’آپریشن سندور‘ پر پارلیمنٹ میں بحث سے کیا ملا؟: صبیح احمد

0

صبیح احمد

مانسون اجلاس کے دوران پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران وزیراعظم نریندر مودی نے ’آپریشن سندور‘ سے متعلق ’مبہم‘ دعویٰ کیا ہے کہ ’دنیا کے کسی بھی رہنما نے ہندوستان کو اپنی کارروائی روکنے کو نہیں کہا تھا۔‘ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا نام لیے بغیر وزیراعظم کا کہناتھا کہ ’دنیا کے کسی بھی لیڈر نے ہندوستان سے پاکستان کے خلاف کارروائی کو روکنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ پاکستان کے ’ڈی جی ایم او‘ نے ہندوستان کے ’ڈی جی ایم او‘ سے حملہ روکنے کی گزارش کی تھی کیوں کہ وہ ہمارا حملہ نہیں جھیل پا رہا تھا۔‘ اور یہ کہ ’ہندوستان نے نیو نارمل سیٹ کر دیا ہے کہ آئندہ حملہ ہوا تو اس کا اسی طرح جواب دیا جائے گا۔‘ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بار بار یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی اور ہندوستانی قیادت کو فون کر کے تجارت کی دھمکی دے کر جنگ رکوائی تھی اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ایٹمی جنگ چھڑ جاتی جس میں لاکھوں لوگ مارے جاتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ادھر ہندوستانی وزیراعظم مودی لوک سبھا میں خطاب کے دوران یہ دعوے کر رہے تھے اور ادھر سرحد پار پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف ایک تقریب سے خطاب کے دوران دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان فائر بندی کو ممکن بنانے کے لیے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کوششوں کو سراہ رہے تھے۔ اس سے قبل بھی شہباز شریف اور پاکستان کے دیگر اعلیٰ عہدیدار مختلف موقعوں پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بند کروانے کا کریڈٹ کھل کر امریکی صدر کو دیتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان نے صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام دیے جانے کی سفارش بھی کر دی ہے۔

بہرحال پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ’آپریشن سندور‘ پر بحث کے دوران حزب اختلاف کے ارکان نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ حکمراں طبقہ کے دعوؤں پر یقین کرنے کو قطعی راضی نہیں ہوئے۔ وزیراعظم مودی اور ان کے وزرا نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں آپریشن سندور سے متعلق اٹھائے گئے سوالات کے جواب دینے کی کوشش تو کی لیکن اراکین ان وضاحتوں سے مطمئن نظر نہیں آئے۔ دونوں ایوانوں میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں نے کئی موقعوں پر آپریشن سندور کو اس طرح ختم کیے جانے پرمودی حکومت کے خلاف ’شیم شیم‘ کے نعرے بھی لگائے۔ لوک سبھا میں اپوزیشن کے رہنما راہل گاندھی نے واضح طورپر الزام لگایا کہ ’میں کہتا ہوں، آپ نے 35 منٹ میں ہی پاکستان کے سامنے سرینڈر کر دیا۔ یہ بتا دیا کہ آپ کے پاس لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ سرکار نے پائلٹوں کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے۔ ‘راہل نے باضابطہ چیلنج کیا کہ اگر وزیراعظم(مودی) میں (آئرن لیڈی) اندرا گاندھی کی طرح 50 فیصد بھی دم ہے تو وہ کہیں کہ ٹرمپ نے ہندوستان اور پاکستان میں سیز فائر نہیں کرایا۔‘ سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی جرأت کی داد دیتے ہوئے راہل گاندھی نے وزیراعظم مودی کی غیرت کو للکارا اور انہیں صلاح دی کہ وہ بھی اندرا گاندھی کی آدھی ہمت جٹا کر پاکستان کو سبق سکھا سکتے تھے، اگر ’آپریشن سندور‘ کے دوران اپنی افواج کے ہاتھ پیچھے سے باندھے نہ ہوتے۔

حالانکہ وزیراعظم مودی نے اپنے خطاب کے دوران جنگ ختم ہونے کے بارے میں واضح کیا کہ ’پاکستان کے ’ڈی جی ایم او ‘نے فون کر کے کہا، بس کریں، ہم بہت مار کھا چکے ہیں۔‘ وزیراعظم کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ’ہم نے فوج کو کھلی چھوٹ دی کہ کب، کہاں اور کیسے کارروائی کرنی ہے، وہ خود فیصلہ کرے۔‘ اور یہ کہ ’ہم نے 22 اپریل کے حملے کا بدلہ صرف 22 منٹ میں لے لیا اور ’ہم نے دکھا دیا کہ ایٹمی بلیک میلنگ ہمارے سامنے نہیں چلتی۔‘لیکن اپوزیشن ارکان ان وضاحتوں پر ہرگز یقین کرنے کوتیار نہیں تھے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگر جنگ رکوانے میں امریکی صدر کا واقعی کوئی رول نہیں تھا تو وزیراعظم مودی ملک کے عوام کو واضح طور پر بتائیں کہ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں،جو شاید وزیراعظم مودی کے لیے ممکن نہیں ہے! کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں نے 4-5 سوالوں کے ہی جواب مانگے تھے اور وزیراعظم نریندر مودی کو پارلیمنٹ میں آکر اس مطالبہ کو پورا کرنے پر زور دیا تھا مگر وہ آئے بھی اس وقت جب پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے لیڈر راہل گاندھی نے حکمراں جماعت کو دیوار سے لگا دیا تھا اور ان کی تقریر ختم ہو چکی تھی۔ بعد میں بعض میڈیا اداروں نے خبر دی کہ وزیراعظم پارلیمنٹ ہائوس کے دوسرے کمرے میں راہل کی تقریر سن رہے تھے۔ اپوزیشن نے پاکستان-چین دفاعی شراکت داری کو ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی شکست سے تعبیر کیا جن کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لیے ماضی کی کانگریس سرکارنے اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دی تھی۔ راہل گاندھی نے زور دے کر کہا کہ وزیراعظم اور وزیر دفاع چین کا نام لینے سے بھی کترا رہے ہیں۔

اپوزیشن رہنماؤں کی دھواں دار تقاریر کے بعد پارلیمنٹ میں وزیراعظم مودی کا بے صبری سے انتظار کیا جا رہا تھا کہ وہ اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دے کر آپریشن سندور کی اس بحث کو ختم کریں گے۔ انہوں نے حالیہ جنگ میں ہندوستان کی کامیابی جتا کر سب کو چپ کرا دیا۔ مودی کی تقریر میں پاکستان کا نام نہیں تھا مگر دہشت گردی اور دہشت گردوں کے آقا کا بار بار ذکر کر کے وہ پاکستان کو نشانہ بناتے رہے اور کانگریس کو پاکستان کا ترجمان بتا کر پارٹی کی امیج کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بہرحال اپوزیشن نے عوام کے دماغ میں یہ سوال تو ڈال ہی دیا ہے کہ جس لیڈر میں سیاسی جرأت نہیں بلکہ جنہیں ملک کے مقابلے اپنی امیج اور شخصیت سب سے زیادہ عزیز ہے، اس کو سوا ارب آبادی پر حکومت کرنے کا کیا کوئی حق بنتا ہے؟

بی جے پی کی حکومت میں شامل 2 اتحادی جماعتیں تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ آپریشن سندور میں بی جے پی کی پالیسی اور جنگی شعورکے باعث کہیں اپنے ووٹ بینک سے محروم نہ ہو جائیں۔ بہار میں بی جے پی کے اتحادی وزیراعلیٰ نتیش کمار کی پوزیشن انتہائی کمزور بتائی جا رہی ہے جہاں عنقریب ہی ریاستی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی کے فوراً بعد وزیراعظم مودی بہار پہنچ گئے اور عوامی جلسے میں آپریشن سندور کی کامیابی جتا کر ووٹروں کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیے۔ بی جے پی کو یقین ہے کہ وہ نہ صرف پورے 5 سال حکومت کرتی رہے گی بلکہ 2047 تک وہ ہندوستان کے تخت پر براجمان رہے گی جب ملک حصول آزادی کا صد سالہ جشن منائے گا۔ مگر اپوزیشن کی مودی کے خلاف مہم، آپریشن سندور میں تضادات اور ٹرمپ کی ثالثی کے دعوؤں کے باعث بی جے پی شدید دباؤ میں آ گئی ہے۔

آپریشن سندور پر بین الاقوامی ردعمل کے پیش نظر اب یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ ہندوستان کی پوزیشن سفارتی سطح پر کمزور ہوگئی ہے۔ اس کی وجوہات میں روس اور یوکرین جنگ میں ہندوستان کا کردار اور لداخ میں چینی پیش رفت کے باوجود مودی کا خاموش رہنا بتائی جا رہی ہیں جو امریکہ اور مغربی ملکوں کو کھلتا رہا ہے۔ ملکی سطح پر بی جے پی کو امید تھی کہ آپریشن سندور کی کامیابی کو آئندہ انتخابات میں استعمال کیا جائے گا مگر اچانک فائر بندی اور ٹرمپ کے ثالثی کے دعوؤںسے عوامی حلقوں میں سخت مایوسی پھیل گئی ہے، خاص طور سے بی جے پی کے ورکروں اور چاہنے والوں کو اس سب کی توقع نہیں تھی۔ عوام پرامید تھے کہ سرکار اگر کچھ نہیں تو کم از کم پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کا کچھ حصہ ضرور حاصل کرلے گی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کی شخصیت بہت حد تک متاثر ہوگئی ہے۔ ان کے کروڑوں چاہنے والوں کو مودی کی شخصیت ناقابل تسخیر لگ رہی تھی مگر حالیہ حملے کی نوعیت نے اس تاثر کو کم کردیا ہے۔ اب عوام کی نگاہیں اپوزیشن رہنماؤں پر ٹکی ہوئی ہیں کہ کیا وہ مودی اور ان کی سرکار کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں؟ اس سب کا انحصار اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پر ہوگا، خاص طور سے کانگریس اور ترنمول کانگریس پر جس کے خلاف مودی نے اپنا مورچہ تیار رکھا ہے۔

sasalika786@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS