یہ کیسا پیغام؟: زین شمسی

0

زین شمسی

نجیب جنگ کا انٹرویو دیکھ رہا تھا۔ بہت مایوس کن انداز میں بھارت کے حالات اور سیاست کے میدان کے وشوگرو عزت مآب نریندر مودی صاحب کی اس تقریر کا ذکر کررہے تھے جس میں انہوں نے مائنارٹی خاص کر مسلمانوں کو بھارت میں گھس پیٹھیا یعنی دراندازی کرنے والا بتایا ہے۔ وہ اس بات کا بھی ذکر کررہے تھے کہ کسی ملک کے وزیراعظم کے منھ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ وہ یہ کہیں کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرنے والی قوم ہے۔ وزیراعظم نے شاید یہ بات اپنی سیاسی مہم کے دوران راجستھان میں کہی۔ ظاہر ہے کہ پرائم منسٹر کے بہت زیادہ فالوور ہیں۔ کروڑوں کی تعداد میں لوگ انہیں یشسوی پردھان منتری گردانتے ہیں اور بہت تو ایسے ہیں جو ان کا موازنہ بھگوان سے بھی کرتے ہیں۔ ان کی زبان سے نکلی ہوئی کسی بات کو ان کا حکم تسلیم کرتے ہیں۔ خواہ تھالی بجانے والی بات ہو یا گھنٹی بجانے والی بات۔ ایک بار مودی جی نے جو کہہ دیا، وہی بھارت دیش کے بیشتر لوگ سچ مانتے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم نے جب یہ کہہ دیا کہ بھارت میں رہنے والے مسلمان گھس پیٹھیا ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ پیغام کروڑوں لوگوں تک پہنچ گیا۔ اس پیغام کے ردعمل میں ہوسکتا ہے کہ راجستھان کے الیکشن میں بی جے پی کو جیت نصیب ہوجائے اور حکومت بھی بی جے پی کی بن جائے مگر اس پیغام کے جو نتائج ہوں گے کیا پرائم منسٹر کو اس کا اندازہ نہیں ہے؟ کیا صرف الیکشن میں جیت درج کرنے کے لیے بھارت کے سیکولر ڈھانچے کو شکست دینا ضروری ہے؟ کیا سیاست بے اصول ہوتی ہے، اس کے کوئی ضابطے نہیں ہوتے، قاعدے نہیں ہوتے اور اگر ہوتے ہیں تو وزیراعظم اس سے بے خبر تو نہیں رہ سکتے؟ پھر اس طرح کا بیان دیش کی صحت کے لیے کیا مفید ہے؟ سماج کے لیے ضروری ہے؟

بھارت ایک سمندر کی طرح ہے۔ بہت ساری مشکلات اور پریشانیوں سے نبردآزما ہوکر بھی وہ اپنی رفتار نہیں بھولتا۔ ایسے بیانات بھارت کی ہم آہنگی، بھائی چارگی کو زخمی کرتے ہیں لیکن نہیں بھولنا چاہیے کہ حالات خواہ کتنے بھی خراب ہوں، ملک کا آئینی ڈھانچہ اسے گرنے نہیں دے سکتا۔
دراصل جانے انجانے میں نریندر مودی صاحب نے اپنے اس بیان سے ملک کے ان محب وطن مسلمانوں کی توہین کردی ہے جنہوں نے جناح کے لبھاؤنے سپنے کی فکر نہ کرتے ہوئے بھارت کو ہی اپنا اصل مسکن مانا تھا۔ انہوں نے ان مسلمانوں کی بھی توہین کردی جنہوں نے بھارت کی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کردیں۔ اپنے بچے اور اپنے رشتہ داروں کو کھویا۔ انہوں نے اشفاق اللہ، کیپٹن حمید، ذاکرحسین، اے پی جے عبدالکلام وغیرہ کو بھی اسی دائرہ میں لاکھڑا کیا۔

سیاست ایک سی نہیں ہوتی، یہ اپنا رنگ بدلتی ہے۔ اپنا بستر بدلتی ہے۔لیکن سماج کا تانابانا برسوں کی کاوشوں، تجربوں، مشاہدوں اور خدمات و احساسات کے خمیر سے بنا ہوتا ہے۔ اس پر ضرب کاری اسے مضمحل تو کرتی ہے لیکن اسے فنا نہیں کرسکتی۔ ملک کا یہی مشترکہ کلچر ہے جو یہ بتاتا ہے کہ
یونان، مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی، نام و نشاں ہمارا
تو اس نام و نشان کو بہت آسانی کے ساتھ مٹایا نہیں جاسکتا۔ اس کے نام بدلے جاسکتے ہیں۔ شہروں، اسٹیشنوں کے نام تبدیل کیے جاسکتے ہیں مگر ان شہروں اور اسٹیشنوں پر موجود عوام کے دلوں کو یکلخت بدل دینا ناممکن ہی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کے بڑے بڑے رہنما، ترجمان اور دانشوران ایسی بات کہیں تو اس کے ردعمل میں کئی لوگ سامنے آجاتے ہیں اور سوالوں کی گردن مروڑ دی جاتی ہے مگر جب وزیراعظم ایسی بات کریں تو پھر اس طرح کی تقریر کا بہت زیادہ منفی اثر ہونے کا خطرہ ہے۔
یوں تو ملک کے جو حالات ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، مگر انتخابات کی لے میں اگر قابل اعتراض جملوں کا استعمال ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن اس پر اعتراض درج کرتا ہے۔ مگر کیا الیکشن کمیشن کو اتنی جرأت ہے کہ وہ وزیراعظم کے منھ سے نکلی ہوئی آواز پر کسی طرح کا ردعمل دے۔ یوں ہی بھارت کے آئینی ڈھانچہ کے تحت قائم کی گئی ایجنسیاں گزشتہ کئی برسوں سے عنان حکومت کے سامنے خودسپردگی کا مظاہرہ کرچکی ہیں۔ یہاں تک کہ عدلیہ کے فیصلہ پر بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ ای ڈی، سی بی آئی اور دیگر ایجنسیاں حکومت کے حق میں کتنے بے جا فیصلے سناچکی ہیں اور سب سے خطرناک کام تو قومی دھارہ میں شامل ہندوستانی میڈیا نے کردیا ہے، جس نے نفرت کو عام کرنے کا جو بیڑہ اٹھایا، اس نے صحافت کا بیڑہ ہی غرق کردیا۔

مظالم کی ستائش کا دور حیرت انگیز کردینے والا ہے۔ ماب لنچنگ، گائے کے نام پر قتل عام، بلڈوزر کلچر، انکاؤنٹر پر رقص، اذان، نماز، حجاب پر ٹی وی پر مباحث کا رویہ اور اس کے نتیجے میں سرعام قتل ہندوستانی معاشرہ میں ایک عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ اسلاموفوبیا کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ بات محمد مصطفیؐ کی اہانت تک پہنچ گئی۔ اتنے سارے واقعات و حوادث کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی صاحب خاموش رہے۔ جس سے سماج دشمنوں کو یہ سمجھتے دیر نہیں لگی کہ حکومت غنڈہ گردی کی خاموش حمایتی ہے۔ جرائم کو صرف اس لیے سراہا گیا کہ مرنے والا یا جیل جانے والا مسلمان ہے۔
وزیراعظم کا یہ بیان واقعی شرمندہ کردینے والا ہے اور یہ بیان اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اب تک جو کچھ بھی ہوا، وہ کبھی نہیں ہوتا اگر نریندر مودی صاحب اپنی زبان کھولتے اور جب انہوں نے زبان کھولی تو ماجرا ہی نیا تھا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS