شاہد زبیری
انتخابات کی آہٹ کے ساتھ ہی یو پی کی سیاست کا درجۂ حرارت بڑھنے لگا ہے بی جے پی اور کانگریس اپنی اپنی جگہ ہاتھ پائوں مار رہی ہیں اب بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی بھی سرگرم ہو گئی ہیں۔ سمیلنوں اور کانفرنسوں کادور چل پڑا ہے اور نئے ووٹ بینک بنائے جا رہے ہیں۔ایک زمانہ میں کانگریس کا ووٹ بینک سمجھا جانے والا برہمن ووٹ بینک جو اب بی جے پی کے کھاتہ میں چلا گیا ہے بظاہر بی جے پی کے ہاتھ سے پھسلتا دکھائی دے رہا ہے اس ووٹ بینک پر بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی دونوں کی نظریں ہیں۔ برہمنوں کی بی جے پی سے ناراضگی کی بہت سی وجوہات بتا ئی جاتی ہیں، ان میں برہمنوں کے ساتھ یو گی سرکار کا امتیازی سلوک، یوپی سرکار میں وکاس دوبے جیسے دبنگ اور گروہ بند کی پولیس کے ہاتھوں ڈارامائی موت اور اس کے گھر پر چلنے والا بلڈوزر، سابق آئی اے ایس اروند شرما کے ساتھ یو گی کا سلوک ،یو گی سرکار میں برہمنوں کی نمائندگی کاسوال وغیرہ۔ یو پی کے 2022کے انتخابات میں کیا واقعی برہمن ووٹ بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جائے گا یہ کہنا ابھی مشکل ہے اس لئے کہ کانگریس کے بعد اگر بی جے پی کا ڈی این اے کسی سے ملتا ہے تو وہ پارٹی کے ہندوتو ا کی بنیاد بر ہمن ہیں۔ بر ہمنوں کے بغیر ہندوتوا کی دھار کند ہو جائے گی اس لئے بی جے پی ہر ممکن کوشش کرے گی کہ بی جے پی کا ووٹ بینک اس کے ہاتھ سے نہ پھسلے لیکن بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی اپنے طور پر برہمنوں پر ڈورے ڈال رہی ہیں اوراپنا پریم جال بچھارہی ہیں۔ اس لحاظ سے یو پی میں جو سیاسی منظر نامہ ابھر رہا ہے اس میں اس مرتبہ مسلم ووٹ بینک کی جگہ برہمن ووٹ بینک نے لے لی ہے اور یوپی کی انتخابی سیاست کا محور بر ہمن ووٹ بینک بن رہا ہے ۔
اس سیاسی منظر نامہ میں بی ایس پی کے قومی جنرل سکریٹری ستیش چندر مشرا نے ایودھیا سے 24جولائی کوجے شری رام کے نعرہ کے ساتھ بی ایس پی کا انتخابی بگل بجا یا اوربرہمن سمیلن کا انعقاد کیا جس کو پر بدھ سمیلن کا نام دیا گیا ۔ اس میں ستیش چندر مشرا نے برہمنوں سے ان کے احترام ، تحفظ ،ترقی اور سرکار میں حصّہ داری کا وعدہ کرکے سیاسی پانسہ پھیکا تھا ۔بی ایس پی برہمنوں کے ایسے سمیلن پر بدھ سمیلن کے نام سے یوپی کے تمام اضلاع میں کررہی ہے، برہمن سمیلن کا نام بدل کر پر بدھ سمیلن رکھنا اس کی قانونی ہے کیونکہ یو پی ہائی کورٹ نے ذات برادری کے نام پر سیاسی پروگراموں پر پابندی عائد کر دی ہے ۔ایسے ہی /5 اگست کو شاہجہانپور کے ایک سمیلن میں ستیش چندر مشرا نے 23 فیصد دلت اور 16فیصد برہمن ووٹ کے بل پر یو پی میں بی ایس پی کی حکو مت بنا نے کا دعویٰ کردیا۔ وہ برہمنوں کو یہ یاد دلارہے ہیں کہ بی ایس پی سرکار میں 45برہمن تھے جن میں 15کابینہ وزیر ،35 چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین ،15ایم ایل سی اور 5000 سرکاری وکیل بنا ئے گئے تھے۔ برہمن سمیلنوں میں وہ یوگی سرکار پر الزام لگا رہے ہیں کہ ان کی سرکار میں دلت اور برہمنوں کی بیٹیاں خوفزدہ ہیں، انہیں ڈرایا دھمکا یا جا رہا ہے اور بی جے پی برہمنوں کو اپنا نمبر ون دشمن مان رہی ہے۔بی ایس پی 2007میں دلت برہمن گٹھ جوڑ سے مکمل اکثریت کے ساتھ سرکار چلا چکی ہے اور 2007 ہی بی ایس پی میں نظریاتی تبدیلی کا ٹرننگ پوائنٹ مانا جاتا ہے۔ کانشی رام نے 1984میں بی ایس پی کی بنیاد دلت ، او بی سی اور مسلم اقلیت پر رکھی تھی ان کا دعویٰ تھا کہ ان سب کی آبادی 85فیصد ہے باقی 15فیصد منو وادی اور برہمن وادی طاقتیں ان پر حکمرانی کرر ہی ہیں وہ اپنے جلسوں میں اس کی مثال اپنے فائونٹن پین کو الٹا کرکے دیا کرتے تھے، ان کے زمانہ میں مایاوتی کی موجود گی میں بی ایس پی کے جلسوں میں ’تلک ترازو اور تلوار‘ کے قابلِ اعتراض نعرے لگتے تھے لیکن2006میں کانشی رام کی موت کے بعد2007میں بی ایس پی میں سپریم کورٹ کے وکیل ستیش چندر مشرا جو کبھی دلت چیتنا مشن سے وابستہ نہیں رہے، ان کی انٹری کے ساتھ ہی بی ایس پی میں نظر یا تی تبدیلی شروع ہو گئی تھی ،تلک اور ترازو کے نعرے کی جگہ بی ایس کے انتخابی نشان ہاتھی کو لے کر جو نعرے گڑھے گئے تھے ان میں ‘ہاتھی نہیں گنیش ہے ،برہما وشنو اور مہیش ہے’ ‘برہمن سنکھ بجا ئے گا، ہاتھی بڑھتا جائے گا ‘ کے نعروں نے لے لی تھی۔ جس وقت ان نعروں کے ساتھ بی ایس پی نے یو پی میں سرکار بنا ئی تھی اس وقت بی ایس پی کا کارڈ ووٹ، جاٹو ووٹ کے علاوہ مسلم ووٹ اور او بی سی ووٹ بھی اس کے ساتھ تھے اب صرف جاٹو ووٹ ہی بی ایس پی کے ساتھ ہیں،باقی ووٹ تھوڑا بہت ہی بی ایس پی کے پاس ہے ۔ کیا بی ایس پی جاٹو ووٹ اور برہمن ووٹ کے بل پر یو پی میں سرکار بنا لے گی؟ اور 2007کی تاریخ دہرا ئی جا ئے گی؟ سیاسی پنڈتوں کی مانیں تو اس کے پسِ پشت کھیل دوسرا ہے۔ ڈور کہیں اور سے کھینچی جارہی ہے۔ الزام ہے کہ بی جے پی کے اشارہ پر بی ایس پی برہمن کارڈ کھیل رہی ہے تاکہ نا راض برہمن کے ووٹوں کو سماجوادی پارٹی کے کھاتہ میں جانے سے روکا جا سکے۔ معلوم نہیں اس الزام میں کتنی صداقت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بی ایس پی کا فوکس اس مرتبہ مسلمان اور او بی سی پر نہیں برہمنوںپر ہے اور اسی لئے برہمن سمیلن ہر ضلع میں کئے جا رہے ہیں اور اس کا برہمن پریم چھلکا پڑ رہا ہے ۔
بی جے پی کی چانکیہ سیاست پر نظر رکھنے والے سیاسی پنڈتوں کی مانیں تو سماجوادی پارٹی نے بھی ہندوتوا کی جگہ نرم ہندتوا کی طرف پہلا قدم رکھ دیا ہے اور لگ رہا ہے کہ بی جے پی نے پورے ملک خاص کر یو پی میں جو سیاسی ماحول تیار کیا ہے اور ہندتوا کا جال بچھایا ہے، اس میں بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی پھنس چکی ہیں اور بی جے پی کے تیارکر دہ ٹریک پر چلنا ان کی مجبوری بن گئی ہے۔
برہمن ووٹ بینک کے پریم میں سماجوادی پارٹی بھی کم نہیں ہے۔سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش سنگھ پارٹی کی سرکار آنے پر برہمنوں کے دیوتا بھگوان پرشو رام کی مورتیاں یوپی بھر کے اضلاع میں نصب کرائے جانے کا برہمنوں سے وعدہ کر چکے ہیں۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بی ایس پی کا قیام کانشی رام نے دلتوں کے سیاسی وقار اور حصّہ داری کیلئے کیا تھا اور ملائم سنگھ نے اوبی سی زمرہ میں شامل پسماندہ ہندو مسلم برادیوں کو سیاسی طور پر مضبوط بنا نے کیلئے سماجوادی پارٹی کی بنیا د رکھی تھی اور دونوں رہنمائوں میں سماجی انصاف اور سرکار میں حصّہ داری قدرے مشترک تھی۔ اسی لئے کانشی رام کی زندگی میں جب بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی نے اتحاد کیا تھا یہ نعرہ گونجا تھا کہ’ ملے ملائم کانشی رام۔۔ ہوا میں اڑگئے جے شری رام ‘۔۔ یہاں جے شری رام سے مراد بی جے پی تھی اور جے سیا رام کی بجائے جے شری رام کا نعرہ آج بھی بی جے پی کا ہے جو خالص سیاسی نعرہ بن گیا ہے ۔بی ایس پی میں تو کانشی رام کی موت کے بعد نظریاتی تبدیلی آئی۔ سماجوادی پارٹی نے تو اپنے بانی ملائم سنگھ یادو کی زندگی میں نظر یات سے یو ٹرن لے لیا۔ پہلا ٹرن امر سنگھ کے زمانہ میں اس وقت لیا تھا جب مایاواتی سرکار نے سماجوادی پارٹی کے لیڈر راجہ بھیّا کو گرفتار کیا تھا اور امر سنگھ کی ایما پر پارٹی نے ٹھاکروں کے سمیلن شروع کئے تھے، یہ دوسرا ٹرن ہے کہ بی ایس پی کی طرح سماجوادی پارٹی بھی برہمن ووٹ بینک کی چاہ میں برہمنوں پر ڈورے ڈال رہی ہے۔بی جے پی کی چانکیہ سیاست پر نظر رکھنے والے سیاسی پنڈتوں کی مانیں تو سماجوادی پارٹی نے بھی ہندوتوا کی جگہ نرم ہندتوا کی طرف پہلا قدم رکھ دیا ہے اور لگ رہا ہے کہ بی جے پی نے پو رے ملک خاص کر یو پی میں جو سیاسی ماحول تیار کیا ہے اور ہندتوا کا جال بچھا یا ہے، اس میں بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی پھنس چکی ہیں اور بی جے پی کے تیارکر دہ ٹریک پر چلنا ان کی مجبوری بن گئی ہے۔ مغربی بنگال میں بھی ممتا بنرجی نے ہندوتوا کی کاٹ کیلئے اسٹیج پر ہی چنڈی پاٹھ کیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اکثریتی ووٹ بینک کے دبدبہ نے سیکولر کہی جا نے پارٹیوں کے سامنے یہ مجبوری کھڑی کردی ہے۔ یو پی میں بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی اگر بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنا چا ہتی ہیں تو لازم ہے کہ وہ بنیادی ایشوز کو اٹھا ئیں، سماجی انصاف اور سیاسی حصّہ داری کے سا تھ کورو نا سے اموات، بیروز گاری،پولیس انکائونٹر میںمارے گئے یا جیلوں میں بھیجے گئے دلت ، او بی سی اور مسلم اقلیت کے نوجوانوں کا ایشو ، ملازمتوں میں دھاندلی،مہنگائی ،کسانوں کے مسائل اٹھائیں لیکن اب جبکہ چند ماہ یو پی کے انتخابات میں رہ گئے ہیں ان بنیادی ایشوز کو اٹھانے کی بجا ئے یو پی کی دو بڑی پارٹیاں برہمن ووٹوں کو اپنی جھولی میں ڈالنے کیلئے تگ و دو کررہی ہیں اور بر ہمن ووٹوں کی سیاست میں لگ گئی ہیں ۔ دونوں پارٹیوں کو یہ نہیں بھولنا چا ہئے جب تک وہ بنیادی مسائل کو ایشو نہیں بنائیںگی صرف برہمنوں کے کندھے پر سوار ہوکر گدی پر نہیں بیٹھ سکتی ہیں اور پھر اس کی بھی گارنٹی نہیں ہے کہ جوبرہمنوں کی بی جے پی سے ناراضگی ہے الیکشن تک رہ پائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی کا برہمن ووٹ بینک پریم یو پی کی سیاست میں کیا گل کھلا تا ہے اور کس کے ہاتھ کیا لگتا ہے اور ہوا کس کے حق میں بنتی ہے ۔
[email protected]