اُپیندررائے
کورونا کے دور میں جب ہندوستان گھریلو محاذ پر ایک کے بعد ایک نئے چیلنجز سے نبردآزما ہے، اسی وقت ہمارا پڑوسی چین ایل اے سی پر نئی نئی تعمیرات کرنے میں مصروف ہے۔ حال ہی میں اس نے وادی برہم پتر میں اسٹرٹیجک طور پر اہم ہائی وے کی تعمیر کی ہے۔ یہ ہائی وے اروناچل پردیش کی سرحد کے بے حد نزدیک ہے اور چین کا کہنا ہے کہ اس کا استعمال سول اور فوج دونوں نظریہ سے کیا جاسکے گا۔ آنے والے وقت میں چین یہاں ایک بڑا ڈیم بھی بنانے جارہا ہے۔ لیکن اس سے پہلے جولائی تک چین ہندوستان کی سرحد تک بلیٹ ٹرین بھی شروع کردے گا۔ یہ ٹرین تبت سے لہاسہ تک جائے گی یعنی اروناچل پردیش کی سرحد تک۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو چین ہندوستانی سرحد کے آس پاس بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط کرنے کی چوطرفہ کوششوں میں مصروف ہے۔ اس سب کے دوران تبت اور سنکیانگ صوبہ میں اس کی فوجی صف بندی(Military mobilization) بھی جاری ہے۔ چین جو کچھ کررہا ہے، وہ اپنی سرحد میں کررہا ہے۔ اس لحاظ سے اس میں قابل اعتراض کچھ بھی نہیں ہے، لیکن وہ جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے، وہ فطری نہیں ہے۔ آخر چین ایسا کیوں کررہا ہے؟ وہ چاہتا کیا ہے؟ اس کے ارادے کیا ہیں؟
ان سوالات کے جواب تلاش کرنے میں بے صبری مناسب نہیں ہوگی۔ وہ مستقبل میں پوشیدہ ہیں، جو وقت آنے پر خودبخود سامنے آجائیں گے، لیکن ماضی میں ایسی بہت سی چیزیں ملتی ہیں جو چین کے دماغ میں پک رہی کھچڑی کے بارے میں اشارہ کرتی ہیں۔ انہی اشاروں کے سبب کوئی بھی اس امکان کو خارج کرنے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہے گا کہ یہ ساری تیاری ایل اے سی پر نئے سرے سے حملہ بولنے کے لیے کی جارہی ہے۔ حالاں کہ اس معاملہ میں چین کے لیے گزشتہ سال کا تجربہ کسی سبق سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ پینگونگ تسو جھیل کے ساتھ ہی فنگر-4سے اس کا پیچھے ہٹنا چینی واپسی کی ایک کبھی نہ دیکھی-سنی گئی نایاب مثال تھی۔ وہ بھی ایک نہیں، دو-دو مرتبہ۔ پہلے سال2017میں ڈوکلام میں اور پھر 2020میں لداخ میں۔ بیشک چین نے ابھی بھی اس دور میں غیرقانونی طور پر قبضہ میں لیے گئے پورے متنازع علاقہ کو خالی نہیں کیا ہے، لیکن اس کی اس ضد کے باوجود اسے موسم اور اونچائی کے چیلنج سے بھرے پیمانوں پر ہندوستانی فوج کی تقابلی برتری کا بھی اچھے سے احساس ہے۔ سابقہ دونوں مواقع پر جب چین کو ایل اے سی پر منھ کی کھانی پڑی، تب ہمالیہ پر برف جمنے کا وقت تھا۔ شاید اسی لیے چین نے اپنی چالبازی کے لیے اس مرتبہ بدلے موسم کا انتخاب کیا ہو کہ بدلاموسم شاید اس کی قسمت بھی بدل دے۔ اس بات کا امکان اس لیے بھی زیادہ ہے کیوں کہ جو چین کو جانتے ہیں، وہ بھی یہ مانتے ہیں کہ چین کم سے کم ایسے وقت میں ہندوستان کے ساتھ تال میل بٹھانے میں وقت خراب نہیں کرے گا، جب ہندوستان کورونا جیسے چیلنج سے نبردآزما ہو۔ حالاں کہ اس کے باوجودگزشتہ سال کے تجربہ سے الرٹ ہندوستان ایل اے سی پر اپنے پہرے میں کوئی کوتاہی نہیں برت رہا ہے جو چین کی بوکھلاہٹ میں مزید اضافہ کررہا ہے۔
ایل اے سی پر چینی حملہ کے خدشات کو سمجھنے کے لیے گزشتہ ایک سال میں چین کا رویہ بھی ہماری مدد کرسکتا ہے۔ اس دوران چین کے جنگجوطیاروں نے کئی مرتبہ تائیوان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ جزائر سینکاکو پر اس کی دعویداری نے اسے نہ صرف جاپان کے آمنے سامنے کیا ہے، بلکہ بحیرئہ مشرقی چین میں کشیدگی میں اضافہ بھی کیا ہے۔ اسی طرح بحیرئہ جنوبی چین میں اس نے چینی سمندری ملیشیا کی آڑ میں فلپائن کے قبضہ والے آبی علاقہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، حالاں کہ امریکی مداخلت کے سبب اس کا یہ منصوبہ بھی پورا نہیں ہوسکا۔تقریباً اسی وقفہ میں ہم نے چین کو ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کے قانون کا نفاذ کرکے جمہوری آوازوں کو کچلتے ہوئے بھی دیکھا۔ اس سب کے دوران چین کی سب سے بری جھڑپ آسٹریلیا سے دیکھنے کو ملی، جس سے چین ویسے بھی کواڈ میں اس کی حصہ داری کے سبب خار کھاتا ہے۔ کورونا وائرس کے ذرائع کا پتا لگانے کے لیے جب آسٹریلیا نے چین میں ڈبلیو ایچ او جانچ کی پیروی کی تو چین ایسا بھڑکا کہ اس نے آسٹریلیائی برآمد پر ہی پابندی لگادی۔ آسٹریلیا ہی کیوں، غیرملکی سرمایہ کاری پر چین کی پابندی کا اثر ہندوستان پر بھی پڑا ہے۔ ویسے بھی چین ایشیا میں ہندوستان کو ہی اپنا سب سے بڑا حریف مانتا ہے اور ایسے ہر موقع کو اپنے حق میں کرنے کی فکر میں رہتا ہے جس میں بیشک اس کا فائدہ نہ ہو، لیکن ہندوستان کا نقصان ضرور ہو۔ وہیں کووڈ کے دور میں بھی جاری اس کے توسیع پسندانہ جنون نے ایک الگ طرح کے حالات پیدا کردیے ہیں۔ اس سے ہندوستان سمیت آسٹریلیا، جاپان اور یہاں تک کہ امریکہ کو بھی اپنی دفاعی تیاریوں میں اضافہ کرنے کے لیے اضافی خرچ کرنا پڑرہا ہے، جس کا استعمال کووڈ سے لڑنے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ صرف کواڈ ممالک ہی نہیں، چین سے نکلے کورونا کے سبب زیادہ تر ممالک کی صنعتی-کمرشل سہولتیں تباہ ہوگئی ہیں، جب کہ پیداوار کے عالمی پاورہاؤس کے طور پر چین کی صنعتی پیداوار کا اعلیٰ سطح تک پہنچنا اس نازک دور میں بھی جاری رہا۔
تو کیا معیشت کے محاذ پر پرانی حالت بحال کرنے کے بعد چین اب اپنی سرحدوں پر بھی وہ سب کچھ حاصل کرلینا چاہتا ہے، جسے اس نے حال کے دنوں میں گنوایا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ چینی فوجی ابھی بھی گوگرا، ہاٹ اسپرنگ اور ڈیم چوک جیسے اسٹرٹیجک ٹھکانوں میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ تبتی پٹھار پر ان کی مستقل فوجی مشق اب بھی جاری ہے، جب کہ دیپلانگ کے میدانوں میں ہندوستانی گشت کو مسلسل روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان سب کے دوران بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کی خبروں کو عام طور پر نہیں لیا جاسکتا۔ ملک کا فوجی نظام بھی ان خدشات کو خارج نہیں کررہا ہے۔ ورنہ ایل اے سی پر 50سے 60ہزار فوجیوں کی مستقل تعیناتی کے منصوبہ کے پیچھے کی منشا کیا ہے؟ چین کی جانب سے کسی بھی طرح کی فوجی کارروائی کا منھ توڑ جواب دینے کے علاوہ اس کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ایل اے سی پر ایسے حالات بنتے نظر آرہے ہیں یا سب کچھ صرف احتیاط کے لیے کیا جارہا ہے؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)