ایم اے کنول جعفری
ریاستی اور مرکزی انتخابات میں جیت کا سہرا ہمیشہ اعلیٰ قیادت کے سر پر بندھنے اور ہار کا ٹھیکرا آپسی چپقلش، پھوٹ اور دیگر رہنماؤں کے سروں پر پھوڑے جانے کی روایت چلی آ رہی ہے۔ہریانہ اور جموں و کشمیرکے انتخابات میں کانگریس اور اس کی قیادت والے اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو صاف طور پر جیت ملتی دکھائی دے رہی تھی۔تمام ایگزٹ پولز کے نتائج بھی کانگریس اور ’انڈیا‘ کی جیت کے دعوے کر رہے تھے۔سیاسی جماعتوں کے کئی لیڈران یہ مان کر چل رہے تھے کہ ہریانہ اور جموں کشمیر میں بی جے پی اور اس کی قیادت والے الائنس کو زبردست شکست کا سامنا ہے۔ بی جے پی کے رہنمادونوں ریاستوں میںپارٹی کی ہار تسلیم کرتے دیکھے جا رہے تھے۔ نتیجے والے روز دوپہربعد تک کانگریس فتح کی راہ پردوڑ رہی تھی۔ کارکنان نے جیت کا جشن بھی منانا شروع کر دیا تھا۔ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد شروع سے آخر تک فتح کی را ہ پر گامزن رہا،لیکن ہریانہ میں یہ سلسلہ قائم نہیں رہا۔اچانک فتح شکست اور شکست فتح میں تبدیل ہوگئی۔ مرجھائے چہرے کھل اُٹھے اور خوشیاں منارہے لوگوں کے چہرے مرجھائے پھولوں کی طرح لٹک گئے۔
90سیٹوںوالے جموں و کشمیر میں ’جموں اینڈ کشمیرنیشنل کانفرنس‘(جے کے این) کو23.43 فیصدووٹوں کی بدولت42نشستیں ملیں۔ گزشتہ انتخاب میں اسے 20.77فیصد ووٹوں کے ساتھ 15نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ اتحادی پارٹی کانگریس11.97فیصد ووٹوں کے دم پر صرف6 نشستیں حاصل کر سکی۔ گزشتہ الیکشن میں اسے 12سیٹیں ملی تھیں۔بی جے پی کو29 سیٹیں ملیں،جو گزشتہ انتخابات سے 4 زیادہ ہیں۔ 2014 میں سب سے زیادہ 28 سیٹوں پر جیت درج کرکے بی جے پی کے ساتھ سرکار بنانے والی محبوبہ مفتی کی جموں اینڈ کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (جے کے پی ڈی پی) کو صرف3نشستوں پر اطمینان کرنا پڑا۔بی جے پی نے سب سے زیادہ 25.64 فیصد ووٹ حاصل کیے۔اس کی سیٹیں بھی بڑھیں، لیکن نیشنل کانفرنس 13سیٹیں زیادہ جیتنے میں کامیاب رہی۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے حکومت سازی کی اور عمرعبداﷲ دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ بنے۔ جموں و کشمیر کی طرح ہریانہ اسمبلی میں بھی90نشستیں ہیں۔ بی جے پی نے 39.94 فیصد ووٹ حاصل کرکے 48نشستوں پر جیت کا پرچم لہرایا۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کو 40 سیٹیں ملی تھیں۔ بی جے پی کو8سیٹوں کا فائدہ پہنچا۔ کانگریس نے 39.09فیصد ووٹوں کی بدولت 37 سیٹوں پر فتح پائی۔ گزشتہ الیکشن میں اسے 28.08 فیصد ووٹوں کے ساتھ31نشستیں ملی تھیں۔ کانگریس کو6 سیٹوں کا فائدہ ہوا۔ گزشتہ انتخابات میں36.49فیصد ووٹوں کے ساتھ40 نشستیں حاصل کر نے والی بی جے پی کی حمایت کر سرکارمیں شامل ہونے والی دُشینت چوٹالہ کی پارٹی جنتا جن نائک پارٹی(جے جے پی) کا مظاہرہ بہت خراب رہا۔صرف0.90فیصد ووٹ حاصل کرنے والی جے جے پی کے ہاتھ خالی رہے۔پارٹی لیڈر دشینت چوٹالہ بھی چناؤ ہارگئے۔گزشتہ الیکشن میں اسے 14.8 فیصد ووٹوں کی بدولت10سیٹیں ملی تھیں۔ 2014 کے مقابلے بہتر مظاہرہ کرنے والی بی جے پی تیسری مرتبہ اپنے دم پر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔یہ الگ بات کہ اس کے8وزراء اور اسپیکرکو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔انڈین نیشنل لوک دل کے حصے میں4.14فیصد ووٹوں کی بدولت2سیٹیں آئیں، لیکن پارٹی رہنما ابھے سنگھ چوٹالہ چناؤ ہار گئے۔گزشتہ انتخاب میں پارٹی کو2.44فیصدووٹوں کے دم پرایک سیٹ ملی تھی۔
جموں و کشمیر میں2008کے اسمبلی انتخابات کے بعد سے بی جے پی کاگراف لگاتاراُوپرگیا۔ 2008 میںاس نے12.45فیصدووٹوں کے ساتھ11سیٹیں جیتی تھیں۔ 2014 میں بی جے پی کا ووٹ فیصد 22.98 ہواتوسیٹیں بڑھ کر دُگنی سے بھی زیادہ 25 ہوگئیں۔حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو24.6 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اسمبلی الیکشن میں 1.04فیصد کا اور اضافہ ہو گیا۔جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 اور 35-Aختم کرنے کے بعدنئی حلقہ بندی میں بڑھی 7سیٹوں میں جموں میں6 اورکشمیر میں 1سیٹ کا اضافہ ہوا۔پہلے جموں میں37اور کشمیر میں 46نشستیں تھیں۔ پارٹی کے رہنما30سے 35سیٹوں پر جیت کا دعویٰ کر رہے تھے،لیکن یہ خواب پورا نہیں ہوا۔ بی جے پی نے سبھی29 سیٹیں جموں ریجن میںجیتیں۔ کشمیر میں اس کا کھاتہ بھی نہیں کھل پایا۔دوسری جانب ہریانہ الیکشن کا نتیجہ بی جے پی کے لیے خوشیوں کا انبار لے کر آیا۔بی جے پی نے خاموش رہ کر زمینی سطح پر کام کرنے کی حکمت عملی سے یقینی شکست کو فتح میں تبدیل کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا۔ کانگریس کے لیے بہت زیادہ خود اعتمادی،زیادہ تر ایگزٹ پولز میں کانگریس کی برتری،ہرشخص کی زبان پر کانگریس کے جے کارے اور بی جے پی کی جانب سے ملتے اسی طرح کے اشاروں سے کانگریس سست پڑگئی۔جیت کے پیشگی جشن میں ووٹروں کے دروازوں پر دستک کو توجہ نہیں دی گئی۔اَدھر کچھوے کی طرح خرگوش کو سوتا چھوڑخاموشی سے آگے بڑھنے کا کام آر ایس ایس کے نمائندوں، بی جے پی کے لیے وقف کارکنوں نے بخوبی انجام دیا۔ اَب شکست و فتح کا فیصلہ ہونے کے بعداہم سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس اس ہار سے کوئی سبق لے گی؟یا ہمیشہ کی طرح پرانے ڈھرے پر چلتی رہے گی۔ یقینی طور پر یہ پارٹی کا نجی معاملہ ہے، لیکن انتخابات کے اعدادوشمار میں دلچسپی رکھنے والے کئی سنجیدہ لوگ یہ کہتے ضرور مل جائیں گے،’ جیتی ہوئی بازی کیسے ہاری جاتی ہے؟ یہ کوئی کانگریس سے سیکھے اور ہاری ہوئی بازی کس طرح جیتی جاتی ہے،یہ بی جے پی سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘اس شکست پر حیدر علی آتش کا یہ شعرپوری طرح صادق آتاہے:
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ ٔخوں نہ نکلا
جموں و کشمیر میں بی جے پی کی سیٹیں بڑھیںتو ہریانہ میں وہ اپنے دم پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی، کانگریس کی قومی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی اور قومی صدر ملکارجن کھرگے سمیت کئی اہم رہنماؤں نے انتخابی مہم میںجی توڑ کوشش کی۔ ان کی جانب سے بڑے بڑے اجتماعوں میں ریزرویشن، آئین، مہنگائی، بے روزگاری، بدعنوانی، خواتین کے جنسی استحصال، طلبا و طالبات کی پریشانیوں، کسانوں، مزدوروں، نوجوانوں اور اگنی ویروں کے مسائل زور شور سے اُٹھائے گئے۔ عوام کو ہر طرح کی راحت دینے کے وعدے کیے گئے،لیکن پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران نے جو کام کیا،اتنے بھر سے کام چلنے والا نہیں تھا۔زمینی سطح پر بھی کام ہونا چاہیے تھا۔دوسری جانب بی جے پی کی سوشل انجینئرنگ نے اپنا کام کیا۔ بڑی سبھاؤں پر فوکس کرنے کے بجائے ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا،جو وہ کر سکتی تھی۔بی جے پی پارلیمانی انتخابات میں چھٹک گئے او بی سی اور دلت طبقے کی36 غیر جاٹ برادریوں کے ووٹروں کا اعتماد بحال کرکے انہیں اپنے ساتھ لانے اور جاٹ خیمے میں نقب لگانے میں بھی کامیاب ہوئی۔ہریانہ کی جیت سے ’مرگ شیا‘ کے قریب جارہی پارٹی کو ’سنجیونی‘ توملی ہی،اس کا اثراگلے کچھ مہینوں میں ہونے والے مہاراشٹرو جھارکھنڈ کے انتخابات اور یو پی کی 10 سیٹوں کے ضمنی الیکشن میں بھی دکھائی دے گا۔ اگلے سال شروع میں دہلی اور اخیر میںبہار اسمبلی کے انتخابات بھی ہوں گے۔ہریانہ کی جیت سے پارٹی کارکنان میں پیدا نااُمیدی دور ہوگی۔ ’مودی برانڈ‘ کی چمک پھر بحال کی جائے گی۔آر ایس ایس نے فعال ہوکر بالواسطہ انتخابات کی ذمہ داری سنبھالی۔ مایوس کارکنوں کو گھروں سے باہر لانے، انتخابی انتظام، ٹکٹوں کی تقسیم اور حکمت عملی میں مداخلت کی بنا پر بنیادی ووٹوں کو بوتھوں تک پہنچانے سے کامیابی ہاتھ لگی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]