دہلی اردو اکادمی کااب کیا ہو گا ؟

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

دہلی اردو اکادمی کا اب کیا ہو گا ؟ یہ ایک سوال ہے جو دہلی ہی نہیں ہندوستان کے ہر اردو والے کے دل میں دبکا پڑا ہے۔ اس سوال یا خدشے کا ایک ہی سبب ہے کہ گزشتہ دنوں فروری میں جب دہلی میں اسمبلی انتخابات ہوئے تو عام آدمی پارٹی کی ہار ہوئی اور بی جے پی فاتح قرار پائی۔ محترمہ ریکھا گپتا وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کی حکومت بنی۔ بی جے پی کی کئی ریاستوں میں اردو اکادمیاں یا تو بند ہیں یا انتہائی نا گفتہ بہ حالت میں ہیں۔ دہلی اردو اکادمی کا سالانہ بجٹ5.15 کروڑ ہے۔آپ کو حیرانی ہو گی کہ پنجابی اکادمی کو سال کے 40کروڑ ملتے رہے ہیں۔یہ بجٹ 2021-22 میں الاٹ ہوا تھا جو اب تک چلا آرہا ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ ہی اس کے چیئر مین ہوتے ہیں۔

دہلی اردو،اکادمی نے اس بجٹ میں دھوم مچائی اور اردو کی فلاح و بہبود کے لیے بہت سارے کا م کیے۔دہلی اردو اکادمی نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔اس کی بنیاد 31 مارچ1981میں پڑی۔اس کے قیام کے مقاصد اردو زبان و ادب کا فروغ،کلچرل پروگراموں کا انعقاداور تعلیمی معیار کو بلند کر نا تھے۔2000میں سرکار کے ایک بل کے ذریعہ اردو کو دہلی کی دوسری سرکاری زبان تسلیم کیا گیا۔اردو اکادمی کے قیام کے بعد دہلی میں بہت سارے کام ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہلی اردو اکادمی نے اردو کے فروغ کے بہت سے کام کیے۔شریف الحسن نقوی،گوپی چند نارنگ، قمر رئیس، مخمور سعیدی، زبیر رضوی، پروفیسر صادق، الیاس اعظمی،اختر الواسع،خالد محمود،شہپر رسول جیسے ادیب و شاعر اس سے وابستہ رہے۔عرصہ دراز تک مشہور تھا کہ دہلی اردو اکادمی کی ذمہ داری تین لوگ انیس اعظمی،شمیم الحسن اور راغب الدین کے شانوں پر رہی۔سیکریٹری یا وائس چیئرمین بدلتے رہے لیکن یہ پرانے زمانے کی باتیں ہوگئیں۔ اتفاق ہے کہ اب بھی اکادمی کی زیادہ تر ذمہ داری محمد ہارون(اسٹنٹ پبلی کیشنز آفیسر)، پونم سنگھ(اسٹنٹ پروگرام آفیسر) اور عزیز حسن(سیلز انچارج)ہی سنبھالتے ہیں۔

دہلی اردو اکادمی اپنی ابتدا سے ہی مختلف قسم کے ایسے کام،جن سے حقیقتاً اردو کا فروغ ہوتا ہو، کرتی آئی ہے۔ شریف الحسن نقوی کے زمانے سے ہی اردو اکادمی نے اردو کے فروغ کے کام کر نے شروع کر دیے تھے۔اس کے خاص کاموں میں پبلشنگ، تراجم، کتابوں کی اشاعت،تحقیقی کام، ڈرامے فیسٹیول کا انعقاد، سمینارز، سمپوزیم، مشاعرے،ادبی شخصیات کا اعزاز، کتابوں اور ادبی شخصیات کو ان کی خدمات کے لیے ایوارڈ سے نوازنا،اردو سکھانے کے مراکز قائم کرنا،ایک کتب خانہ کا قیام،شام غزل، قوالی، مونوگراف کی تصنیف و تا لیف،پرانی کتابوں کی اشاعت پرائمری سے لے کر سیکنڈری تک کے طالب علموں کو اسکالرشپ فراہم کرنا، دہلی کی یونیورسٹیز کے ریسرچ اسکالر ز کو اسکالر شپ دینا،بیرونِ ملک یا بیرونِ شہر سے آنے والی اردو کی عظیم شخصیات کا اعزازوغیرہ ایسے کام ہیں جو اردو اکادمی مسلسل کرتی آرہی ہے۔

مشاعرے:دہلی میں کئی مشاعرے اپنی نو عیت اور الگ انداز کی وجہ سے انفرادیت کے حامل رہے ہیں۔ ایک تو شنکرشاد مشاعرہ جوڈی سی ایم کے مشاعرے کے طور پر بھی جا نا جاتا ہے۔ اس کے بانی صنعت کار لالہ شری رام تھے جو اردو کے بہت بڑے شیدائی اور قومی یکجہتی کے دلدادہ تھے۔ اس کے زیادہ تر مشاعرے بنگلہ نمبر12، کرزن روڈ (موجودہ کے جی مارگ) پر ہوا کرتے تھے۔ اس میں پاکستان سمیت پوری دنیا کے معروف شعرائے کرام حصہ لیتے تھے۔اس کا56واں مشاعرہ عمل میں آچکا ہے۔اب اس کا انتظام و انصرام کامنا پر ساد کرتی ہیں۔یہ دہلی کے یادگار عظیم الشان مشاعرے ہوتے ہیں۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے منعقد ہونے والا مشاعرہ بھی تاریخی اور یاد گار ہوتا ہے۔یہ ہر سال ’’ یوم غالب‘‘ کے موقع پر سہ روزہ بین الاقوامی پروگراموں کا حصہ ہوتا ہے۔یہ عالمی مشاعرہ ہوتا ہے۔یہ مشاعرہ ہندوستان کے سر کردہ آور شاعر اور بیرونِ ہند کے سمینار میں مدعو اسکالر شاعر کی شمولیت سے منعقد ہوتا ہے۔

اردو اکادمی اپنے قیام سے ہی یوم جمہوریہ اور یوم ِآزادی پر مشاعرے منعقد کرتی آئی ہے۔پہلے یہ مشاعرے لال قلعے کے وسیع و عریض سبزہ زار پر ہوا کرتے تھے۔ ان مشاعروں کی بڑی دھوم تھی۔دہلی اور آس پاس کے ہزاروں سامعین اور ناظرین اس میں شان سے شرکت کرتے تھے۔شعرا ء ان مشاعروں میں شمولیت کے لیے ہرممکن کوشش کرتے تھے۔اب یہ مشاعرے سیکورٹی کے نقطۂ نظر سے لال قلعے میں نہیں ہوتے۔دوسرے کووڈ-19 کے سبب بھی بھیڑ کچھ کم ہوئی ہے۔اب ان مشاعروں کا انعقاد مختلف ہال اور مختلف جگہوں پر ہوتا ہے۔ گزشتہ سال یہ مشاعرہ جامع مسجد کے سامنے ’ اردو پارک‘ میں ہوا تھا۔اس کے علاوہ دہلی اردو اکادمی ہر سال یومِ اساتذہ 5ستمبر کے موقع پر ’’مشاعرۂ اساتذہ‘‘ کا انعقاد کرتی ہے۔یہ اپنی نوعیت کا اردو میں انوکھا مشاعرہ ہے۔اس میں یونیورسٹیز کے شاعر اساتذہ اورسرکار ی اسکولوں کے اساتذہ حصہ لیتے ہیں۔

نئے پرانے چراغ: یہ اپنی طرز کا انوکھا اور البیلا ادبی اجتماع ہے۔اردو اکادمی کئی عشرے سے اس پروگرام کا انتظام کرتی رہی ہے۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو اکادمی کی پہچان جن پروگراموں سے ہے، ان میں ’نئے پرانے چراغ‘سرفہرست ہے۔اس میں صرف دہلی کے ہی ادیب و شعرا شرکت کر سکتے ہیں۔اس سال یہ 14 سے 18 فروری کے دوران منعقد ہوا،جس میں پہلے دن افتتاح اور مشاعرہ، باقی دنوں میں تین تین نشستیں پہلی مقالہ نگاران کی،دوسری تخلیق کاروں کی اور آخری نشست مشاعرے پر مشتمل تھی۔ اس ہندوستان کے سب سے بڑے اردو کے ادبی اجتماع میں پانچ دن میں 253 شعرا، 43مقا لہ نگاران اور 60تخلیق کار( افسانہ نگار،خاکہ نویس،سفر نامہ نگار،انشائیہ نگار)شریک ہوئے اور اپنی تخلیقات سے نوازا۔اس طرح اس ادبی اجتماع میں صدور، مہمان وغیرہ کو چھوڑ کرتقریباً 350ادباء و شعرا شریک ہوئے۔اردو اکادمی دہلی دو رسائل بھی شائع کرتی ہے۔ ماہنامہ ’ایوانِ اردو ‘اور بچوں کا ماہنامہ’’ امنگ‘‘ پابندی سے شائع ہوتا ہے۔ ایوان اردو میں افسانے، مضامین و مقالات، شاعری، تبصرہ و تعارف،قاری کے خطوط،خبر نامہ اور اداریہ شامل ہوتا ہے۔پہلے یہ بلیک اینڈ ہائٹ شائع ہوتا تھا۔ادھر ایک آدھ سال سے اس کا سائز بھی ’اردو دنیا ‘کے برابر ہوگیا ہے اور ہرصفحہ رنگین بھی۔یہی معاملہ ’امنگ ‘ کا بھی ہے۔بس اس کا مقصد بچوں کی ذہنی تربیت اور بچوں میں اردو کا فروغ ہے۔فی زمانہ یہ رسائل دہلی اردو اکادمی کی شناخت بنے ہوئے ہیں۔
بہت سے اور پروگرام، کوچنگ اسکول،سال میں کئی قومی سمینارز،ورکشاپ،خطبات،کتابوں کے اجرا، کتا بوں کی اشاعت،ڈرامہ فیسٹیول ایسے ہیں جو ہمیشہ جاری رہتے ہیں۔گزشتہ دنوں پروفیسر شہپر رسول اکادمی کے وائس چیئرمین تھے۔ان کے زمانے میں کافی کام ہوئے۔ادھر دو ایک ماہ سے اکادمی میں گورننگ کونسل ہے نہ وائس چیئرمین، اب دیکھئے کیا ہوتا ہے۔بہت ضروری اور روٹین کے کام جاری ہیں۔لیکن اب دہلی میں بی جے پی سرکار آگئی ہے۔وہ کب دہلی اردو اکادمی کی گورننگ کونسل اور وائس چیئرمین بناتی ہے۔اردو والوں میں سناٹا ہے۔سب انتظار میں ہیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS