لباس میں جو میں اس کانفرنس کے لیے پہن کر آئی تھی میں سڑک پر نہیں جا سکتی تھی۔ اس وقت طالبان نے عورتوں کے لیے نیلی چادر پہننا لازمی قرار دیا ہوا تھا اور جو خواتین اس پابندی پر عمل نہیں کرتی تھیں ان کو سزا دی جاتی تھی۔
    میں سوچ رہی تھی کہ وہ کس حد تک تبدیل ہوئے ہیں اور اب وہ مجھ سے کیسے ملیں گے۔
    ’غلطیاں ہوتی ہیں‘
    یہ امید کرنے کی ٹھوس وجوہات تھیں کہ ان کے رویے میں نرمی آئی ہو گی۔ جب میں چار برس کی تھی تو ایک دن میں اپنی والدہ کے ساتھ، جو چادر پہنے ہوئے تھیں اپنی خالہ کے گھر جا رہی تھی۔
    جب ہم وہاں پہنچنے والے تھے میری والدہ نے اپنے سر سے چادر ہٹائی اور طالبان کے ایک رکن نے میرے سامنے ان کو ڈنڈا مارتے ہوئے چیخ کر کہا کہ اپنے چہرے کا پردہ کرو۔
    اس کانفرنس کے دوران جب میں طالبان کے ایک نمائندے سے بات رہی تھی تو میں نے یہ واقعہ بیان کیا اور پوچھا کہ اب وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے بہت اطمینان سے جواب دیا ’ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں اور ان کو دہرایا نہیں جائے گا۔‘
    اگر طالبان کا وفد آج کابل جائے تو اسے وہاں بہت سے تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ سب سے نمایاں تبدیلی مختلف شعبوں میں خواتین کی نمائندگی۔ پارلیمان کی کم از کم 25 فیصد نشستیں خواتین کی ہیں۔ ان کی ذرائع ابلاغ میں اور تفریحی پروگراموں میں نمائندگی بہت عیاں ہے اور اب بہت سی نوجوان لڑکیاں سرکاری اہلکار بھی ہیں۔
    اسکولوں میں واپسی
    آپ دیکھیں گے کہ تعلیم کے شعبے میں لڑکیوں اور خواتین کی شرکت بڑھ رہی ہے۔ میرے خاندان نے کچھ ماہ پاکستان میں گزارے اور امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد عبوری حکومت کے قیام کے بعد کابل واپس لوٹے۔
    مجھے یاد ہے کہ کابل میں لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے جگہ جگہ عوامی اشتہارات لگے ہوئے تھے اور اس طرح کے ایک اشتہار میں ایک بچے اور بچی کو خوشی خوشی اسکول جاتے ہوئے دکھایا گیا تھا جس کے نیچے لکھا تھا 'آؤ پڑھیں۔'
    میری بڑی بہن کو طالبان کے دورے میں پڑھنے کی اجازت نہیں ملی۔ لیکن میں نے اپنے والد سے کہا کہ اب میں اسکول میں داخل ہو سکتی ہوں۔
    اب ایک کروڑ بچوں کا نام اسکولوں میں درج ہے جس میں لڑکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ کسی بھی ممکنہ امن سمجھوتے میں ان کامیابیوں پر کس حد تک سمجھوتہ کیا جائے گا۔
    میں نے طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین سے پوچھا کہ اگر آپ کا امن سمجھوتہ ہو جائے اور کابل چلے جائیں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں کیمرہ اٹھائے وہاں آپ سے اسی طرح سوال پوچھ سکوں گی؟ ان نے مسکرا کر جواب دیتے ہوئے کہا کہ بالکل لیکن صرف آپ کو اسلامی حجاب پہننا ہوگا۔
    آزادیاں خطرے میں
    میں نے ہوٹل کی راہداریوں میں دیکھا کہ طالبان کے مندوبین کو غیر ملکی خواتین کو مختلف نوعیت کے کپڑوں میں گھومتے دیکھ کر کوئی پریشانی نہیں ہو رہی اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ کیا یہ جنگجو افغانستان میں بھی عورتوں جس طرح چاہیں ان کو اسی طرح رہنے کی اجازت دیں گے۔
    خواتین کے حقوق اور ان کی آزادیوں کے معاملے پر بات چیت فریقین کے درمیان مذاکرات کے دوران سب سے کٹھن مرحلہ ہوگا۔
    مذاکرات کے لیے مقررہ کردہ سرکاری وفد کی پانچ ارکان خواتین ہیں جن کا سامنا ایک ایسے گروہ سے ہے جس میں کوئی عورت شامل نہیں ہے اور جو اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ خواتین سے شرعی قوانین کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیے۔
    یہ خواتین دوسرے نازک معاملات سمیت ان مسئلے پر بھی بات کریں گی کہ کیا گذشتہ دو دہائیوں کے دوران ان کی کامیابیوں کا مذاکرات کے دوران غور کیا جائے گا اور کیا ان کو احترام کیا جائے گا۔
    میں نے طالبان کے ایک اور رہنما سے پوچھا کہ ان کا خواتین کے بارے میں کیا خیال ہے اور ان کے وفد میں کوئی خاتون کیوں شامل نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین شامل ہیں لیکن وہ پس پردہ کام کر رہی ہیں اور ابھی انھیں سامنے لانے کا موقع نہیں آیا۔
    انہوں نے کہا کہ خواتین کے کام کرنے پر طالبان کو کوئی اعتراض نہیں ہے بس وہ اتنا چاہتے ہیں کہ ان کی حرمت کا خیال رکھا جائے اور ان کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔ انہوں نے مذاق کرتے ہوئے کہا آپ کی طرح نہیں یہاں کام کرتے اور تھکتے ہوئے۔
    نسل کا فرق
    دوحا میں طالبان کی دو نسلوں کو ساتھ ساتھ دیکھنا بہت دلچسپ لگا۔ ایک گروپ عمر رسیدہ طالبان کا تھا جو سنجیدہ اور ستے ہوئے چہروں کے ساتھ سامنے والی صف میں بیٹھے ہوئے تھے جب کہ ان کے بالکل برعکس کھلے ڈھلے اور پرسکون انداز میں نوجوان طالبان ان کے پیچھے بیٹھے تھے۔
    طالبان وفد کے سربراہ ملا برادر جب ہال میں داخل ہوئے تو فوری طور پر آپ محسوس کر سکتے تھے کہ ماحول پر ایک سنجیدگی طاری ہو گئی ہے لیکن ان کی عدم موجودگی میں طالبان کے وفد کے شرکا کا رویہ بالکل مختلف ہوتا تھا۔
    میں نے طالبان کے وفد کے نو شرکا سے بات چیت اور نوجوان طالبان تک رسائی کافی آسان تھی۔ وہ کافی باتونی اور بات چیت پر آمادہ نظر آئے اور ان کے لیے ایک خاتون سے بات کرنا کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی۔
    طالبان میں نوجوانوں اور خواتین کی پالیسی سازی کی سطح پر کوئی عمل دخل نہیں ہے لیکن طالبان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ افغانستان کی آبادی کی اکثریت اب نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ وہ نسل ہے جسے تعلیم، انٹرنیٹ اور سمارٹ فون تک دسترس حاصل ہے اور جو آج یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے میں ان کا بھی حصہ ہونا چاہیے۔
    ان کا مستقبل کیسا ہو گا؟
    میں نے جو کچھ دوحا میں دیکھا یقینی طور پر اس میں کچھ مثبت اشارے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دوحا میں اجلے سفید لباس میں مذاکرات کے موجود طالبان سے کہیں زیادہ طالبان جنگی لباس زیب تن کیے افغانستان کے محاذوں پر حکومت سے جنگ کے لیے موجود ہیں۔
    بشکریہ:bbc

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS